Ont Rey Ont - Article No. 1649
اُونٹ رے اُونٹ - تحریر نمبر 1649
وہ اٹھا اور اپنے گلے میں گھنٹی لٹکائی،گھٹنوں پر گھنگھر وباندھے اور چھم چھم کرتا سرائے کی طرف روانہ ہو گیا۔
جمعہ 31 جنوری 2020
آؤ بچو ایک کہانی سنو،کسی ملک میں ایک بادشاہ حکومت کرتا تھا۔اس بادشاہ نے اپنے محل کے باہر ایک خوبصورت گھر بنایا تھا۔اس گھر میں ایک بہت بڑا دالان تھا۔دالان میں بہت سے جانور رہتے تھے۔وہ جانور صبح سے شام تک کام کرتے تھے۔کام کرنے کی شرط یہ تھی کہ بادشاہ کی ملکہ خود کھانا پکا کر انہیں دوپہر کو کھلایا کرے،لیکن ملکہ بڑی سست عورت تھی۔ہر روز کوئی نہ کوئی بہانا ڈھونڈلیتی ۔کبھی کبھی ایسا بھی ہوتا کہ وہ سرے سے کھانا ہی نہ پکاتی اور سب جانور بھوکے رہ جاتے۔
ایک دن کا ذکر ہے ،ملکہ نے کھانا پکانے میں دیر کر دی۔جانور کام کرتے کرتے تھک گئے تھے اور بھوک سے نڈھال ہورہے تھے۔سب نے بادشاہ کے پاس شکایت کی۔بادشاہ نے ملکہ کو بلا کر ڈانٹا اور کہا کہ یہ جانور بے چارے دن بھر کام کرتے کرتے تھک جاتے ہیں اور تم ذرا بھی ان کا خیال نہیں کرتیں۔
بُری بات ہے ۔اس پر ملکہ ناراض ہو گئی اور محل چھوڑ کر چلی گئی اور شہر سے دور ایک سرائے میں روٹھ کر بیٹھ گئی۔
اُدھر بادشاہ اور جانوروں کو ملکہ کے روٹھ کر چلے جانے کا بڑا افسوس ہوا ۔وہ ملکہ کے بغیر اداس تھے۔کام میں ان کا جی نہیں لگتا تھا۔آخر وہ سب کے سب مل کر بیٹھے اور مشورہ کرنے لگے کہ کسی نہ کسی طرح ملکہ کو واپس لانا چاہیے۔صلاح ٹھہری کہ پہلے چڑیا کو بھیجا جائے۔چڑیا نے پَر پھڑ پھڑائے اور اُڑگئی۔اُڑتی گئی،اُڑتی گئی ،یہاں تک کہ سرائے کی دیوار پر جا کر بیٹھ گئی اور ملکہ سے کہا:
”ملکہ صاحبہ! آپ ناراض نہ ہوں ہم آپ کو کسی طرح کی تکلیف نہیں دیں گے۔خود ہی کھانے کا بندوبست کر لیں گے۔آئیے محل کو چلیں۔“
ملکہ نے کہا:”بھاگ جاؤ میں نہیں آؤں گی۔“چڑیا بے چاری غم کی ماری لوٹ آئی۔جانوروں نے جب یہ سنا کہ چڑیا ناکام لوٹ آئی ہے تو انہوں نے فیصلے کے مطابق بلی کو بھیجا۔بلی روانہ ہو گئی!چلتی گئی چلتی گئی،یہاں تک کہ سرائے میں داخل ہوئی۔ملکہ کو بڑے ادب سے سلام کیا اور کہا:”پیاری ملکہ!ہم نے اپنی من موہنی چڑیا کو بھیجا۔اس نے بڑی چیں چیں کی،آپ نہیں مانیں۔آئیے گھر چلیں۔میں وعدہ کرتی ہوں کہ آپ سے کھانا نہیں مانگوں گی۔اپنے کھانے کا خود ہی انتظام کرلوں گی۔“
ملکہ نے کہا:”نہیں میں نہیں آؤں گی۔“
بلی بے چاری بھی مایوس ہو کر واپس آگئی۔اب چوہیا اُٹھی۔اس نے بھی جا کر ادب سے سلام کیا۔پھر کہا:” چڑیا نے چیں چیں کیا،آپ نہیں مانیں ،بلی میاؤں میاؤں کرتی آئی۔آپ نے انکار کر دیا۔اب میں آئی ہوں،تشریف لے چلیے،میں اپنی نرم اور نازک دم سے آپ کو پنکھا جھلوں گی“۔لیکن ملکہ پھر بھی نہ مانی۔
اب کوے کی باری آئی۔وہ تیزی سے اُڑا اور کائیں کائیں کرتا سرائے میں ملکہ کے پاس پہنچا اور کہا:”ملکہ حضور !چڑیا نے چیں چیں کی۔بلی نے میاؤں میاؤں کی۔چوہیا نے دم ہلائی ،آپ پھر بھی نہیں مانیں۔آئیے میرے ساتھ آئیے“ ․․․․․ملکہ نے پھر انکار کر دیا۔
