Hathi Ki Cycle - Article No. 1559

Hathi Ki Cycle

ہاتھی کی سائیکل - تحریر نمبر 1559

ننھا ہاتھی جنگل میں صبح کی سیر کے لیے نکلا تھا لیکن جب اس کی نظر ایک چھوٹی سی خوب صورت دو پہیوں والی سائیکل پر پڑی تو وہ سیر کو بھول کر سائیکل کی طرف لپکا۔سائیکل بہت صاف اور چمک دار تھی۔

جمعہ 1 نومبر 2019

ننھا ہاتھی جنگل میں صبح کی سیر کے لیے نکلا تھا لیکن جب اس کی نظر ایک چھوٹی سی خوب صورت دو پہیوں والی سائیکل پر پڑی تو وہ سیر کو بھول کر سائیکل کی طرف لپکا۔سائیکل بہت صاف اور چمک دار تھی۔نئی معلوم ہوتی تھی۔کسی نے اسے درخت کے تنے کے سہارے کھڑا کررکھا تھا۔سائیکل کے قریب پہنچ کر ننھا ہاتھی اسے غور سے دیکھنے لگا،کتنی خوبصورت سائیکل ہے۔ننھا ہاتھی دل میں سوچنے لگا۔

بالکل ویسی ہی ہے جیسی اس دن ایک بچے کے پاس دیکھی تھی۔
ننھا ہاتھی سائیکل کو ہر طرف سے دیکھ رہا تھا اور سوچ رہا تھا کہ کاش!ایسی سائیکل اس کے پاس بھی ہوتی ۔یہ سائیکل کس کی ہے․․․؟
اس نے اپنے آپ سے پوچھا۔پھر خود ہی کہنے لگا۔اگر کوئی دیکھ نہیں رہا تو پھریہ سائیکل میری ہو گئی۔یہ سوچ کر اس نے چاروں طرف دیکھا۔

(جاری ہے)

جنگل سنسان تھا۔ہاں یہ سائیکل میری ہے ۔

یہ کہہ کر ننھا خوشی خوشی اچک کر سائیکل پر بیٹھ گیا۔اس نے آہستہ آہستہ پیدل مارنے شروع کر دیے۔سائیکل چلنے لگی۔مارے خوشی کے ننھے ہاتھی کا دل زور زور سے دھڑک رہا تھا۔اب وہ سائیکل کو چوڑے راستے پر لے آیا اور تیز تیز پیڈل مارنے لگا،لیکن اس کا دل یکا یک اداس ہو گیا۔یہ سائیکل بہت اچھی ہے لیکن میری تو نہیں ہے۔ہاں یہ سائیکل کسی اور کی ہے ۔
تو کیا میں نے چوری کی ہے۔کیا میں چور ہوں۔نہیں نہیں،میں چور نہیں ہوں،مجھے تو یہ سائیکل جنگل میں پڑی ملی ہے۔اس لیے میری ہو گئی۔ہاں یہ میری سائیکل ہے۔
یہ سوچ کر ننھے ہاتھی نے سائیکل کی رفتار دوبارہ تیز کردی ۔اتنے میں اسے چوہا نظر آیا۔چوہا ایک پرانے درخت کے کھوکھلے تنے میں بیٹھا کہانیوں کی کتاب پڑھ رہا تھا۔
کیا حال ہے بھائی چوہے․․․؟ہاتھی نے ہاتھ لہرایا۔

