Mujhe Bakra Chahiye - Article No. 1773

Mujhe Bakra Chahiye

مجھے بکرا چاہئے - تحریر نمبر 1773

”مجھے بکرا چاہئے اس عید پہ ہر حال میں ”آٹھ سالہ ارشمان نے چلاتے ہوئے اپنی امی جان سے کہا

بدھ 29 جولائی 2020

صائم جمال
”مجھے بکرا چاہئے اس عید پہ ہر حال میں ”آٹھ سالہ ارشمان نے چلاتے ہوئے اپنی امی جان سے کہا۔جب سے دادا دادی ہم سے الگ ہو گئے ہیں ابو قربانی کرتے ہی نہیں ہیں۔میرے سب دوستوں کے گھر ہر سال قربانی ہوتی ہے،سب میرا مذاق اڑاتے ہیں۔اچھا بیٹا میں اس بار پوری کوشش کروں گی تیرے ابو کو قائل کرنے کی لیکن وہ کسی کی کہاں سنتے ہیں،اتنی کنجوسی اچھی بات نہیں ہے اس کی انہی حرکتوں کی وجہ سے ان کے اماں ابا الگ ہو گئے تاکہ اس کو اپنی ذمہ داریوں کا احساس ہو۔
حالانکہ اس سال فصل بھی اچھی ہوئی ہے اور سبزی کا کاروبار بھی اچھا جا رہا ہے۔سبزی منڈی میں اس بار تیرے ابو کی کافی سبزی گئی ہے اور اچھے داموں فروخت ہوئی کل ہی تمہارے ماموں کا فون آیا تھا کہ اس بار تو بھائی صاحب کے وارے نیارے ہو گئے،مگر ہمارے حالات پتہ نہیں کب تبدیل ہوں گے۔

(جاری ہے)

ارشمان گویا ہوا۔
ارشمان کے والد کی زمین بھی تھی اور سبزی کریانہ کی شاپ بھی تھی لیکن اس کی فطرت پر لے درجے کی لالچی تھی ہر وقت ارشمان کے ماموں لوگوں سے اپنی گھریلو ضروریات پوری کرواتا رہتا اپنی بیوی نورین کو خرچہ نہ دینا اور وہ مجبور ہو کر بھائیوں سے خرچہ لے کر آتی۔


