Khidmat E Khalq - Article No. 2548

Khidmat E Khalq

خدمتِ خلق - تحریر نمبر 2548

انشاء اللہ امی! میں نے سب سے زیادہ دادا کو ستایا ہے ضعیفی کی وجہ سے وہ اپنے جو کام نہیں کر سکتے آج سے میں کر کے دوں گا

منگل 27 جون 2023

شائستہ زریں
عدیل نہایت بدتمیز بچہ تھا اُس کے ضعیف دادا اُس سے بہت محبت کرتے لیکن عدیل کو اُن کی ذرا سی بھی پرواہ نہیں۔وہ اُن کو کچھ سمجھتا ہی نہیں تھا۔دادا اُونچا سنتے اگر وہ عدیل کی بات نہیں سُن پاتے تو عدیل اُن پر غصہ کرتا چیختا چلاتا۔گھر کے ملازموں کو بھی بات بات پر جھڑکتا۔دروازے پر آنے والے بھکاری کو دُھتکارتا۔
عدیل کی امی اُس کو بہت سمجھاتیں کہ ”بیٹا!اخلاق سے بڑی کوئی چیز نہیں اگر تم خوبصورت ہو،ذہین ہو تو یہ سب اللہ کی عطا ہے اس پر اللہ کا شکر ادا کیا کرو۔ہر انسان کا دوسرے انسان پر حق ہے اور سب سے بڑا حق انسانوں سے عزت اور محبت کرنا ہے۔اگر کسی کو تمہاری ضرورت ہے تو اس کے کام آنا بہت بڑی نیکی ہے۔اگر تمہارے دل میں دوسرے کے لئے درد نہیں تو تم کبھی اچھے انسان نہیں بن سکتے۔

(جاری ہے)

اوروں کی خاص طور پر ضعیفوں،غریبوں اور محتاجوں کی مدد کرنا بھی عبادت کے برابر ہے اور یہ وہ فعل ہے جس سے اللہ بہت خوش ہوتا ہے۔“
امی کی باتیں عدیل ایک کان سے سُن کر دوسرے کان سے اُڑا دیتا۔اُن کا مذاق اُڑاتا اور اُن کو ستانے کے لئے ہر وہ کام کرتا جس سے وہ منع کرتیں خاص طور پر اپنے دادا کو بہت ستاتا تھا حالانکہ وہ عدیل سے بہت محبت کرتے تھے۔
ایک روز عدیل بہت فخر سے بتا رہا تھا ”آج ایک بڑے میاں جا رہے تھے اُن کی لاٹھی نیچے گر گئی میں نے اُٹھا لی اُنہوں نے مانگی تو میں نے کہ دیا جس کی لاٹھی اُس کی بھینس اب یہ تمہاری نہیں میری ہے بُڈھے“ بڑے میاں لاٹھی تھام کر چلتے تھے اُنہوں نے بہت خوشامد کی کہ مجھ کو دے دو میں نے نہیں دی اور لاٹھی دور پھینک دی“ اتنی دیر میں حماد آ گیا اس کو خدمتِ خلق کی بیماری ہے بھاگ کر اُس نے لاٹھی اُٹھائی اور بڑے میاں کے ہاتھ میں لاٹھی دے کر اُن کا ہاتھ تھام کر اُن کو سڑک پار کروا دی“ ابھی عدیل بات کر ہی رہا تھا کہ اُس کا چہیتا دوست روفی آ گیا اُس کی آواز سُن کر عدیل تیزی سے بھاگا اور دروازے سے ٹکڑا کر بری طرح گرا کہ تکلیف سے اُس کی چیخیں نکل گئیں۔
فوراً اُس کو ہسپتال لے گئے۔ڈاکٹر نے معائنے کے بعد بتایا فریکچر ہو گیا ہے تین مہینے تک پلاسٹر چڑھا رہے گا۔
عدیل بستر سے بھی نہیں اُٹھ پا رہا تھا اب وہ پانی پینے تک کے لئے اوروں کا محتاج تھا جیسے جیسے دن گزرتے جا رہے تھے وہ نیکی اور بدی کی کشمکش میں مبتلا تھا۔ایک دن اُس نے اپنی امی سے سوال کیا کہ کیا اوروں کے کام آنا بہت بڑی نیکی ہوتی ہے؟اس کی امی نے کہا”بیشک بہت بڑی نیکی ہوتی ہے اچھا انسان وہی ہے جو اوروں کے دُکھ سُکھ کو محسوس کرے اور ضرورت پڑنے پر کام بھی آئے۔
ایسے لوگوں سے اللہ بھی بہت خوش رہتا ہے سب ہی محبت کرتے ہیں اور وہ جن کے دل میں محبت،ہمدردی اور رحمدلی نہ ہو وقت پڑنے پر کترا کر گزر جاتے ہیں اُنھیں کوئی بھی اچھا نہیں سمجھتا“ امی!میں تو بہت بُرا انسان ہوں۔انسانوں کے ساتھ بُرا سلوک کرتا ہوں۔اگر میں لوگوں کے زیادہ سے زیادہ کام آؤں تو کیا اللہ مجھے معاف کر دے گا“ ”کیوں نہیں عدیل۔اللہ ضرور معاف کر دے گا۔لیکن کیا ہی اچھا ہو کہ تم نے جن لوگوں کے ساتھ بُرا سلوک کیا ہے اُن سے بھی معافی مانگ لو اور اللہ سے وعدہ کرو کہ آئندہ یہ غلطی نہیں دہراؤ گے۔انشاء اللہ امی! میں نے سب سے زیادہ دادا کو ستایا ہے ضعیفی کی وجہ سے وہ اپنے جو کام نہیں کر سکتے آج سے میں کر کے دوں گا“۔

Browse More Moral Stories