Hoshiyar Larka - Pehla Hissa - Article No. 2089

Hoshiyar Larka - Pehla Hissa

ہوشیار لڑکا (پہلا حصہ) - تحریر نمبر 2089

جس کام کی بنیاد عدل پر نہ ہو بالآخر رنج اور تکلیف کا باعث ہوتا ہے

جمعہ 15 اکتوبر 2021

پرانے زمانے میں ایک دفعہ تین آدمیوں کی ایک صحرا میں مڈبھیڑ ہوئی اور معلوم ہوا کہ تینوں کا پیشہ خردہ فروشی ہے۔وہ کسی شہر یا آبادی سے قسما قسم کی اجناس خریدتے اور انہیں گاؤں اور دیہات میں جا کر بیچ آتے۔
وہ ایک دوسرے کے اخلاق اور کردار سے ناواقف تھے لیکن چونکہ ان کا پیشہ ایک ہی تھا اور وہ اتفاق سے ایک ہی جگہ اکٹھے ہو گئے تھے سو ایک دوسرے کی رفاقت میں چل پڑے۔
اتفاقاً رستے میں انہیں ڈاکوؤں نے آلیا اور ان کا سب مال اسباب لوٹ لیا۔اب ان کے پاس سوائے تن کے کپڑوں کے کچھ بھی نہ رہا تھا۔ہمکاری اور ہمراہی کے علاوہ اب انہیں ایک دوسرے سے ہمدردی بھی ہو گئی تھی۔چونکہ وہ نہیں چاہتے تھے کہ اپنے اپنے وطن خالی ہاتھ جائیں سو چلتے چلتے وہ ایک اجنبی شہر میں وارد ہوئے اور انہوں نے عہد کیا کہ وہاں کوئی ایسا کام ڈھونڈ لیں گے جس سے انہیں کچھ آمدنی ہو جایا کرے جس میں سے وہ کچھ حصہ بچا لیا کریں اور جب ان کے پاس تھوڑا سرمایہ اکٹھا ہو جائے تو وہ پہلے کی طرح اپنے اپنے کاموں میں لگ جائیں اور تحفے تحائف،جنس اور روپیہ پیسہ لے کر اپنے اہل و عیال کے پاس لوٹ جائیں۔

(جاری ہے)


ان تین میں ایک شخص ایسا تھا جو خردہ فروشی کے علاوہ مستریوں کا کام بھی جانتا تھا لیکن اس کے دوسرے اور تیسرے ساتھی نے جوانی میں کوئی اور کام نہیں سیکھا تھا۔
تینوں نے اجنبی شہر میں پہلی رات ایک قہوہ خانے میں گزاری اور اگلی صبح کام کی تلاش میں شہر کے وسطی میدان میں آگئے۔ان میدان میں معماری کا کام کرنے والے کاریگر جمع ہوتے تھے اور جن لوگوں کو ضرورت ہوتی تھی وہ ان سے معاملہ کرکے انہیں اپنے ہمراہ لے جاتے تھے۔
اس روز ایک شخص آیا جس کو مستری کی ضرورت تھی۔ان تینوں میں سے پہلا اس شخص کے ہمراہ چل دیا۔چونکہ دوسرا اور تیسرا معماری کے کام سے واقف نہ تھا،لہٰذا دونوں بیکار رہے۔پہلا ساتھی تیز اور محنتی تھا۔اسے شام کو اچھا معاوضہ ملا اور مالک نے اسے اگلے دن جلد آنے کی تاکید کی۔
ایک مدت گزر گئی۔ان دو بیکاروں کی آمدن ناپید تھی جبکہ ان کا پہلا ساتھی کام کیے جاتا تھا اور چونکہ تینوں نے اکٹھے رہنے کا فیصلہ کیا تھا لہٰذا جو معاوضہ ملتا تھا،تینوں مل کر خرچ کرنے لگے اور تھوڑی بہت بچت بھی ہونے لگی۔
کافی عرصے بعد وہ حساب کتاب کے لئے مل بیٹھے۔معلوم ہوا کہ بچت شدہ رقم حساب کی رو سے کم ہے۔ان دو بیکاروں نے،جو رقم کی حفاظت کرتے تھے،اعتراف کیا کہ وہ بیکاری کی وجہ سے تنگ آگئے تھے اور ایک دن کسی شخص کے ساتھ جوا کھیلنے لگے تھے اور اس میں ہار گئے تھے۔انہوں نے اپنے ساتھی کو قول دیا کہ جب ان کو کوئی کام مل گیا تو وہ اس نقصان کی تلافی کریں گے۔
کام کرنے والا بولا:یہ تو پہلے سے بھی برا ہوا۔مجھے جوا بازوں پر اعتماد نہیں۔بہتر یہی ہے کہ اب تک جو کچھ ہم نے بچایا ہے،اسے باہم تقسیم کر لیں اور اس کے بعد ہر کوئی اپنے اپنے لئے خود کام کرے۔یا پھر یہ کریں کہ بچت کی رقم کسی امانتدار کے پاس رکھوا دیں اور جب معقول رقم جمع ہو جائے تو آپس میں بانٹ لیں۔مجبوراً دوسرے دو ساتھیوں نے جو بیکار رہتے تھے،اس فیصلے سے اتفاق کیا۔

