Meri Pyari Dadi Jaan - Article No. 2613

Meri Pyari Dadi Jaan

میری پیاری دادی جان - تحریر نمبر 2613

اپنی ہی قسمت پہ ناز کرتی ہوں کہ اللہ پاک نے مجھے عمر دراز عطا فرمائی اور میں اپنے آنگن میں اپنی تیسری نسل پھلتی پھولتی دیکھ رہی ہوں۔

پیر 25 دسمبر 2023

نازیہ آصف
یہ ان دنوں کی بات ہے جب پہلی جنگ عظیم اور سپینش فلو کو اپنی تمام تر سفاکیوں اور ہولناکیوں سمیت خشکی کے اس قطعے سے رخصت ہوئے چار سال بیت چکے تھے۔کھیتوں میں سرسوں پھول رہی تھی اور جاڑے کی آمد آمد تھی۔جب میری دادی جان اس دنیا میں تشریف لائیں باقی کہانی انھیں کی زبانی سنیے۔
دو بھائیوں کے بعد پانچ بہنوں میں میرا تیسرا نمبر تھا۔
میرے میاں جی فجر کے بعد گھر آتے تو ہم بہن بھائیوں کو ماں جی کے پاس بیٹھ کر قرآن پڑھتے دیکھتے،تو ہم سب کے لئے عمر دراز کی دعا فرماتے۔مجھے انھیں کی دعائیں لگی ہیں۔جو میں آج آپ سب کے درمیان بیٹھ کر اپنی آپ بیتی سنا رہی ہوں۔
ہوش سنبھالا تو ماں کی آواز پہچاننے کے بعد جو دوسری آواز پہچانی،وہ آٹا پیسنے والی ہتھ چکی تھی۔

(جاری ہے)

رضائی میں دبکے دوسرے کمرے سے چکی کی آواز گھرر گھرر سنتے،ساتھ میں دھیمے سروں کلام باہو کی آواز بھی آ رہی ہوتی۔

