Gulshan Aur Pari - Article No. 2340

Gulshan Aur Pari

گلشن اور پری - تحریر نمبر 2340

میں پھر تم سے ملنے آؤں گی ہم کو وہ بچے بہت اچھے لگتے ہیں جو بڑوں کا کہنا مانتے ہیں

ہفتہ 27 اگست 2022

ثومیہ ناز
گلشن نے اس لڑکی کو بہت غصے سے دیکھا۔میرا جھولا خالی کرو میں نے جھولے لینے ہیں۔گلشن اپنے جھولے کے قریب آتے ہوئے بولی۔وہ لڑکی گلشن کی ڈانٹ سن کر فوراً جھولے سے اُتر گئی اور جھولا گلشن کے حوالے کر دیا۔گلشن پانچویں جماعت میں پڑھتی تھی اور اپنی کلاس کی ایک ذہین لڑکی سمجھی جاتی تھی۔اپنی امی کے ساتھ بھی گھریلو کاموں میں مدد کرتی تھی لیکن ہر مدد وہ اپنے موڈ کے مطابق کرتی اور آج بھی صبح سے اس کا موڈ خراب تھا۔
اس لئے آج اسکول سے چھٹی ہونے کے باوجود بھی وہ گھریلو ماحول میں اپنی امی کا ہاتھ نہیں بٹا رہی تھی۔بس صبح ہی سے اپنے پسندیدہ جھولے پر جھول رہی تھی۔یہ جھولا پسندیدہ یوں تھا کہ اسے گلشن نے اپنے ابو سے فرمائش کرکے بنوایا تھا۔

(جاری ہے)


وہ اپنے بہن بھائیوں کو بھی اس جھولے کے قریب نہ آنے دیتی تھی۔اور جب موڈ اچھا ہوتا تو یہ اور بات تھی کہ اپنے بھائیوں کو جھولے کے قریب آنے دیتی تھی۔

