Nadan Chira - Article No. 2538
نادان چڑا - تحریر نمبر 2538
اب پچھتائے کیا ہوت جب چڑیاں چگ گئیں کھیت
ہفتہ 10 جون 2023
عاصمہ فرحین،کراچی
کسی جنگل میں خوبصورت رنگوں والی چڑیا اور چڑا اپنے چھوٹے چھوٹے بچوں کے ساتھ رہتے تھے۔ایک دن جنگل میں شہر سے بہت سے شکاری آئے اور انھوں نے بہت سارے جال لگائے۔بدقسمتی سے چڑیا کا ایک بچہ اس میں پھنس گیا۔چڑیا اور چڑا بہت پریشان ہوئے۔روئے،چلائے،مگر شکاریوں نے چڑے کو نہ چھوڑا اور وہ اسے لے کر شہر چلے گئے۔
دن یوں ہی گزرتے گئے۔چڑیا اور چڑے کے بچے بڑے ہوتے گئے اور انھوں نے اپنے اپنے گھونسلے بنا لیے۔ایک دن چڑیا گھونسلے کے پاس ٹہنی پر بیٹھی ہوئی تھی کہ اتنے میں ایک پیارا سا چڑا اُڑتا ہوا آیا۔کافی دیر گزرنے کے بعد بھی جب چڑیا اس کو پہچان نہ سکی تو چڑا بولا:”پیاری امی جان!میں آپ کا وہی بیٹا ہوں،جسے شکاری جال میں پکڑ کر لے گئے تھے۔
“
یہ سن کر چڑیا بہت خوش ہوئی۔چڑا بھی جب شام کو لوٹا تو اپنے ننھے چڑے کو دیکھ کر بہت حیران ہوا۔چڑیا اور چڑے نے اسے اپنے چھوٹے سے گھونسلے میں رہنے کی دعوت دی،تاکہ وہ کچھ دن ان کے پاس آرام سے رہ لے اور پھر اپنے دوسرے بہن بھائیوں کی طرح گھونسلہ بنا لے۔
کچھ دن تک تو ننھا چڑا اپنے ماں باپ کے ساتھ کھانے کی تلاش میں جاتا رہا،مگر پھر وہ اُکتا گیا۔وجہ یہ تھی کہ وہ پنجرے میں قید رہ کر سست ہو گیا تھا۔
ایک دن اس نے والدین سے کہا:”ایسا کرتے ہیں کہ چاچا بندر کمھار سے چھوٹے چھوٹے مٹی کے پیالے بنوا کر گھونسلے میں رکھ دیتے ہیں،پھر اس میں ہی خوراک اور پانی جمع کرتے رہیں گے۔اس طرح نہ تو ہمیں پریشانی ہو گی اور نہ ہر وقت خوراک کی تلاش میں مارا مارا پھرنا پڑے گا۔“
چڑا تو خاموش رہا،مگر چڑیا بولی:”میرے پیارے بچے!”ہم تو اپنا رزق صبح اُٹھ کر اللہ کے بھروسے پر تلاش کرتے ہیں اور آج تک ہم کبھی بھوکے پیٹ نہیں سوئے۔“
چڑا بولا:”امی جان!دنیا نے بڑی ترقی کر لی ہے یہ تو پرانی باتیں ہیں۔میں تو چاہتا تھا کہ اس طرح آپ کو اور ابو جان کو آسانی ہو جائے گی۔جب تک میں آپ کے ساتھ ہوں۔آپ کو زیادہ کام نہ کرنا پڑے،میں ہی خوراک تلاش کر کے جمع کرتا ہوں۔“
آخر چڑیا اور چڑا راضی ہو گئے اور بندر کمھار سے دو چھوٹے چھوٹے مٹی کے پیالے بنوا کر گھونسلے میں رکھ لیے۔
