Faraar - Article No. 2302

Faraar

فرار - تحریر نمبر 2302

کام کا سوچ کر نوری کا دماغ چکرانے لگا بھوک سے اس کے معدے میں آنتیں مزید سکڑنے لگیں۔وہاں پر رہنا ناقابل برداشت ہو گیا تھا اس نے یہ سوچ لیا تھا کہ یہ دن گزرتے ہی وہ یہاں سے چلی جائے گی

جمعہ 8 جولائی 2022

ایمان خان
”نوری‘او نوری․․․․کہاں مر گئی‘لو جی ذرا دیکھو اسے مہارانی صاحبہ کیسے گھوڑے بیچ کر سو رہی ہے۔“
”جی باجی‘اُٹھ گئی باجی“۔
”نا تو مجھے یہ بتا یہ جو سارا کام بکھرا پڑا ہے تیرا باپ کرے گا؟مفت کی روٹیاں توڑ توڑ کے تیری یہ حالت ہو گئی ہے۔آج تو دیکھیں ذرا صرف ایک وقت کھانا ملے گا تو تیرے ہاتھ پاؤں بھی چلیں گے اور تیرا دماغ بھی ٹھکانے آ جائے گا۔
جلدی سے جا صاحب کو کپڑے دے کر آ پھر بچوں کے لئے ناشتہ بھی بنانا ہے۔“
نوری چھلانگ لگا کر اُٹھی جلدی سے اپنا بستر تہہ لگایا‘منہ پر پانی کے چھینٹے مارے اور تیزی سے باورچی خانے کا رُخ کیا۔چولہے کے ایک طرف چائے کا پانی چڑھایا اور دوسری طرف چھوٹے چھوٹے ہاتھوں سے روٹیاں بنانے لگی۔

(جاری ہے)


نوری عبدالکریم صاحب کے گھر ملازمہ تھی اس کو چند دن ہوئے تھے کام پر آئے ہوئے۔

نوری کے ابو اس کے پیدا ہونے کے ایک سال بعد ہی چل بسے تھے اور اس کی ماں تین سال پہلے کینسر کے جان لیوا مرض میں مبتلا ہو کر اس دنیا سے رخصت ہو گئی۔نوری کے چچا نے اسے یہاں کام پر لگایا تھا اس وقت اس کی عمر صرف 9 برس تھی۔
نوری باورچی خانے سے فارغ ہوئی تو باہر سے پھر مالکن کی آواز آئی․․․”نوری‘او نوری۔“
”جی آئی باجی صاحبہ۔

”شام کو مہمان آ رہے ہیں دعوت کی تیاری کرنی ہے۔“
”مہمان؟کیا مصیبت ہے۔“نوری کو اپنی آنکھوں کے سامنے برتنوں کا انبار نظر آنے لگا۔
”جلدی ہاتھ چلا۔اور سُن آج گیسٹ روم کی ذرا اچھی طرح سے صفائی کر دینا اور ذرا دھیان سے اگر اس بار کوئی چیز ٹوٹی تو تیری ہڈیاں توڑ دینی ہیں میں نے۔“نوری کو پچھلی والی مار یاد آ گئی جو ایک گلدان ٹوٹنے پر اس کو صاحب جی کے موٹے چمڑے والے بیلٹ سے پڑی تھی۔
اس مار کے زخم بھر جاتے ہیں لیکن اپنے نشان چھوڑ جاتے ہیں۔نوری کے ہاتھ پر اس مار کا نشان آج بھی موجود تھا جو حیرت انگیز طور پر ایک تتلی کی شکل اختیار کر گیا تھا۔گیسٹ ہاؤس سے لے کر گھر کی صفائی کرنے کے بعد وہ باورچی خانے میں چلی گئی اور اپنی مالکن کے دیئے ہوئے احکامات کے مطابق کام کرنے لگی۔
دیر رات تک مہمانوں کی خاطر سے فارغ ہونے کے بعد نوری کی حالت خراب ہونے لگی سارے دن کی انتھک محنت کے بعد اس کے ننھے سے جسم کو تھکاوٹ نے گھیر لیا تھا۔
اس کی کمزور ہڈیاں درد سے ٹوٹ رہی تھیں۔ایک طرف کاموں کے ڈھیر تھے جو اس کو کرکے سونے تھے دوسری طرف وہ خود تھی جو برآمدے میں بیٹھی وہیں ڈھیر ہو رہی تھی۔سامنے سے آنے والے ہوا کے جھونکے اس کو نیند کی تھپکیاں دینے لگے اس کو یوں محسوس ہوا جیسے وہ اپنی ماں کی آغوش میں لیٹی سو رہی ہے۔اس کے وجود کی غنودگی فضا میں گھلنے لگی۔بھاڑ میں جائے کام بھاڑ میں جائیں برتن میں سونے لگی ہوں۔
نوری وہیں لیٹی لیٹی سو گئی۔
اچانک مالکن کی ٹھوکر لگنے سے اس کی آنکھ کھلی ”ہڈ حرام کام چور‘سارا گھر بکھرا پڑا ہے اور تو پھر آرام کرنے لگی۔چل اُٹھ یہاں سے جا کر میرے لئے چائے بنا کر لا‘صبح سے بھاگ بھاگ کے میری تو حالت خراب ہو رہی ہے۔“نوری خاموشی سے اُٹھی چائے بنانے چلی گئی۔
برتنوں کو دیکھا تو اسے لگا جیسے اسے منہ چڑھا رہے ہیں‘اس کی طرف دیکھ کر مسکرا رہے ہیں۔
نوری غصے میں برتنوں کی طرف بڑھی اور ان سے کشتی لڑنے لگی۔سارے برتن دھونے کے بعد اس کو خیال آیا کہ ابھی آٹا بھی گوندھنا ہے اور بکھرے ہوئے گھر کو سمیٹنا بھی ہے۔آج سزا کے طور پر اس کو دوپہر کو ایک وقت ہی کھانا ملا تھا۔مالکن کا خیال تھا کہ اگر نوکروں کو ہر وقت کھانا کھلاتے رہو تو وہ کام نہیں کرتے سُست ہو جاتے ہیں حالانکہ آج دعوت تھی طرح طرح کہ کھانے پکے تھے لیکن نوری کی ہمت نہیں تھی کچھ بچا ہوا بھی اُٹھا کر کھا لے۔
کام کا سوچ کر نوری کا دماغ چکرانے لگا بھوک سے اس کے معدے میں آنتیں مزید سکڑنے لگیں۔وہاں پر رہنا ناقابل برداشت ہو گیا تھا اس نے یہ سوچ لیا تھا کہ یہ دن گزرتے ہی وہ یہاں سے چلی جائے گی۔اسے پنجرے میں بند پرندوں کا دُکھ بہت اچھے سے سمجھ میں آتا تھا۔
اگلی صبح رہائی کا دن تھا اس کا اور پرندوں کے فرار کا دن۔وہ خود بھی چلی گئی تھی اور جاتے ہوئے سارے پنجرے بھی کھول گئی تھی۔

Browse More Moral Stories