Lazeez Kheer - Article No. 1867

Lazeez Kheer

لذیذ کھیر - تحریر نمبر 1867

جب میں نے آپ کی بنائی ہوئی باقی کھیر فریج میں رکھنے سے پہلے چکھی تو مجھے معلوم ہوا کہ آپ نے کھیر میں چینی کی بجائے

جمعہ 8 جنوری 2021

بنت محمد اقبال
میں اس وقت اپنی سہیلی ہادیہ کے گھر دعوت میں شریک تھی کہ میرے چھوٹے بھائی نے آکر آہستہ سے کچھ کہا۔
”ارسلان!یہ کیسا مذاق ہے؟“میں نے اپنے بھائی ارسلان کو گھورتے ہوئے دانت پیسے۔
”نہیں آپی،یہ مذاق نہیں ہے۔میں سچ کہہ رہا ہوں۔“ارسلان پُراعتماد لہجے میں بولا۔
”اچھا!تو تمہیں کیسے پتا چلا؟“مجھے اب تک اس کی بات پر یقین نہیں آرہا تھا۔

”آپی!جب میں نے آپ کی بنائی ہوئی باقی کھیر فریج میں رکھنے سے پہلے چکھی تو مجھے معلوم ہوا کہ آپ نے کھیر میں چینی کی بجائے نمک ڈال دیا ہے۔“وہ اِدھر اُدھر دیکھ کر سرگوشی کے انداز میں بولا۔
”اچھا ٹھیک ہے۔تم جاؤ اور کسی کو کچھ نہ بتانا۔“میں نے تاکیدی لہجے میں کہا تو ارسلان چلا گیا۔

(جاری ہے)

ہادیہ کا گھر میرے گھر کے سامنے ہی تھا۔

ہادیہ نے یہ دعوت سالانہ امتحان میں پہلی پوزیشن لینے پر دی تھی۔اس دعوت میں میرے علاوہ ہماری دو اور سہیلیاں عافیہ اور سمیرا بھی مدعو تھیں۔چونکہ ہم تینوں بھی اچھے نمبروں سے پاس ہوئیں تھیں،اس لئے طے یہ پایا تھا کہ ہم بھی ایک ایک پکوان گھر سے بنا کر لائیں۔میں نے کھیر بنانے کی ٹھانی اور بنا بھی لی،لیکن شاید بجلی چلے جانے کی وجہ سے میں نے اس میں چینی کے بجائے نمک شامل کر دیا تھا۔
اب جب ارسلان نے مجھے یہ اطلاع دی تو میری تو حالت خراب ہونے لگی۔مجھے اچھی طرح معلوم تھا کہ اگر میری سہیلیوں نے میری بنائی ہوئی نمکین کھیر چکھ لی تو وہ تو ساری زندگی میرا مذاق اُڑائیں گی اور ہادیہ!اف اللہ! وہ تو اسکول،مدرسے اور محلے میں میری بدمزہ کھیر کا ڈھنڈورا پیٹ دے گی۔وہ ویسے تو بہت اچھی لڑکی ہے،لیکن عیب جوئی کو اپنا فرض سمجھتی ہے۔
یہاں تک کہ اپنے بہن بھائیوں تک کی پردہ پوشی نہیں کرتی۔ یہ سب سوچنے کے بعد میں نے ان سب کی نظر بچا کر کھیر اِدھر اُدھر کرنے کا فیصلہ کیا،لیکن افسوس!یہ ناممکن تھا،کیونکہ میں تھوڑی دیر پہلے ان کے سامنے اپنی”لذیذ کھیر“کی تعریفوں کے لمبے لمبے پل باندھ چکی تھی۔اب اگر میں ایسا ویسا کچھ کرتی تو سب محسوس کر لیتے۔
”کیا ہوا عائشہ!یہاں کیوں کھڑی ہو؟“یہ ہادیہ کی آواز تھی۔

”وہ،ویسے ہی۔“میں دھڑکتے دل کے ساتھ ہکلاتے ہوئے کہا۔
”اچھا آؤ،کھانا لگ چکا ہے۔“اس نے کہا اور پھر ہم دونوں کھانے کی میز پر آگئے۔
”بھئی!میں تو سب سے پہلے اپنی پسندیدہ ڈش،کھیر کھاؤں گی اور سب یہ بھی سن لیں کہ اگر کھیر مزے کی ہوئی تو ساری کی ساری میری ہو گی۔“کھانا شروع ہوتے ہی ہادیہ کے اس’اعلان‘نے میری دھڑکن بے ترتیب کر دی۔