پھر اس نے سائیکل روک دی اور چوہے سے بولا۔میں اپنی سائیکل پر صبح کی سیر پر نکلا ہوں۔
چوہا حیرت سے بولا۔اپنی سائیکل پر ۔یہ سائیکل تمہاری کہاں سے ہو گئی․․․؟
ہاتھی نے جواب دیا۔ہاں،ہاں یہ میری سائیکل ہے،دیکھ نہیں رہے اسے میں ہی چلا رہاہوں۔
چوہے نے کہا لیکن تمہارے چلانے سے یہ سائیکل تمہاری تو نہیں ہو گئی۔یہ اس بچے کی سائیکل ہے جو جنگل کے ایک کونے میں چھوٹے سے مکان میں رہتا ہے۔
میں نے خود اسے یہ سائیکل چلاتے ہوئے دیکھا ہے۔ہماری مس کہتی ہیں کہ کوئی چیز پڑی ہوئی ملے تو اسے رکھ نہیں لیتے۔
یہ سن کر ہاتھی نے فوراً سائیکل چلادی اور چوہے سے کہا،جاؤ،جاؤ،اپنا کام کرو،یہ سائیکل میری ہے۔کہنے کو تو ہاتھی نے یہ بات کہہ دی تھی ،لیکن وہ دل ہی دل میں ڈر رہا تھا کہ کہیں چوہا اس کی شکایت نہ کر دے ،اب وہ سائیکل تیز تیز چلانے لگا۔
اس نے سائیکل میں لگی ہوئی گھنٹی بجائی ٹرن ٹرن۔گھنٹی بجانے میں اسے اتنا مزہ آیا کہ اس نے کئی مرتبہ گھنٹی بجائی۔خوشی سے اس نے ایک چنگھاڑ ماری اور پھر گھنٹی بجانے لگا۔چوں چوں چڑیا اس وقت اپنے گھونسلے میں ناشتا تیار کررہی تھی،جب اس نے گھنٹی کی ٹرن ٹرن اور ننھے ہاتھی کی چنگھاڑ سنی تو بولی۔
خیر تو ہے،اسکول نہ جانے پر جب ننھے ہاتھی کی پٹائی ہوتی ہے تو روز ہی چنگھاڑتاہے مگر آج یہ گھنٹیاں کیوں بجا رہا ہے۔
جب چڑیا کی نظر ننھے ہاتھی پر پڑی تو یہ دیکھ کر اس کی آنکھیں حیرت سے پھٹی کی پھٹی رہ گئیں کہ ننھاہاتھی ایک خوب صورت نئی سائیکل پر گھنٹی بجاتا چلا آرہاہے۔
یہ ہاتھیوں کے پاس اتنا پیسہ کہاں سے آگیا کہ وہ اپنے بچے کو ایسی قیمتی سائیکل دلادیں۔ہو نہ ہوا س نے یہ سائیکل کہیں سے ہتھیائی ہے۔
چوں چوں چریا بڑ بڑائی۔
پھر چوں چوں چڑ یازور سے اڑی تاکہ جنگل کے سب جانوروں کو یہ بتاسکے کہ ننھے ہاتھی کو کہیں سے سائیکل ہاتھ لگی ہے جس پر وہ بیٹھا چلا آرہا ہے۔
لیکن اس نے دیکھا کہ تمام جانور پہلے ہی ایک جگہ جمع ہو چکے ہیں اور آپس میں مشورہ کر رہے ہیں کہ یہ سائیکل کس کی ہے اور ننھے ہاتھی سے واپس کس طرح لی جائے۔دراصل چوہے نے تمام جانوروں کو جمع کرکے انہیں ساری بات بتادی تھی۔چوں چوں چڑیا بھی ان کے ساتھ شامل ہو گئی۔
سب جانوروں نے فیصلہ کیا کہ یہ سائیکل ننھے ہاتھی سے واپس لے کر اس بچے کو دے دی جائے جو اس سائیکل کا مالک ہے۔