جس کا مطلب تو کچھ سمجھ میں نہیں آتا مگر سُر بہت بھلے معلوم ہوتے۔یہ ہماری بے جی (میری دادی کی اماں جان) تھیں،جو ہمارے جاگنے سے پہلے گندم پیس کر آٹا بناتیں،جس سے ہمارے لئے روٹی بنائی جاتی تھی۔ذرا ہوش سنبھالا تو فجر کے وقت بے جی کے ساتھ چکی چلانا اور شام کے کھانے کے بعد دیے کی لو میں چرخہ کاتنا سیکھا۔
ایک بڑا بھائی فوج میں چلا گیا۔
میری بے جی اسے یاد کرتے کرتے دنیا سے چلی گئیں۔پھر ایک وقت وہ بھی آیا کہ مجھے یہ سب چھوڑ کر سسرال آنا پڑا۔جہاں آئے ہوئے مجھے ابھی تیسرا دن تھا کہ میری ساس کا انتقال ہو گیا اور یوں میں پہلی بار جو سسرال آئی تو پورے ڈیڑھ ماہ بعد واپس میکے جا پائی۔میرے سسرال میں بزرگوں کے مرنے پہ‘بڑی روٹی کرنے‘کا رواج تھا،جس کا مطلب تھا کہ سالن روٹی کے ساتھ حلوہ یا کوئی میٹھا بھی بنایا جائے گا۔
یوں مجھے ایک رات میں ایک بوری گندم پیسنے کا بھی اتفاق ہوا۔اس پسی ہوئی گندم کو چھان کر باریک آٹے سے روٹی اور قدرے موٹے آٹے میں گڑ اور دیسی گھی ڈال کر حلوہ بنایا گیا۔تب کسی شادی،غمی پہ بلائے گئے مہمان تین دن رکتے تھے۔ہم نے بھی تین دن مہمانوں کی اسی حلوے سے خدمت کی۔اللہ کی کرنی تھی کہ میری چکی پیسنے کی مہارت و مشقت نے مجھے سسرال میں بڑا نام کمانے کا موقع دے دیا۔
میری ساس کے مرنے کے بعد میرے میاں اور سسر میرا بہت خیال کرتے،کہ تین دیواروں سمیت گھر میں سب مرد تھے اور پورے گھر کی ذمہ داریاں مجھ پہ آن پڑی تھیں۔گھر میں رزق کی خیر و برکت تھی اور لوگ سادہ تھے۔میرے سسر کہتے ”رابی پتر“ پیتل کے بڑے پیالے میں دودھ پیا کر،سارے گھر کی ذمہ داری ہے تجھ پہ،صحت مند رہو۔“آج بھی میری صحت کا راز وہ مثبت رویے اور سادہ خوراک ہی ہے۔
مجھے پہلا صدمہ اس وقت پہنچا،اور جب میرا پلوٹھی کا بیٹا فوت ہو گیا یہ وہ وقت تھا جب ہمارا ہندوستان دوسری جنگ عظیم کا حصہ بن چکا تھا،اور میرا دوسرا بھائی بھی جنگ میں شامل ہو گیا تھا۔صابن اور اناج کی کمی ہو گئی تھی۔گندم وافر مقدار میں نہیں اگتی،تو باجرے اور مکئی کے علاوہ کئی وہ اجناس جو آج کل کی خواتین گندم سے چن کر باہر پھینک دیتی ہیں،ہم ان میں نمک مرچ شامل کر کے ان کی بھی روٹی بنا لیتے تھے۔
سارا گاؤں ایک کنبہ تھا پیسہ نہیں تھا،مگر کسی کا کام رکتا نہیں تھا۔سب کام کے بدلے کام کرتے تھے۔شادی بیاہ پہ سارا گاؤں شامل ہوتا۔آجکل کی طرح نہیں کہ صرف لائٹیں دیکھ کر پتہ چلے کہ ہمسائیوں کے گھر شادی ہے۔
سردیوں کی لمبی راتوں میں خواتین کسی ایک گھر کے بڑے کمرے میں جمع ہو کر رات گئے تک چرخہ کاتتیں رہتیں۔چائے کا کسی کو پتہ نہ تھا۔
پہلی دفعہ چائے ہمارے گاؤں میں حکیم صاحب نے متعارف کروائی،جو وہ پیٹ درد کی صورت میں قہوہ بنا کر پینے کی ہدایت کرتے۔
میں نے تو جب سے ہوش سنبھالا،بس ایک جنگ پہ دوسری جنگ ہی سوار ہو کر آتی دیکھی تھی۔پہلے باپ پھر بھائی۔اب یہ جنگ جو حالات لائی،پہلے کبھی نہ دیکھے تھے۔صبح عید تھی اور میرے دونوں بیٹے جنگ میں شامل تھے۔میرا دل کٹتا تھا۔
ایسے میں میرا میاں مجھے حوصلہ دیتا۔جنگ کے بعد میرا ایک بیٹا واپس آ گیا تو دوسرا انڈیا کی قید میں چلا گیا۔وقت گزرتا رہا۔گھروں کے گرد چار دیواریاں بن گئیں،ہر گھر میں نلکے لگ گئے،ایک دوسرے کے گھر سے ایک انگارہ لے کر آگ سلگانے یا جلانے کا دور ختم ہوا۔ماچسیں عام ہو گئیں۔عورتوں نے چرخہ کاتنے کی جگہ سلائیوں سے سویٹر بنانے اور کپڑوں پہ کڑھائیاں شروع کر دیں۔
ہمارے گھر میں بھی ریڈیو آ چکا تھا۔جب جنگی قیدیوں کی واپسی کی خبریں نشر ہونا شروع ہوئیں،تو ہمارے گاؤں کے علاوہ آس پاس کے گاؤں کے وہ لوگ جن کے بیٹے قیدی تھے ہمارے گھر اپنے بیٹے کی آمد کی تاریخ اور دن سننے آ جاتے۔میرا ان کا دکھ سانجھا تھا۔پھر ایک دن میرا بیٹا بھی چار سال بعد رہائی ملنے پہ واپس آ گیا۔زندگی ایک بار پھر سے مسکرا اٹھی تھی۔

میں نے اپنے بچوں کو جہاں تک ممکن ہوا،انھیں تعلیم دلائی،اللہ پاک نے مجھے ان کے فرائض کی ادائیگی سے بھی سبکدوش فرمایا۔اب زندگی کا ایک نیا دور شروع ہوا ہم نانا نانی اور دادی بن گئے۔میرے گھر میں ایک بار پھر سے بچوں کی قلقاریاں گونجنے لگیں۔اب اپنے پوتوں پوتیوں کو آنگن میں ہنستا کھیلتا دیکھ کر مجھے اپنے بچوں کا بچپن یاد آتا ہے تو کبھی اپنے بہن بھائی آس پاس دیکھنے لگتے ہیں۔

مجھے ایک صدمہ آج سے چند سال پیشتر پہنچا جب میرا ساتھی مجھے ہمیشہ کے لئے چھوڑ کر چلا گیا،اور یوں میں ہم دونوں کے لگائے گئے اس گلشن میں میں تنہا رہ گئی۔اپنے گھر کے آس پاس دیکھتی ہوں تو میری ساری ہمجولیاں رخصت ہو چکی ہیں سب کے آنگن سونے لگتے ہیں اور کبھی کبھار خود کو بہت تنہا بھی محسوس کرتی ہوں۔
مگر پھر اپنی ہی قسمت پہ ناز کرتی ہوں کہ اللہ پاک نے مجھے عمر دراز عطا فرمائی اور میں اپنے آنگن میں اپنی تیسری نسل پھلتی پھولتی دیکھ رہی ہوں۔یوں یہ گزشتہ ایک صدی کا قصہ تمام ہوتا ہے۔

Browse More Moral Stories