”امی آپ ماموں سے کہیں وہ ہمیں بکرا لے دیں“بیٹا اُن کے پہلے ہی مجھ پر اتنے احسانات ہیں میری ہمت نہیں ہو رہی لیکن میں کوشش کروں گی اچھے بچے ضد نہیں کرتے۔
اللہ تمہارے بابا کو ہدایت دے یہ دنیا کا مال دنیا میں ہی رہ جانا ملک کے حالات کیسے ہوئے پڑے ہیں ،کیسی کیسی آفات سے دنیا دو چار ہے مگر مجال ہے اس ڈھیٹ آدمی پہ کوئی اثر ہو۔
نور ین نے ارشمان کی ضد کو مد نظر رکھتے ہوئے فیصلہ کیا کہ بھائیوں کے پاس جاتی ہوں کہ اس بار پیسے نہ دیں بلکہ کوئی مناسب سا بکرا لے دیں کیونکہ پیسے بہانے بہانے سے اس کا شوہر اس سے لے لیتا۔چنانچہ وہ اپنے دونوں بچوں ارشمان اور ارحہ کو لے کر اپنے میکے گئی۔
”بھابھی !دراصل میں بھائی جن سے ملنے آئی ہوں“عید میں چند دن رہ گئے ہیں ویسے تو ہر سال مجھے سب بھائی ٹائم سے عید بھجوا دیتے ہیں مگر اس بار شاید مصروفیت کی وجہ سے ابھی بھائیوں نے عید نہیں بھجوائی ابھی۔
بھابھی !بچے اس بار ضد کر رہے ہیں کہ ہمیں بکرا لینا ہے میں نے ان کو بہت سمجھایا ہے مگر یہ نہیں مان رہے۔
ہمارے اپنے بچے ہیں اتنی مہنگائی ہے اور ابھی میں نے اپنی چھوٹی بہن کی شادی کی ہے ہم چچا زاد کزنز بھی ہیں شروع سے ایک ہی گھر میں رہیں اماں کے انتقال کے بعد حوریہ کو میں نے اپنی بہن سے زیادہ بیٹی بن کر پالا اور اس کی شادی اچھے گھرانے میں کی تاکہ اس کو محسوس نہ ہو کہ اس کی ماں نہیں ہے اس لئے اب اپنے شوہر کو اپنے قابو میں کرو اور اپنے اخراجات خود پورے کیا کرو ہمیں بخش دو بہن اب۔
اس کی التجا کے برعکس بھابھی نے جس حقارت سے جواب دیا،نورین کا دل چاہا زمین پھٹ جائے اور وہ اس میں سما جائے۔بڑی بھابھی کی آواز سن کر چھوٹی بھابھی بھی آگئی اور وہ بھی بولنا شروع ہو گئی حالانکہ وہ جاب کرتی تھی لیکن دل کی بہت چھوٹی تھی دونوں بھابھیوں کا بہت گٹھ جوڑ تھا لیکن نورین کے بھائی اچھے تھے۔انہوں نے نورین کو کبھی کسی بات کا طعنہ نہیں دیا۔
نورین کے بھتیجے آہان نے ان کی ساری گفتگو سنی اور اس کا دل اپنی ماں اور چاچی سے بہت جلا اور اپنی پھوپھو۔بہت ترس آیا جیسے آہان پہ اُس کی ماں کی نظر پڑی تو فوراً موضوع بدلا اور نورین سے کہا اچھا اچھا تمہارے بھائی آئیں گے تو میں اُن سے بات کروں گی۔
نورین نے اپنے بچوں کو سمجھایا اور دوبارہ بھائی کی طرف نہ جانے کا عبد کرلیا۔اُس کے دونوں بچے بے چارے صبر کرکے چپ ہو کر رہ گئے۔
عید سے ایک دن پہلے بھابھی اپنے بیٹے آہان کے ساتھ نورین کے گھر آئی اور رسما چند ہزار نورین کو تھما دیئے کہ بچوں اور اپنے لئے کپڑے لے لینا لیکن نورین نے لینے سے انکار کر دیا،آہان یہ صورتحال دیکھ کر بہت پریشان ہوا۔بھابھی نے گھر آکر یہ بات سب سے چھپالی اگلے دن عید تھی اور یہ ساری صورتحال کی اپنے شوہر کو ہوا تک نہ لگنے دی اور کہا کہ بھئی نورین کے حالات تو اب کافی بہتر ہو گئے ہیں اُس کے شوہر کو عقل آگئی ہے۔
بھائی سُن کر مطمئن ہو گیا۔