کچھ دن تک تو چڑے کا بچہ بڑے جوش و خروش سے دانا دنکا جمع کرتا رہا،مگر آخر کب تک؟اس کی سست طبیعت اس کے کام میں رکاوٹ بن گئی۔اب وہ بہانے بنا دیتا اور زیادہ تر وقت اپنے دوستوں سے باتوں یا کھیل کود میں گنوا دیتا اور جو کچھ بھی چڑیا اور چڑا جمع کرتے مزے سے کھاتا رہتا۔چڑیا اور چڑا اس وقت کو کوسنے لگے جب انھوں نے اس کی بات مانی تھی۔وہ ایک گرم ترین دوپہر تھی جب جنگل کے جانور اپنی اپنی جگہوں پر دُبکے ہوئے تھے۔چڑیا اور چڑا خوراک کی تلاش میں نکلے ہوئے تھے،جب کہ ننھا چڑا کھا پی کر مزے سے ایک ٹہنی پر بیٹھا ہوا تھا۔
اچانک ایک بھوکا عقاب اُڑتا ہوا آیا۔اس نے اتنا موٹا تازہ چڑا دیکھا تو ایک ہی جست میں اسے پکڑ لیا۔چڑا کیونکہ زیادہ تر بیٹھا رہتا تھا،اس لئے وہ اپنی جان بچانے کی کوشش بھی نہ کر سکا۔
چڑیا اور چڑے نے واپس اپنے گھونسلے کی طرف آتے ہوئے یہ سارا منظر دیکھ لیا۔قریب ہی ایک اُلو اونگھ رہا تھا۔کہنے لگا:”اب پچھتائے کیا ہوت جب چڑیاں چگ گئیں کھیت۔“
کسی جنگل میں خوبصورت رنگوں والی چڑیا اور چڑا اپنے چھوٹے چھوٹے بچوں کے ساتھ رہتے تھے۔ایک دن جنگل میں شہر سے بہت سے شکاری آئے اور انھوں نے بہت سارے جال لگائے۔بدقسمتی سے چڑیا کا ایک بچہ اس میں پھنس گیا۔چڑیا اور چڑا بہت پریشان ہوئے۔روئے،چلائے،مگر شکاریوں نے چڑے کو نہ چھوڑا اور وہ اسے لے کر شہر چلے گئے۔
دن یوں ہی گزرتے گئے۔چڑیا اور چڑے کے بچے بڑے ہوتے گئے اور انھوں نے اپنے اپنے گھونسلے بنا لیے۔ایک دن چڑیا گھونسلے کے پاس ٹہنی پر بیٹھی ہوئی تھی کہ اتنے میں ایک پیارا سا چڑا اُڑتا ہوا آیا۔کافی دیر گزرنے کے بعد بھی جب چڑیا اس کو پہچان نہ سکی تو چڑا بولا:”پیاری امی جان!میں آپ کا وہی بیٹا ہوں،جسے شکاری جال میں پکڑ کر لے گئے تھے۔
(جاری ہے)
یہ سن کر چڑیا بہت خوش ہوئی۔چڑا بھی جب شام کو لوٹا تو اپنے ننھے چڑے کو دیکھ کر بہت حیران ہوا۔چڑیا اور چڑے نے اسے اپنے چھوٹے سے گھونسلے میں رہنے کی دعوت دی،تاکہ وہ کچھ دن ان کے پاس آرام سے رہ لے اور پھر اپنے دوسرے بہن بھائیوں کی طرح گھونسلہ بنا لے۔
کچھ دن تک تو ننھا چڑا اپنے ماں باپ کے ساتھ کھانے کی تلاش میں جاتا رہا،مگر پھر وہ اُکتا گیا۔وجہ یہ تھی کہ وہ پنجرے میں قید رہ کر سست ہو گیا تھا۔
ایک دن اس نے والدین سے کہا:”ایسا کرتے ہیں کہ چاچا بندر کمھار سے چھوٹے چھوٹے مٹی کے پیالے بنوا کر گھونسلے میں رکھ دیتے ہیں،پھر اس میں ہی خوراک اور پانی جمع کرتے رہیں گے۔اس طرح نہ تو ہمیں پریشانی ہو گی اور نہ ہر وقت خوراک کی تلاش میں مارا مارا پھرنا پڑے گا۔“