اب گدھے نے اپنا پالان اٹھایا اور بڑے ناز نخرے سے اچھلتا ،کودتا،ناچتا ڈھینچوں ڈھینچوں کرتا سائے میں جا پہنچا اور ملکہ کو پہلے بہت ہی ادب سے سلام کیا ،پھر کہا:”چڑیا نے چیں چیں کی،آپ نہیں مانیں،بلی نے میاؤں میاؤں کی آپ نہیں آئیں،چوہیا نے دم ہلائی آپ نہیں آئیں ،کوے نے کائیں کائیں کی آپ نہیں آئیں۔اب میں یہ نرم نرم پالان لے کر حاضر ہوا ہوں۔آئیے،اس پر بیٹھے اور گھر تشریف لے چلیے۔لیکن ملکہ نے پھر جانے سے انکار کر دیا۔اب تو سب جانور بہت پریشان ہوئے۔ایک بار پھر سب مل کر بیٹھے اور سوچنے لگے کہ کیا کیا جائے۔اُن میں اونٹ موجود تھا۔اس نے کہا:”میں چلتا ہوں۔دیکھیں ملکہ کیسے گھر نہیں آتیں؟“وہ اٹھا اور اپنے گلے میں گھنٹی لٹکائی،گھٹنوں پر گھنگھر وباندھے اور چھم چھم کرتا سرائے کی طرف روانہ ہو گیا۔وہاں پہنچ کر وہ ملکہ کے سامنے جا کھڑا ہوا اور بولا:”ملکہ صاحبہ!چڑیا نے چیں چیں کی،بلی نے میاؤں میاؤں کی،چوہیا نے دُم ہلائی،کوے نے کائیں کائیں کی،گدھا پالان لے کر آیا،آپ نہیں مانیں ۔اب میں حاضر ہوا ہوں۔میں آپ سے کھانا نہیں مانگتا۔میں آپ کی ویسے ہی خدمت کرنے والاہوں ۔آئیے گھر چلیں۔“
ملکہ نے سر جھکالیا اور سوچنے لگی۔بے شک اونٹ بڑے کام کا جانور ہے۔دن رات چلتا رہتاہے اور تھکنے کا نام نہیں لیتا۔کئی دن تک کھانے اور پانی کے بغیر گزارہ کرتاہے۔اس کے بالوں سے کمبل اور قالین اور گرم کپڑے بنتے ہیں یہ تو بڑا نیک جانور ہے۔اس کا کہا ضرور ماننا چاہیے ،اور پھر ملکہ اونٹ پر بیٹھی اور گھر آگئی۔وہاں سب جانوروں نے ملکہ کا استقبال کیا۔ملکہ نے سب کو گلے لگایا اور پیار کیا۔چڑیا،کوا،اونٹ کی گردن پر بیٹھ کر چہچہانے لگے۔چوہیا اس کی دم پکڑ کر لٹک گئی۔بلی مہار ہاتھ میں لئے چلنے لگی۔اونٹ اچھلتا ،ناچتا چلا جاتا تھا۔پیچھے بادشاہ اور ملکہ اپنے پیارے جانوروں کا کھانا اٹھائے چلے آرہے تھے۔واہ میاں اونٹ کیا کہنے تمہارے!!
ایک دن کا ذکر ہے ،ملکہ نے کھانا پکانے میں دیر کر دی۔جانور کام کرتے کرتے تھک گئے تھے اور بھوک سے نڈھال ہورہے تھے۔سب نے بادشاہ کے پاس شکایت کی۔بادشاہ نے ملکہ کو بلا کر ڈانٹا اور کہا کہ یہ جانور بے چارے دن بھر کام کرتے کرتے تھک جاتے ہیں اور تم ذرا بھی ان کا خیال نہیں کرتیں۔
(جاری ہے)
اُدھر بادشاہ اور جانوروں کو ملکہ کے روٹھ کر چلے جانے کا بڑا افسوس ہوا ۔وہ ملکہ کے بغیر اداس تھے۔کام میں ان کا جی نہیں لگتا تھا۔آخر وہ سب کے سب مل کر بیٹھے اور مشورہ کرنے لگے کہ کسی نہ کسی طرح ملکہ کو واپس لانا چاہیے۔صلاح ٹھہری کہ پہلے چڑیا کو بھیجا جائے۔چڑیا نے پَر پھڑ پھڑائے اور اُڑگئی۔اُڑتی گئی،اُڑتی گئی ،یہاں تک کہ سرائے کی دیوار پر جا کر بیٹھ گئی اور ملکہ سے کہا:
”ملکہ صاحبہ! آپ ناراض نہ ہوں ہم آپ کو کسی طرح کی تکلیف نہیں دیں گے۔خود ہی کھانے کا بندوبست کر لیں گے۔آئیے محل کو چلیں۔“