”کیوں بھئی!کس خوشی میں؟“عافیہ نے ہاتھ نچا کر کہا تو ہادیہ بولی:”میرے اعزاز میں تم لوگ مجھے کوئی تحفہ تو دو گے نہیں۔اب اگر میں یہ کھیر تم لوگوں کی طرف سے تحفہ سمجھ کر رکھ لوں گی تو کیا بُرائی ہے؟اور ویسے بھی میٹھے میں تو اور بھی بہت کچھ یہاں موجود ہے۔“
”اچھا بھئی !پہلے چکھ تو لو۔آخر عائشہ نے خود بنائی ہے۔
ایسا نہ ہو کہ تم سے ایک چمچ بھی نہ نگلا جائے۔”سمیرا نے مجھ پر شوخی میں بجھا طنز کا تیر چلایا،لیکن اس وقت میں مسکرانے کے علاوہ کوئی جوابی کارروائی کرنے کے قابل نہ تھی۔
”واہ بھئی!مزہ آگیا۔اتنی لذیذ کھیر!“ہادیہ کھیر کا ایک چمچ منہ میں ڈال کر خوشی سے اُچھلی۔
”کیا بہت مزے کی ہے؟“میں نے بے یقینی سے پوچھا۔
”بالکل!اور میری خواہش کے مطابق اب یہ ساری میری ہے۔
“میں نے ،اتنا بڑا جھوٹ بولنے پر،ارسلان کی درگت بنانے کا فیصلہ کر لیا۔
”ایسا کرتی ہوں،یہ کھیر فریج میں رکھ آتی ہوں۔بعد میں کھالوں گی۔“ہادیہ چہک کر بولی اور کھیر کا پیالہ لے کر باہر چلی گئی۔تھوڑی دیر بعد وہ واپس آئی تو ہم سب خوشی خوشی دعوت کے مزے لینے لگے۔
”ہادیہ!دراصل میں نے آج پہلی بار کھیر بنائی تھی،لیکن بنانے کے بعد جلدی میں چکھ نہ سکی۔
میں نے سوچا کہ یہاں کھا لوں گی،لیکن یہاں تو معاملہ کچھ اور ہو گیا۔کیا تم مجھے اس کھیر میں سے چکھنے کے لئے تھوڑی سی دے دو گی؟“دعوت ختم ہونے کے بعد جب عافیہ اور سمیرا جا چکیں تو میں نے ہادیہ سے التجائیہ انداز میں کہا۔
”ہاں!کیوں نہیں۔ضرور!“ہادیہ نے خندہ پیشانی سے کہا اور کھیر لینے چلی گئی۔تھوڑی دیر بعد وہ کھیر کا وہی پیالہ تھامے اندر آئی،جس میں میری بنائی ہوئی کھیر تھی۔
اس نے بڑے پیالے سے تھوڑی سی کھیر چھوٹے پیالے میں ڈال کر چمچے کے ساتھ میری طرف بڑھا دی۔میں نے اس کا شکریہ ادا کرتے ہوئے ایک چمچہ منہ میں ڈالا تو میرا منہ بن گیا۔یوں لگا جیسے کھیر کی جگہ کوئی کڑوی کسیلی دوا منہ میں ڈال لی ہو۔ہادیہ میری اس حالت سے محظوظ ہو رہی تھی۔
میں نے مشکل سے کھیر نگلی اور ہادیہ سے پوچھا:”ہادیہ!کیا یہ وہی کھیر ہے،جو تم نے مزے لے لے کر کھائی تھی؟“
”جی بالکل!یہ وہی کھیر ہے۔
“ہادیہ مسکرائی،بلکہ کھلکھلا کر بولی۔
”لیکن یہ سب تم نے کیوں کیا اور کھانے سے پہلے کھیر کیوں چکھی؟“
”عائشہ!میں نے پردے کے پیچھے سے گزرتے ہوئے تمہاری اور ارسلان کی باتیں سن لی تھی۔میں نے سب تمہاری پردہ پوشی کے لئے کیا اور کھیر کھانے سے پہلے اس لئے چکھی،تاکہ تم سکون سے کھانا کھا سکو۔“
”لیکن ہادیہ!آج سے پہلے تو تم نے میرا بلکہ کسی کا بھی کوئی عیب نہیں چھپایا۔
پھر آج میرا ایک چھوٹا سا عیب چھپانے کے لئے تم نے یہ بدمزہ کھیر کیسے نگل لی؟“
میرا سوال سن کر ہادیہ مسکرائی اور پھر بولی:”بھٹکا ہوا انسان جب چاہے سیدھے راستے پر آسکتا ہے۔اللہ نے مجھے نیک راہ دکھا دی ہے۔میں نے ایک فیصلہ اور بھی کیا ہے۔“
”کیسا فیصلہ؟“
”عائشہ!کہتے ہیں کہ اگر آپ نے کسی کو تکلیف دی ہو تو جب تک وہ معاف نہ کرے ،اللہ میاں معاف نہیں کرتے،اس لئے میں نے فیصلہ کیا ہے کہ جن لوگوں پر طنز کرکے میں نے ان کی دل آزاری کی ہے،میں ان سب سے معافی مانگوں گی۔

میں نے اس کے لہجے میں پکا عزم محسوس کرکے خوشی سے کہا:”یہ تو بہت اچھی بات ہے۔“
میری بات سن کر وہ میرے ہاتھ تھام کر بولی:”تو پھر میں ابتدا تم سے کرتی ہوں۔عائشہ!اگر تمہارے کسی عیب کا چرچا کرنے سے تمہارا دل میری طرف سے میلا ہوا ہو تو مجھے معاف کر دو۔“ہادیہ کی بات ختم ہوتے ہی میں نے اسے گلے لگا لیا۔

Browse More Moral Stories