Ache Dost - Article No. 2116

Ache Dost

اچھے دوست - تحریر نمبر 2116

اچھے دوست اور بُرے دوست میں کیا فرق ہوتا ہے

بدھ 17 نومبر 2021

قرة العین خرم ہاشمی،لاہور
رضوانہ بیوہ عورت تھی۔اس کے شوہر کا ایکسیڈنٹ میں انتقال ہو گیا۔اس کے تین بچے تھے۔سب سے بڑا بیٹا مرتضیٰ،بیٹی ہما اور سب سے چھوٹا علی تھا،جو آٹھویں کلاس میں پڑھتا تھا۔مرتضیٰ ایم اے کر رہا تھا۔ساتھ ساتھ وہ ٹیوشن بھی پڑھاتا تھا۔ہما ایف۔اے کی طالبہ تھی۔وہ بھی ٹیوشن پڑھا کر اپنی تعلیم کا خرچہ اُٹھا رہی تھی۔
صرف ایک علی تھا جو بہت لاپرواہ قسم کا لڑکا تھا۔اسے کھیل کود سے فرصت نہیں ملتی تھی۔آج کل اس کی دوستی محلے کے سب سے بدنام گروپ سے ہو رہی تھی،جس پر رضوانہ کو تشویش لاحق تھی۔
”امی!علی کہاں ہے؟“مغرب کے وقت تھکا ہارا مرتضیٰ گھر میں داخل ہوا تو سوال کیا۔
”تھوڑی دیر کھیلنے کا کہہ کر گیا تھا اور ابھی تک نہیں آیا۔

(جاری ہے)

“رضوانہ نے فکر مندی سے کہا۔


”جی نواب صاحب اپنے دوستوں کے ساتھ صدر میں گھوم پھر رہے ہیں۔“مرتضیٰ نے طنزیہ انداز میں کہا تو رضوانہ چونک گئی۔
”مگر وہ تو کہہ رہا تھا کہ ․․․“رضوانہ چپ کر گئی۔
”امی وہ ہر روز گلی میں کھیلنے کا کہہ کر کہیں اور چلا جاتا ہے۔“ہما نے بھائی کو پانی پیش کرتے ہوئے کہا۔رضوانہ پریشان ہو گئی۔
”اچھا آپ فکر مت کریں۔
میں اسے سمجھاؤں گا۔“مرتضیٰ نے ماں کو تسلی دی۔
اگلے دن مرتضیٰ نے علی کو پاس بیٹھا کر پیار سے سمجھایا:”دیکھو علی!انسان کی پہچان اپنے دوستوں سے ہوتی ہے۔“علی سر جھکائے سُنتا رہا،مگر اثر کچھ نہ ہوا۔
وقت تیزی سے گزرنے لگا۔علی بہت جلد پاشا کے رنگ میں رنگ رہا تھا۔اس کا پڑھائی میں بھی دل نہیں لگتا تھا۔گھر والے سمجھا سمجھا کر تھک گئے تھے،مگر علی کسی کی نہیں سُنتا تھا۔

ایک دن مارکیٹ کی ایک مشہور کریانہ اسٹور میں چوری ہو گئی۔پہلا شک پاشا اور اس کے گروپ پہ گیا۔کیونکہ چوری کے وقت وہ آس پاس موجود تھے۔پولیس پاشا اور اس کے سب ساتھیوں کو پکڑ کر لے گئی۔ان میں علی بھی شامل تھا۔
علی کے گھر والوں کے لئے یہ صدمہ بہت بڑا تھا۔مرتضیٰ بھائی کو بچانے کے لئے جدوجہد کرنے لگا۔پولیس نے تفتیش شروع کر دی۔جب پولیس نے سختی سے کام لیا تو پاشا نے مان لیا کہ اسی نے چوری کی ہے۔
پاشا کے سب ساتھیوں نے اعتراف کر لیا،مگر علی بے قصور ثابت ہوا تو دو دن بعد پولیس نے اسے چھوڑ دیا۔
علی جب گھر آیا تو رضوانہ دروازے پہ کھڑی تھی۔علی کا حال بہت بُرا تھا۔پولیس نے اسے بھی مارا تھا۔علی ماں سے لپٹ گیا اور دھاڑیں مار مار کر رونے لگا۔
”بھائی مجھے معاف کر دیں۔“علی نے مرتضیٰ کی طرف دیکھا اور اس کے سامنے ہاتھ جوڑ دئیے۔

”علی!شکر کرو کہ تم پر کوئی الزام ثابت نہیں ہوا اور پولیس نے تمہیں چھوڑ دیا۔اسی وقت کے لئے تمہیں سمجھاتے تھے کہ اچھے لڑکوں سے دوستی کرو۔بُرے لوگوں کی دوستی کا انجام بھی بُرا ہوتا ہے۔“مرتضیٰ نے بھائی کو پیار کرتے ہوئے سمجھایا۔
”بھائی!اب میں سمجھ گیا ہوں کہ ایک اچھے دوست اور بُرے دوست میں کیا فرق ہوتا ہے۔“
علی نے کہا تو ان سب نے شکر ادا کیا۔اس واقعے نے علی کو ہمیشہ کے لئے کھرے اور کھوٹے لوگوں کی پہچان کروا دی تھی۔

Browse More Moral Stories