اس زمانے میں بینکوں اور بچت اسکیموں وغیرہ کا رواج تو تھا نہیں،جس کے پاس بھی نقد رقم ہوتی تھی،اس کی حفاظت اس کے لئے خاصی مشکل ہوا کرتی تھی۔لہٰذا یا تو وہ اسے کسی جگہ چھپا دیا کرتے تھے یا پھر کسی قابل اعتماد شخص کے پاس امانت کے طور پر رکھ دیتے تھے اور اس سے گواہوں کے دستخط کے ساتھ ایک تحریری سند لے لیا کرتے تھے۔
جس قہوہ خانے میں یہ تینوں کھاتے پیتے تھے اور دیگر لوگوں سے واقف ہو گئے تھے،اس کے قریب ہی ایک بڑھیا کا گھر تھا۔
انہوں نے بڑھیا کے پاس اپنی امانت رکھ دی اور یہ طے پایا کہ جب وہ رقم واپس لینا چاہیں تو تینوں کی موجودگی ضروری ہو گی اور ایسا نہ ہو تو تنہا کسی ایک شخص کو رقم نہیں دی جائے گی۔قہوہ خانے کے مالک نے بھی اس معاہدے پر گواہی دی۔
اتفاقاً ایک روز بعد ان کا پہلا ساتھی بھی بیکار ہو گیا۔ایک روز جب وہ حمام میں جانا چاہتے تھے،ان کے پاس صابن اور حمامی کے لئے جیب میں پیسے نہ تھے۔
پہلا بولا چلو چلتے ہیں بڑھیا سے تھوڑے سے پیسے بطور قرض لے لیتے ہیں۔دوسرا بولا:سمجھ میں نہیں آتا کہ پیسے ہمارے ہوں اور ہوں کسی دوسرے ہاتھ میں اور ہم اس سے قرض مانگیں!یہ تمہاری تجویز ہے،آخر میری بھی کوئی عزت ہے،میں تو اُدھر کا رخ کرنے کا ارادہ نہیں رکھتا۔تم خود چلے جاؤ۔تیسرا بولا:میں بھی اس صورت میں روپیہ قرض لینے سے قاصر ہوں۔
پہلا سوچ میں پڑ گیا اور خود سے کہنے لگا:یہ کیسے لوگ ہیں۔
تکلیف میں اُٹھاتا ہوں اور اپنی کمائی ان میں تقسیم کرتا ہوں اور ان کا حل یہ ہے کہ اس چھوٹے سے کام میں بھی بے مروتی کا ثبوت دے رہے ہیں۔مجھے دیکھو کہ میں نے اپنے لیے کیسے ساتھیوں کا انتخاب کیا ہے!بہتر یہ ہے کہ اپنا روپیہ لوں اور ان سے الگ ہو جاؤں تاکہ یہ مفت خورے کسی کام پر لگنے پر مجبور ہو جائیں۔انہوں نے سستی اور کاہلی کی عادت ڈال لی ہے۔
میں مانتا ہوں کہ یہ معمار اور مستری کا کام نہیں جانتے مگر مزدوری تو کر سکتے ہیں۔پھر کیوں نہیں کرتے۔جمع شدہ رقم سب کی سب میری ہے اور اس پر خود میرا حق ہے۔اب تک انہوں نے جو کچھ میری آمدن سے کھایا ہے،انہیں مبارک مگر بس،اس کے بعد معاملہ ختم۔جس کام کی بنیاد عدل پر نہ ہو بالآخر رنج اور تکلیف کا باعث ہوتا ہے۔
انہی باتوں کو سوچتے ہوئے پہلا شخص کہنے لگا:بہت اچھا،میں جاتا ہوں اور کچھ روپیہ لے آتا ہوں لیکن اگر تمہیں یاد ہو تو ہمارا جمع جتھا یہی بچت کی ہوئی رقم ہے لہٰذا ممکن ہے کہ بڑھیا صرف مجھ پر اعتماد نہ کرے۔
تم دور اسی گلی میں کھڑے ہو جانا تاکہ اگر وہ تم سے کوئی بات پوچھے تو تم ہاں میں جواب دے سکو۔انہوں نے کہا:ٹھیک ہے ہم گلی کے سرے پر کھڑے ہیں۔
پہلے شخص نے انہیں گلی کی نکڑ پر چھوڑا،بڑھیا کے پاس گیا اور کہا:ہم اس لئے آئے ہیں کہ آپ کے پاس جمع شدہ امانت واپس لے لیں۔ہم چاہتے ہیں کہ اس رقم سے ایک حمام خریدیں اور اسی شہر میں حمامی بن جائیں۔
بڑھیا بولی:انشاء اللہ بہت مبارک خیال ہے۔مجھے خوشی ہے کہ بالآخر آپ بھی بہتر کام کرنے والے ہیں۔حمام چلانا ایک اچھا کام ہے لیکن طے یہ ہوا تھا کہ آپ کی جمع شدہ رقم ایک شخص کو نہیں دی جائے گی اور لازم ہے کہ تینوں شخص موجود ہوں۔
پہلا شخص کہنے لگا:ہم تینوں حاضر ہیں۔ہم ذرا جلدی میں ہیں تاکہ اپنے ارادے کو عملی صورت دیں۔میرے دو دوسرے ساتھی آپ کے گھر کے پچھواڑے میں کھڑے ہیں اور آپ چاہیں تو چھت پر جا کر ان سے پوچھ گچھ کر سکتی ہیں۔
(جاری ہے)

Browse More Moral Stories