اور جب آج یہ اجنبی لڑکی جھولے پر بیٹھی جھولا جھول رہی تھی تو گلشن کو یہ دیکھ کر بہت غصہ آ گیا۔گلشن کے ڈاٹنے پر اس لڑکی نے جھولا تو فوراً خالی کرکے گلشن کے حوالے کر دیا۔لیکن یہ لڑکی آئی کہاں سے تھی۔غصے میں گلشن نے یہ سوچا بھی نہیں تھا۔
گلشن اپنے پسندیدہ جھولے پر بیٹھ کر تیز تیز جھولے لینے لگی اور پھر اچانک کچھ دیر بعد گلشن یکا یک چونک گئی۔
اس نے اس اجنبی لڑکی کو غور سے دیکھا۔جھولے کے تیز ہلکورے سست ہونے لگے۔عجیب سی بات تھی کہ وہ اجنبی لڑکی سامنے گھاس پر بیٹھی گلشن کو جھولا جھولتے دیکھ رہی تھی۔اس کے دیکھنے میں گلشن کے لئے پیار محبت اور چاہت محسوس ہو رہی تھی۔گلشن نے سوچا میرے خیال میں اس لڑکی کو پہلے میں نے کبھی نہیں دیکھا ہے۔گلشن کے موڈ نے یہ سوچتے ہی یکلخت پلٹا کھا لیا اب اسے اس اجنبی لڑکی پر پیار سا آ گیا تھا۔
وہ جھولا روک کر اس کی طرف بڑھی اور بولی۔تمہیں میرا جھولا پسند ہے آؤ۔اب جھولے کی باری تم لے لو۔میرے غصے کو محسوس نہ کرنا میں معذرت کرتی ہوں۔وہ اجنبی لڑکی گلشن کی یہ بات سن کر مسکرانے لگی۔میں بہت غریب لڑکی ہوں میرے گھر ایسا جھولا نہیں ہے تم میرے ساتھ دوستی کر لو اور روزانہ مجھے جھولا بھی جھولنے دیا کرو۔اجنبی لڑکی نے جواباً کہا۔دوستی کا سن کر گلشن نے اپنا ہاتھ اس کی طرف بڑھا دیا۔
اجنبی لڑکی نے گلشن کا ہاتھ نرمی سے اپنے دونوں ہاتھوں میں تھام لیا۔گلشن بولی مجھے تمہاری دوستی قبول ہے اور میرا جھولا بھی تمہارے لئے حاضر ہے۔جب تمہارا جی چاہے آ کر جھولا جھول لیا کرو۔
وہ دونوں باتیں کر رہی تھیں کہ گلشن کو اپنی امی کی پکار سنائی دی۔وہ کسی کام کے لئے گلشن کو بلا رہی تھیں۔اپنی امی کی پکار پر گلشن کا چہرہ بگڑنے لگا۔
اجنبی لڑکی نے یہ دیکھا تو فوراً کہا دیکھو ایسا نہ کرو آؤ ہم دونوں اکھٹے امی کی طرف چلتے ہیں۔تمہیں اپنی امی کے ساتھ گھر کے کاموں میں ہاتھ بٹانا چاہیے۔گلشن نے اجنبی لڑکی کی طرف حیرت سے دیکھا کیونکہ اس لڑکی کا لباس اب رنگ بدلنے لگا تھا۔لیکن اجنبی لڑکی تیز تیز قدموں سے چلتے ہوئے گلشن کی امی کی طرف جانے لگی۔گلشن کو بھی اس کا ساتھ دینا پڑا۔
اجنبی لڑکی نے گلشن کی امی کے قریب جا کر سلام کیا۔گلشن کی امی نے سلام کا جواب دیا اور اجنبی لڑکی کو ہاتھ سے پکڑ کر ساتھ بٹھا لیا۔گلشن کی امی نے کہا تم ضرور گلشن کی دوست ہو گی۔لڑکی نے جواب میں کہا جی میں آج ہی گلشن کی دوست بنی ہوں دراصل مجھے گلشن کا جھولا بہت اچھا لگا تو میں جھولے پر کچھ دیر جھولنے آ گئی تھی۔
یہاں پھر وہی حیرت انگیز بات ہوئی کہ اس اجنبی لڑکی کے لباس نے رنگ بدلا۔
یہ لڑکی جب سے گلشن کو جھولے کے قریب نظر آئی تھی اس وقت سے اس کے لباس نے تیسری بار رنگ بدلا تھا۔پہلی بار اس کے کپڑوں کا رنگ نیلا تھا۔دوسری بار سبز ہوا۔اور اب ہلکا آسمانی کلر کا ہو گیا تھا۔یہ دیکھ کر گلشن حیرت بھری آواز میں بولی․․․․یہ یہ․․․․کیا ہو رہا ہے؟تمہارے کپڑے رنگ کیوں بدل رہے ہیں؟گلشن کی امی گلشن کی بات پر مسکرانے لگیں اور پھر بولیں۔
میری بھولی بیٹی یہ تمہاری دوست پری ہے اور پرستان سے آئی ہے۔گلشن کی امی کی اس بات پر اجنبی لڑکی اور گلشن دونوں حیران رہ گئے وہ اجنبی لڑکی بولی۔یہ آپ نے کیسے جانا کہ میں پری ہوں؟
گلشن کی امی نے کہا وہ ایسے کہ میں جب چھوٹی تھی اور گلشن کی عمر کی تھی تو میری بھی ایک پری دوست بنی تھی۔اس کا نام مہہ پارہ تھا۔بعد میں اسے ایک دیو اغواء کرکے لے گیا تھا۔
دیو سے ایک نیک جن نے اسے آزاد کرا لیا تھا اور پھر اس جن سے اس کی شادی ہو گئی تھی۔مہہ پارہ شادی کے بعد مجھ سے کبھی نہیں ملی۔ہاں میری شادی پر ایک خوبصورت تحفہ اس نے ضرور بھیجا تھا یہ تحفہ ایک خوبصورت قالین تھا۔جو ایک طویل عرصے سے میرے کمرے میں بچھا ہوا ہے۔اور ذرا بھی خراب نہیں ہوا مہہ پارہ نے مجھے پریوں کو پہچاننے کی نشانیاں بتا دی تھی۔
ان نشانیوں سے میں نے تمہیں دیکھتے ہی پہچان لیا تھا۔
گلشن نے یہ سب سن کر امی سے کہا۔امی جان آپ اتنی گہری ہیں ہمیں تو آپ نے کبھی یہ پری وغیرہ کے بارے میں نہیں بتایا یہ میری دوست پری بھی مجھے کہہ رہی تھی کہ میں غریب لڑکی ہوں اور میرے گھر ایسا جھولا نہیں ہے۔وہ اجنبی لڑکی جو دراصل پری تھی جواباً بولی۔ہم پریاں آسانی سے خود کو انسانوں پر ظاہر نہیں کرتیں۔
لیکن تمہاری امی نے مجھے پہچان لیا تمہاری امی بہت سمجھ دار اور اچھی ہیں تمہیں اپنی امی کی قدر کرنا چاہیے۔
کچھ دیر بعد وہ پری اب رخصت ہونے لگی گلشن نے اس سے کہا کہ وہ پھر کب اس سے ملنے آئے گی تو پری نے کہا۔میں تب تم سے ملنے آؤں گی جب تم اپنے آپ کو بدلو گی اپنی امی جان کے ساتھ گھر کے کاموں میں مدد کرو گی اور اپنے بہن بھائیوں کے ساتھ اچھا سلوک اور انہیں اپنے جھولے پر جھولنے کی باری دو گی۔
اس کا وعدہ کرو تو میں تمہیں مستقل ملنے آؤں گی۔گلشن نے بے اختیار پری کا ہاتھ پکڑ لیا اور کہا۔میں وعدہ کرتی ہوں کہ میں اچھی لڑکی بنو گی سب کے ساتھ اچھے انداز سے پیش آؤں گی۔
گلشن کی یہ بات سن کر پری کے چہرے پر مسکراہٹ آ گئی وہ بولی۔ٹھیک ہے میں پھر تم سے ملنے آؤں گی ہم کو وہ بچے بہت اچھے لگتے ہیں جو بڑوں کا کہنا مانتے ہیں۔یہ کہتے ہوئے اس لڑکی کا روپ بدلنے لگا وہ لڑکی کچھ دیر میں پری بن چکی تھی اور پھر وہ پرواز کرتے ہوئے آسمان پر گلشن اور اس کی امی کی نگاہوں سے دور ہوتے ہوتے تارہ بن کر غائب ہو گئی۔

Browse More Moral Stories