Naina Ki Tauba - Pehla Hissa - Article No. 2407

Naina Ki Tauba - Pehla Hissa

نیناں کی توبہ (پہلا حصہ) - تحریر نمبر 2407

ناشتے کی میز پر مکھن،جیم،ڈبل روٹی،انڈے سب موجود ہوتا لیکن ننھی نیناں کو بس بریڈ اور بلائی چاہیے ہوتی۔

ہفتہ 3 دسمبر 2022

ریحانہ اعجاز
چار سالہ نیناں کو ہمیشہ سے ہی بالائی بہت پسند تھی۔بازار کی نہیں بلکہ گھر میں تازہ دودھ بوائل ہونے کے بعد مما اس پر سے جو موٹی موٹی بالائی اُتارتیں وہ نیناں کو بہت بھاتی تھی۔ناشتے کی میز پر مکھن،جیم،ڈبل روٹی،انڈے سب موجود ہوتا لیکن ننھی نیناں کو بس بریڈ اور بلائی چاہیے ہوتی۔بریڈ پر ڈھیر ساری بالائی لگا کر کھانا نیناں کو بہت اچھا لگتا تھا۔

اس کے علاوہ بھی دن میں کئی بار مما کے منع کرنے کے بعد بھی جب موقع ملتا نیناں فریج کھول کر دودھ کی دیگچی سے بالائی کبھی کبھی چمچ اور زیادہ تر انگلیوں سے ہی نکال کے کھا لیتی۔اور اپنے اس کارنامے پر پھولی نہ سماتی۔مما نے کئی بار بتایا۔بیٹا بری بات ہے اس طرح نہیں کھاتے۔آپ کو جب بالائی کھانی ہو مجھے بتاؤ میں پیالے میں نکال دوں گی۔

(جاری ہے)


تب نیناں ”اوکے مما“ کہہ دیتی۔
مما اسے کئی بار پیالے میں بالائی نکال کر چمچ سے کھلا چکی تھیں لیکن!
نیناں کو جو مزہ انگلی سے نکال کے بالائی کھانے میں اور انگلیاں چاٹنے میں آتا تھا اس کی بات ہی کچھ اور تھی۔دودھ کی پتیلی فریج کی اوپری جالی پر ہوتی تو نیناں چھوٹا سا اسٹول رکھ کر یہ کام انجام دے لیتی۔آج بھی مما کچن میں داخل ہوئیں تو فریج کے ادھ کھلے دروازے میں نیناں سر اندر گھسائے اپنے کام میں مشغول تھی۔

”نیناں“ مما نے اُس کی کمر پر ہلکے سے ایک دھپ رسید کی۔نیناں ہڑبڑا کر سیدھی ہوئی تو اُس کے ہاتھ میں تھاما ہوا پتیلی کا ڈھکن نیچے گر پڑا۔
بیٹا جی!آپ نے باز نہیں آنا؟کتنی بار آپ سے کہا ہے جب بالائی کھانی ہو مجھے بتاؤ؟
لیکن مجال ہے جو آپ کو اثر ہو جائے۔مما نے غصے سے بولتے ہوئے جھک کر ڈھکن اُٹھایا پتیلی ڈھک کر فریج بند کیا۔
اسٹول کو اس کی جگہ پر رکھا۔اس ساری کارروائی کے دوران نیناں اپنی انگلیاں چاٹنے میں مگن تھی۔مما نے ایک نظر اُسے دیکھا اور اُس کا غصہ جھاگ کی مانند بیٹھ گیا۔ننھی نیناں خوبصورت فرل کے سفید فراک میں ملبوس،پھولی پھولی گالوں کے ساتھ بے نیازی سے انگلیاں چاٹتے ہوئے انتہا کی معصوم لگ رہی تھی۔انہیں اس پر بے اختیار پیار آ گیا۔
شام میں،مما نے نیناں کے پاپا کو اُس کی ساری کارروائی بتاتے ہوئے کہا۔
مجھے ڈر لگتا ہے،میں کہیں اِدھر اُدھر کام میں لگی ہوئی ہوں اور یہ فریج سے کچھ اپنے اوپر گرا کر اپنا نقصان ہی نہ کروا لے۔
اوہو بیگم!اس میں اتنا پریشان ہونے والی کیا بات ہے۔آپ فریج کو لاک کر دیا کرو۔پاپا نے لاپروائی سے کہا۔
میں نے یہ بھی کیا اور جس دن فریج لاک تھا اس دن مجھے زیادہ ڈر لگا یہ زور زور سے فریج کا دروازہ کھینچ رہی تھی لیکن فریج لاک ہونے کی بنا پر کھل نہیں رہا تھا۔
آپ کو پتہ ہے فریج کی چوکی ان بیلنس ہے۔کئی بار آپ نے بھی کوشش کی ہے لیکن وہ جوں کی توں ہی رہتی ہے۔گتے سے میں نے بیلنس برابر کیا ہوا ہے۔
اب کھینچا تانی میں فریج ہی نہ سر پر آ پڑے۔بس اسی وجہ سے میں نے دوبارہ کبھی فریج لاک نہیں کیا۔تب پاپا نے گود میں بیٹھی نیناں کو پیار کرتے ہوئے مخاطب کیا۔بیٹا جی!آپ کی شکایتیں بڑھتی جا رہی ہیں۔آپ کیوں مما کو تنگ کرتی ہیں؟اچھے بچے مما کو بالکل تنگ نہیں کرتے پھر آپ کیوں مما کو تنگ کرتی ہیں۔

پاپا جانی میں نے کب تنگ کیا مما کو؟آپ کو پتہ ہے مما مجھے تنگ کرتی ہیں۔ساختہ پیار آ گیا۔
ارے؟مما آپ کو بھلا کیوں تنگ کریں گی؟وہ تو آپ کا بہت خیال رکھتی ہیں۔پاپا نے نیناں کے ماتھے پر بوسہ دیتے ہوئے کہا۔مجھے خود سے بالائی نہیں کھانے دیتیں۔اور جب میرا دل کرتا ہے تب مما کام کر رہی ہوتی ہیں تب میں خود ہی کھا لیتی ہوں تو مما غصہ کرتی ہیں۔نیناں کے گال کشمیری سیب کے مشابہ لگ رہے تھے۔
اچھا چلو،اب جب آپ کا دل چاہے بالائی کھانے کے لئے تب آپ مما کو بول دینا۔مما سب کام چھوڑ کر آپ کو بالائی دے دیں گی۔مما نے نیناں کو اپنی گود میں منتقل کرتے ہوئے کہا تو نیناں نے ”اوکے مما جانی“ کہتے ہوئے مما کے دونوں گال چٹاخ چٹاخ چوم ڈالے۔
(جاری ہے)

Browse More Moral Stories