Haq Baat Ka Inaam - Article No. 904

حق بات کا انعام - تحریر نمبر 904
دولت آبادملک میں ایک بادشاہ حکومت کرتا تھا۔ وہ بڑا رحم دل اوررعایا پرور تھا۔ جو بھی اس کی پاس آتا وہ اسے ضرور کچھ نہ کچھ دے کر رخصت کرتا۔ اگر کسی کو کوئی پریشانی ہوتی تو راجا خود اس کو حل کرنے کی کوشش کرتا۔
ہفتہ 19 مارچ 2016
جب یہ خبر عام ہوئی تو ایک دن بادشاہ کے محل میں ایک لالچی اور خوشا مدی فقیر آیا۔ اس فقیر نے بادشاہ کے محل میں جاکربادشاہ کی جھوٹی تعریفیں کرتے ہوئے صدا لگانا شروع کی کہ: ” ہمارا بادشاہ بڑا سخی ہے جو کوئی نہ دے پائے وہ راجا دے۔
(جاری ہے)
“ بادشاہ کو یہ بات سن کر بڑی خوشی ہوئی۔
اس نے فقیر کو ایک پپیتا انعام میں دے کر اسے رخصت کیا۔ فقیر نے پپیتا لیا اور منہ لٹکائے واپس ہوگیا اسے اس انعام سے ذرا بھی خوشی نہیں ہوئی۔پہلے فقیر کے جاتے ہی دوسرا فقیر محل میں داخل ہوا اور اس نے حق بات کی صدا لگانا شروع کی کہ :” جو اللہ دے وہ کوئی نہ دے پائے نہ ہی ہمارے بادشاہ۔“ فقیر کی یہ بات بادشاہ کو ناگوار گذری۔ لیکن چوں کہ وہ عام رعایا میں سخی اور رحم دل مشہور تھا اس لیے محل میں آئے ہوئے فقیر کو خالی ہاتھ واپس لوٹانا اس نے مناسب نہ جاناسواس نے اس فقیر کو دو سونے کے سکے دیے اور محل سے رخصت کردیا۔ دوسرا فقیر دو سونے کے سکے پاکر بہت خوش ہوا۔
اتفاق سے دونوں فقیر وں کی بازار میں ملاقات ہوگئی۔ پہلا فقیر بہت زیادہ دکھی نظر آرہا تھا۔ دوسرے فقیر نے اس سے پوچھا : ”دوست! تم اتنے دکھی کیوں دکھائی دے رہے ہو۔ “
پہلے فقیر نے جواب دیا :” مَیں بادشاہ کے محل میں گیا تھا اور اس کی تعریف بھی کی اور اس نے انعام میں مجھے صرف ایک پپیتا دیا ہے جو میرے کسی کام کا نہیں۔“
دوسرے فقیر نے کہا:” میں بھی بادشاہ کے محل میں گیا تھا اور مَیں نے ایک صحیح اور سچی بات کہی تھی ، وہ سن کر بادشاہ نے مجھے دو سونے کے سکّے ا نعام دیے جنہیں پاکر مجھے بہت خوشی ہوئی۔ “
پہلے فقیر نے دوسرے فقیر سے کہا :” کیا تمہیں پپیتا پسند ہے؟ “ دوسرا فقیر جسے دولت سے محبت نہیں تھی اور نہ ہی وہ لالچی تھا کہنے لگا کہ :” ہاں! مجھے پپیتا پسند ہے۔“ پہلا فقیر یہ سن کر کہتا ہے :” تو تم یہ پپیتا خرید لو۔“ دوسر افقیر دونوں سونے کے سکوں کے بدلے میں وہ پپیتا خرید لیتا ہے۔ پہلا فقیر سونے کا سکہ پاکر بہت خوش ہوتا ہے اور وہاں سے چلا جاتا ہے۔
پہلا فقیر جب اپنے گھر لوٹتا ہے اور پپیتا کاٹتا ہے تو اس میں سے ہیرے جواہرات نکلتے ہیں وہ سمجھ جاتا ہے کہ مجھے بادشاہ کے سامنے حق بات کہنے کا انعام ملا ہے۔
جب کہ دوسرالالچی اور خوشامدی فقیر چند ہی دن میں پورے پیسے اڑا کر دوبارہ بادشاہ کے محل میں بھیک مانگنے جاتا ہے۔ جیسے ہی بادشاہ اس کو دیکھتا ہے تو پوچھتا ہے کہ :” اے فقیر میں نے تو تیری بات سن کر خوشی میں تجھے ہیرے جواہرات سے بھرا ہوا پپیتا انعام میں دیا تھا ، کیا ہوا کہ تو پھر سے بھیک مانگنے لگا؟“
پہلے فقیر نے دوسرے فقیر سے ملنے اور دوسکوں کے بدلے میں پپیتا بیچنے کی بات بتائی۔ یہ سن کربادشاہ کو بڑا تعجب ہوا اس نے دوسرے فقیر کو محل میں طلب کیا اور پوچھا کہ :” پپیتا کاٹنے پر اس میں سے کیا نکلا؟“ دوسرے فقیر نے سب کچھ سچ سچ بتلا دیا اور یہ بھی کہا کہ :” میں نے یہ پپیتا اس لیے پہلے فقیر کو واپس نہیں کیا کہ میں نے سن رکھا تھا بادشاہوں کے سامنے حق بات کہنے پر اللہ تعالیٰ اپنے بندوں کو انعام سے نوازتا ہے۔ اس لیے میں سمجھ گیا کہ پپیتے کے ذریعے مجھ کو اللہ تعالیٰ نے انعام عطا کیا ہے۔ “ یہ سن کربادشاہ کی آنکھ کھل گئی اور وہ دوبارہ پہلے جیسا نرم دل اور تواضع والا بادشاہ بن گیا اور لالچی فقیر کو اس نے جلا وطن کردیا۔
Browse More Moral Stories

چھوٹی سی نیکی
Choti Si Naiki

کنویں کا راز
Kunween Ka Raaz

پُراسرار حویلی
Purisrar Haveli

بلی شیر کی خالہ
Billi Sher Ki Khala

نیکی کا صلہ
Naiki Ka Sila

بھائی کا ایثار
Bhai Ka Esaar
Urdu Jokes
تن دے تن
tin de tin
کرنل صاحب
karnal Sahib
ایک صاحب
Aik sahib
خاتون اور شوہر
Khatoon Aur shohar
جج اور ملزم
judge Aur Mulzim
پاگل پن
pagalpan
Urdu Paheliyan
دن کا ساتھی ساتھ ہی آیا
din ka sathi sath hi aya
کچھ لمبا کچھ گول مٹول
kuch lamba kuch gol matol
پھولوں میں دو پھول نرالے
phoolon mein do phool nirale
آتا نہ دیکھا جاتا نہ دیکھا
ata na dekha jata na dekha
گز بھر کی پانی کی دھار
ghar bhar ki pani ki dhaar
چلتی جائے ایک کہانی
chalti jaye ek kahani