Maham Ka Khawab - Article No. 2151

Maham Ka Khawab

ماہم کا خواب - تحریر نمبر 2151

ماہم جو کچھ دیکھ رہی ہو نہ دیکھو۔جو کچھ سوچ رہی ہو نہ سوچو۔جو کچھ دیکھ چکی ہو بھول جاؤ

بدھ 29 دسمبر 2021

شمع خان
ننھی ماہم ایک دن اپنی گڑیوں کے لئے چائے بنا رہی تھی کہ یکایک اس کے گھر کے دروازے پر دستک ہوئی۔ماہم نے خیال کیا کہ اس کی کوئی سہیلی اس سے ملنے آئی ہو گی۔لیکن جب اس نے دروازہ کھولا تو دیکھا کہ ایک عورت اپنے تین بچوں کو گود میں لئے کھڑی ہے۔اس عورت کے بازوؤں کے ساتھ،سات رنگ کے خوبصورت پر بھی لگے تھے اور ماتھے پر ایک ستارہ جگمگا رہا تھا اور لباس تو ایسا تھا،جیسے تتلی کے پروں کا بنا ہو۔

ماہم اسے مسکراتا دیکھ کر کہنے لگی:”آپ کون ہیں“؟
عورت بولی:”میں ستارہ پری ہوں۔“
ماہم نے پوچھا:”آپ کو کیا کام ہے“؟
ستارہ پری بولی:”ذرا مجھے اپنے گھر میں آنے کی اجازت دے دو۔“
ماہم کہنے لگی:”گھر میں آ کر کیا کریں گی؟“
ستارہ پری بولی:”اپنے بچوں کو تمہارے غسل خانے میں نہلاؤں گی۔

(جاری ہے)


ماہم نے جواب دیا:”اچھا آجائیں اور اپنے بچوں کو نہلا لیں۔


اب پری اپنے بچوں کو غسل خانے میں نہلانے لگی اور ماہم اپنی خوبصورت مہمان کی تواضع کے لئے دوڑ کر بازار سے بسکٹ لینے چلی گئی۔ واپس آئی تو دیکھا کہ اس کی خوبصورت مہمان غائب ہے۔لیکن غسل خانہ خوشبوؤں سے مہک رہا ہے۔
ماہم نے حیرت سے غسل خانے میں اِدھر اُدھر نظر دوڑائی تو دیکھا کہ پری اپنا ایک خوبصورت دستانہ بالکنی پر بھول گئی ہے دستانہ بہت پیارا تھا۔
اسے دیکھتے ہی ماہم کے منہ سے مارے خوشی کے ایک چیخ نکل گئی۔اس نے دوڑ کر اسے پہن لیا۔دستانہ پہنتے ہی وہ ایک اور ہی دنیا میں پہنچ گئی۔
اس نے دیکھا کہ وہ بالائی کے ایک پہاڑ پر کھڑی ہے،جس سے دودھ کی ندیاں نیچے کی طرف بہہ رہی ہیں۔پہاڑ پر چاندی کے چھوٹے چھوٹے چمچے بھی بکھرے تھے۔ماہم نے ایک چمچہ اُٹھا لیا اور بالائی کے پہاڑوں کی مزیدار چوٹیاں کھانے لگی۔
بالائی کھانے کے بعد اسے پیاس محسوس ہوئی تو وہ نیچے اُتر آئی۔دودھ کی ندیوں کے کنارے مصری کے کٹورے رکھے تھے ایک کٹورا ندی کے دودھ سے بھر کر اس نے پیا اور پھر آگے بڑھی۔ہر طرف باغ ہی باغ نظر آ رہے تھے۔جن میں رنگ برنگے شربت کے فوارے تھے۔
فواروں کے حوض کے کناروں پر زمرد کے چھوٹے چھوٹے گلاس رکھے تھے۔اس نے ایک فوارے سے شربت کا ایک گلاس پیا۔
پھر دوسرے فوارے سے کیونکہ ہر فوارے کے شربت کا مزہ نیا تھا۔اس کے بعد شیلا نے باغ کو غور سے دیکھنا شروع کیا۔معلوم ہوا کہ اس میں چہکنے والے پنچھی بھی مٹھائی کے ہیں۔ایک کوئل اور ایک بلبل ماہم نے پکڑ کر کھا لی اور پھر آگے بڑھی۔آگے ایک بڑا خوبصورت بازار آگیا۔جس میں ہر طرف پریاں ہی پریاں نظر آ رہی تھیں۔ماہم ان میں جا گھسی اور بازار کا تماشا دیکھنے لگی۔

دکانوں پر بڑی عجیب چیزیں بک رہی تھیں۔رنگ برنگی پھول تتلیاں،ستارے،موتی،اُڑنے والے پنچھی،گلدان،مربے،چاکلیٹ اور طرح طرح کے کھلونے۔
یکایک ماہم کو ستارہ پری اپنے بچوں کے ساتھ ایک دکان پر کھڑی نظر آئی۔وہ ایک دکان سے اپنے بچوں کے لئے نرگس کے پھول چرا رہی تھی۔
ماہم چلا کر بولی:”ستارہ پری دکان دار کے پھول کیوں چرا رہی ہو۔

ستارہ پری نے مڑ کر اس کی طرف دیکھا اور مسکرا کر بولی”ماہم میرے قریب آؤ۔“
جب ماہم اس کے پاس آئی تو ستارہ پری نے اس کی آنکھوں پر اپنے نرم نرم ہاتھ رکھ دیئے۔اور بولی”ماہم جو کچھ دیکھ رہی ہو نہ دیکھو۔جو کچھ سوچ رہی ہو نہ سوچو۔جو کچھ دیکھ چکی ہو بھول جاؤ۔“
اس کے بعد ستارہ پری نے زور سے ایک خوبصورت قہقہہ لگایا اور اپنے نرم نرم ہاتھ ماہم کی آنکھوں سے ہٹا لئے۔
ماہم ڈر گئی۔اس نے آنکھیں پھاڑ پھاڑ کر چاروں طرف دیکھنا شروع کیا۔اب وہاں کچھ بھی نہ تھا۔وہ اپنے بستر پر لیٹی تھی۔اس کے بھیا کا سفید مرغا ککڑوں کوں ککڑوں کوں کر رہا تھا۔آسمان پر صبح کا ستارہ اس کی طرف دیکھ کر شرارت سے مسکرا رہا تھا۔

Browse More Moral Stories