آج عید الاضحی کا مبارک دن تھا۔بچوں نے قربانی کے جانوروں کو بہت سجایا ہوا تھا ان کے پاؤں میں گھنگھروں باندھے ہوئے تھے ہر طرف خوشی کا سماں تھا۔عید نماز کے بعد قصاب نے آکر قربانیاں کردیں پھر گوشت کی تقسیم کا سلسلہ شروع ہو گیا۔بڑی بھابھی نے سب سے پہلے اپنی بہن کے لئے صاف ستھرا گوشت الگ کر لیا کہ شادی کے بعد اُس کی پہلی عید ہے ہم سب پہلے اس کی طرف جائیں گے۔
باقی گوشت بعد میں تقسیم کرتے ہیں لیکن نورین کے بھائی جو بھی فقیر اُن کے دروازے پہ آرہا تھا اُن کو گوشت دیئے جا رہے تھے۔بھابھی نے اقریار کا حصہ بھی کچن میں رکھ لیا اور اس میں سے بڑا پیکٹ بنا لیا اپنی بہن کے لئے لیکن نورین کا خیال کسی کو نہ آیا کہ اس کے گھر بھی گوشت بھیجنا ہے وہ بے چاری راہ دیکھ رہی ہو گی۔بھابھی نے اپنے شوہر اور بچوں کو ساتھ لیا اور مٹھائیاں ،پھل،کیک اور گوشت لے کر اس کی بہن حوریہ کے گھر جا پہنچے۔
اتنا کچھ دیکھ کر دولاڈ سے بولی”ابا کیا ضرورت تھی اتنا سب کچھ لانے کی“یہ گوشت کیوں لائے ہم نے تو آج رات آپ کی طرف آنا تھا اور ویسے بھی ہماری تو قربانی تھی۔
”ارے میری بھولی بہن لڑکی چاہے اپنے گھر کتنی بھی سُکھی ہو مگر میکے کامان تو اُسے ہمیشہ رہتا ہے اور جہاں تک گوشت کی بات ہے تو ہم نے اس کے تین حصے کیے ہیں۔غربا کو ہم اُن کا حصہ دے آئے ہیں اقربا کے حصہ میں سے تمہیں دینے آئے ہیں اس سے آپس میں اپنائیت کا احساس بڑھتا ہے۔
اللہ نے سب اصول انسان کی بہتری کے لئے بنائے ہیں ہمارے گھر میں تو تمہارا حق اور حصہ پہلے کی طرح ہے اور ہمیشہ رہے گا“۔
”ایک منٹ ماما“آہان نے ماں کو ٹوکا۔آہان اب میٹرک کا سٹوڈنٹ تھا اور سب بچوں میں کافی سمجھدار تھا۔”کیا کہا آپ نے اس گھر میں آنٹی حوریہ کا حق اور حصہ ہمیشہ رہے گا؟کیونکہ خالہ حوریہ اس گھر کی بیٹی ہیں۔اور نورین پھوپھو کیا وہ اس گھر کی بیٹی نہیں؟اگر ہیں تو پھر ایک ہی گھر میں دو بیٹیوں کے لئے مختلف اصول کیوں؟آپ نے قدرت کے جو اصول بھی بتائے ہیں وہ سب پہ لاگو ہوتے ہیں اس گھر کی ایک بیٹی جسے اللہ نے ہر نعمت سے نوازا ہے اس کے باوجود بھی اس کے حقوق اور حصے کا علم ہے مگر اس گھر کی دوسری بیٹی جو بے بس اور لاچار ہے اُس کے والدین بھی حیات نہیں،اس کے حقوق اور حصے کا خیال کیوں نہیں آپ کو؟یاد ہے نا آپ کو چند دن پہلے پھوپھو نورین اور ان کے بچوں ارشمان اور ارحد کو کس قدر ذلیل ورسوا کرکے نکالا تھا وہ اس وجہ سے عید پہ ہمارے گھر آئیں نہیں اور کسی نے ابھی تک اُن کو گوشت بھی نہیں بھیجا اور پاپا کو ابھی تک آپ نے اس بات سے لاعلم رکھا انہوں نے اُس دن پیسے بھی نہیں رکھے اور واپس کر دئیے کیا یہ گھر اب اُن کا نہیں رہا اُن کے والدین نہیں رہے تو وہ اس گھر کا راستہ ہمیشہ کے لئے بھول جائیں؟آہان کی باتوں میں سچائی تھی وہ بہت شرمسار ہوئیں اور اپنے شوہر سے معافی مانگی اُس کے دل سے کالک اُتر چکی تھی وہ چھوٹی بھابھی کی باتوں میں آچکی تھی۔
آہان!بیٹا تم اپنی پھوپھو کو فون کرو ہم سب اس کی طرف آرہے ہیں پھر وہ سب مٹھائیاں ،کیک اور بکری منڈی سے اچھا سا بکرا لے کر نورین کے گھر آگئے۔نورین سے اس کی بھابھی نے اپنے روئیے کی معافی مانگی اور سب کے چہرے خوشی سے کھلکھلا اٹھے اس طرح ارشمان کی خواہش پوری ہوگئی۔

Browse More Moral Stories