چڑا تو خاموش رہا،مگر چڑیا بولی:”میرے پیارے بچے!”ہم تو اپنا رزق صبح اُٹھ کر اللہ کے بھروسے پر تلاش کرتے ہیں اور آج تک ہم کبھی بھوکے پیٹ نہیں سوئے۔“
چڑا بولا:”امی جان!دنیا نے بڑی ترقی کر لی ہے یہ تو پرانی باتیں ہیں۔میں تو چاہتا تھا کہ اس طرح آپ کو اور ابو جان کو آسانی ہو جائے گی۔جب تک میں آپ کے ساتھ ہوں۔آپ کو زیادہ کام نہ کرنا پڑے،میں ہی خوراک تلاش کر کے جمع کرتا ہوں۔“
آخر چڑیا اور چڑا راضی ہو گئے اور بندر کمھار سے دو چھوٹے چھوٹے مٹی کے پیالے بنوا کر گھونسلے میں رکھ لیے۔
کچھ دن تک تو چڑے کا بچہ بڑے جوش و خروش سے دانا دنکا جمع کرتا رہا،مگر آخر کب تک؟اس کی سست طبیعت اس کے کام میں رکاوٹ بن گئی۔اب وہ بہانے بنا دیتا اور زیادہ تر وقت اپنے دوستوں سے باتوں یا کھیل کود میں گنوا دیتا اور جو کچھ بھی چڑیا اور چڑا جمع کرتے مزے سے کھاتا رہتا۔چڑیا اور چڑا اس وقت کو کوسنے لگے جب انھوں نے اس کی بات مانی تھی۔وہ ایک گرم ترین دوپہر تھی جب جنگل کے جانور اپنی اپنی جگہوں پر دُبکے ہوئے تھے۔چڑیا اور چڑا خوراک کی تلاش میں نکلے ہوئے تھے،جب کہ ننھا چڑا کھا پی کر مزے سے ایک ٹہنی پر بیٹھا ہوا تھا۔
اچانک ایک بھوکا عقاب اُڑتا ہوا آیا۔اس نے اتنا موٹا تازہ چڑا دیکھا تو ایک ہی جست میں اسے پکڑ لیا۔چڑا کیونکہ زیادہ تر بیٹھا رہتا تھا،اس لئے وہ اپنی جان بچانے کی کوشش بھی نہ کر سکا۔
چڑیا اور چڑے نے واپس اپنے گھونسلے کی طرف آتے ہوئے یہ سارا منظر دیکھ لیا۔قریب ہی ایک اُلو اونگھ رہا تھا۔کہنے لگا:”اب پچھتائے کیا ہوت جب چڑیاں چگ گئیں کھیت۔“
Browse More Moral Stories
عید کے موقع پر
Eid Ke Moqa Par
بادشاہ اور شیخ چلی
Badshah Aur Sheikh Chilli
موسم گرما اور احتیاطی تدابیر
Mausam Garma Aur Ehtiyati Tadabeer
غریب ہونا جرم نہیں
Ghareeb Hona Jurm Nehin
خزانے کی تلاش
Khazanay Ki Talaash
پھول کا جواب
Phool Ka Jawab
Urdu Jokes
مریض
Mareez
باپ بیٹے سے
Baap betai sai
گاڑی
gaari
پانچ سو روپے
paanch so rupay
شکاری
Shikari
مولوی صاحب
Molvi sahib
Urdu Paheliyan
کتیا بھونک کہ جو کہتی ہے
kutiya bhounk ke jo kehti hai
گز بھر کی پانی کی دھار
ghar bhar ki pani ki dhaar
ایک ہے ایسا قصہ خوان
aik hi aisa qissa khan
ہاتھ میں پکڑے اور مروڑے
hath ma pakra aur marody
بے شک اس کو مارا کوٹا
beshak usko mara kota
لیٹی لیٹی گھر تک آئے
leti leti ghar tak aye
ArticlesStoriesMiscellaneousGamesBaby NamesUrdu Videos