اتنے میں سائیکل کی ٹرن ٹرن سنائی دی اور ننھا ہاتھی سائیکل پر آتا دکھائی دیاننھے ہاتھی نے جب دیکھا کہ تمام جانور ایک جگہ جمع ہیں اور اسے غور سے دیکھ رہے ہیں تو وہ گھبرا گیا۔جیسے ہی اس کی سائیکل ان جانوروں کے نزدیک پہنچی سب نے اسے گھیر لیا۔
یہ سائیکل تم نے کہاں سے خریدی ۔خرگوش نے سائیکل پر ہاتھ پھیرتے ہوئے پوچھا۔
خریدے گا بھلا کہاں سے ،کسی کو ڈرا دھمکا کر لے لی ہوگی“۔
چوہے نے کہا۔
نہیں،نہیں یہ سائیکل میں نے کسی سے چھینی نہیں ہے۔یہ میری سائیکل ہے ۔ننھے ہاتھی نے جواب دیا۔
تو پھر بتاؤ کہاں سے آئی تمہارے پاس ۔لومڑی نے اسے ڈانٹ کر کہا۔”کہیں پڑی ہوئی ملی تھی تو اس کے مالک کو بھی ڈھونڈتے۔
ننھے ہاتھی نے جب دیکھا کہ اب اس کی خیر نہیں تو سامنے کھڑے ہوئے بندر کو ایک طر ف دھکا دیا اور سائیکل تیزی سے نکال کر لے گیا۔

سارے جانور چلائے:لینا،پکڑ نا ،دوڑو،جانے نہ پائے۔لیکن ہاتھی نے سائیکل کو بہت تیز چلایا اور کافی آگے نکل گیا۔
خرگوش نے کہا:میری رفتار تیز ہے،میں اسے پکڑ لوں گا ۔یہ کہہ کر وہ ننھے ہاتھی کے پیچھے لپکا۔لومڑی اور چوہا بھی اس کے پیچھے بھاگے۔چوں چوں چڑیا بھلا کب پیچھے رہتی۔وہ بھی اڑتی ہوئی ہاتھی کے پیچھے گئی۔
ننھے ہاتھی نے جو مڑ کر دیکھا تو خرگوش ،لومڑی،چوہے اور چڑیا کو اپنا پیچھا کرتا پایا۔
اس نے سائیکل کی رفتار اور بڑھادی۔
اب سائیکل خطر ناک حد تک تیز ہو چکی تھی اور ہاتھی کے قابو سے باہر ہونے لگی تھی۔اتنے میں ایک بڑا ساپتھر سائیکل کے راستے میں آیا ۔اس سے ٹکرا کر سائیکل جو اچھلی تو ہاتھی اسے سنبھال نہ سکا اور سائیکل کے ساتھ دھڑام سے زمین پر آرہا،ہاتھی کے سر پر شدید چوٹ آئی اور بے ہوش ہو گیا۔
ننھے ہاتھی کو جب ہوش آیا تو وہ ہسپتال میں تھا۔
اس کے سر پر پٹی بندھی ہوئی تھی ۔سارے جانور جمع تھے۔ممی ہاتھی اور پپا ہاتھی بھی اس کے پلنگ کے پاس کھڑے تھے۔ہاتھی کو ہوش آیا تو ممی ہاتھی نے کہا۔
دیکھو بیٹا․․․․!اگر کوئی چیز کہیں پڑی ملے تو وہ ہماری نہیں ہو جاتی۔تم نے کسی کی چیز لے لی اور پھر جھوٹ بھی بولا کہ یہ میری ہے۔تمہیں اس کی سزا ملی ہے۔
ننھے ہاتھی نے کہا:امی مجھ سے غلطی ہو گئی۔
مجھے معاف کر دیجئے۔
پپا ہاتھی نے کہا:تمہیں اپنی غلطی کا احساس ہو گیا،یہ بہت اچھی بات ہے۔ہم تمہارے لیے ایک ایسی ہی سائیکل لے آئیں گے،لیکن وعدہ کر و آئندہ کوئی ایسی حرکت نہیں کروگے تم۔
وعدہ ،ابو وعدہ!ننھا ہاتھی جلدی سے بولا۔
سب جانوروں نے باری باری ننھے ہاتھی کو سمجھایا اور تسلی دی اور چوں چوں چڑیا پھر جلدی سے اڑ گئی تاکہ جنگل میں یہ خبر سب کو سنادے کہ ننھے ہاتھی نے اپنی غلطی مان لی ہے۔

Browse More Moral Stories