ملکہ نے کہا:”بھاگ جاؤ میں نہیں آؤں گی۔“چڑیا بے چاری غم کی ماری لوٹ آئی۔جانوروں نے جب یہ سنا کہ چڑیا ناکام لوٹ آئی ہے تو انہوں نے فیصلے کے مطابق بلی کو بھیجا۔بلی روانہ ہو گئی!چلتی گئی چلتی گئی،یہاں تک کہ سرائے میں داخل ہوئی۔ملکہ کو بڑے ادب سے سلام کیا اور کہا:”پیاری ملکہ!ہم نے اپنی من موہنی چڑیا کو بھیجا۔اس نے بڑی چیں چیں کی،آپ نہیں مانیں۔آئیے گھر چلیں۔میں وعدہ کرتی ہوں کہ آپ سے کھانا نہیں مانگوں گی۔اپنے کھانے کا خود ہی انتظام کرلوں گی۔“
ملکہ نے کہا:”نہیں میں نہیں آؤں گی۔“
بلی بے چاری بھی مایوس ہو کر واپس آگئی۔اب چوہیا اُٹھی۔اس نے بھی جا کر ادب سے سلام کیا۔پھر کہا:” چڑیا نے چیں چیں کیا،آپ نہیں مانیں ،بلی میاؤں میاؤں کرتی آئی۔آپ نے انکار کر دیا۔اب میں آئی ہوں،تشریف لے چلیے،میں اپنی نرم اور نازک دم سے آپ کو پنکھا جھلوں گی“۔لیکن ملکہ پھر بھی نہ مانی۔
اب کوے کی باری آئی۔وہ تیزی سے اُڑا اور کائیں کائیں کرتا سرائے میں ملکہ کے پاس پہنچا اور کہا:”ملکہ حضور !چڑیا نے چیں چیں کی۔بلی نے میاؤں میاؤں کی۔چوہیا نے دم ہلائی ،آپ پھر بھی نہیں مانیں۔آئیے میرے ساتھ آئیے“ ․․․․․ملکہ نے پھر انکار کر دیا۔
اب گدھے نے اپنا پالان اٹھایا اور بڑے ناز نخرے سے اچھلتا ،کودتا،ناچتا ڈھینچوں ڈھینچوں کرتا سائے میں جا پہنچا اور ملکہ کو پہلے بہت ہی ادب سے سلام کیا ،پھر کہا:”چڑیا نے چیں چیں کی،آپ نہیں مانیں،بلی نے میاؤں میاؤں کی آپ نہیں آئیں،چوہیا نے دم ہلائی آپ نہیں آئیں ،کوے نے کائیں کائیں کی آپ نہیں آئیں۔اب میں یہ نرم نرم پالان لے کر حاضر ہوا ہوں۔آئیے،اس پر بیٹھے اور گھر تشریف لے چلیے۔لیکن ملکہ نے پھر جانے سے انکار کر دیا۔اب تو سب جانور بہت پریشان ہوئے۔ایک بار پھر سب مل کر بیٹھے اور سوچنے لگے کہ کیا کیا جائے۔اُن میں اونٹ موجود تھا۔اس نے کہا:”میں چلتا ہوں۔دیکھیں ملکہ کیسے گھر نہیں آتیں؟“وہ اٹھا اور اپنے گلے میں گھنٹی لٹکائی،گھٹنوں پر گھنگھر وباندھے اور چھم چھم کرتا سرائے کی طرف روانہ ہو گیا۔وہاں پہنچ کر وہ ملکہ کے سامنے جا کھڑا ہوا اور بولا:”ملکہ صاحبہ!چڑیا نے چیں چیں کی،بلی نے میاؤں میاؤں کی،چوہیا نے دُم ہلائی،کوے نے کائیں کائیں کی،گدھا پالان لے کر آیا،آپ نہیں مانیں ۔اب میں حاضر ہوا ہوں۔میں آپ سے کھانا نہیں مانگتا۔میں آپ کی ویسے ہی خدمت کرنے والاہوں ۔آئیے گھر چلیں۔“
ملکہ نے سر جھکالیا اور سوچنے لگی۔بے شک اونٹ بڑے کام کا جانور ہے۔دن رات چلتا رہتاہے اور تھکنے کا نام نہیں لیتا۔کئی دن تک کھانے اور پانی کے بغیر گزارہ کرتاہے۔اس کے بالوں سے کمبل اور قالین اور گرم کپڑے بنتے ہیں یہ تو بڑا نیک جانور ہے۔اس کا کہا ضرور ماننا چاہیے ،اور پھر ملکہ اونٹ پر بیٹھی اور گھر آگئی۔وہاں سب جانوروں نے ملکہ کا استقبال کیا۔ملکہ نے سب کو گلے لگایا اور پیار کیا۔چڑیا،کوا،اونٹ کی گردن پر بیٹھ کر چہچہانے لگے۔چوہیا اس کی دم پکڑ کر لٹک گئی۔بلی مہار ہاتھ میں لئے چلنے لگی۔اونٹ اچھلتا ،ناچتا چلا جاتا تھا۔پیچھے بادشاہ اور ملکہ اپنے پیارے جانوروں کا کھانا اٹھائے چلے آرہے تھے۔واہ میاں اونٹ کیا کہنے تمہارے!!
Browse More Moral Stories
آدھا کمبل
Aadha Kambal
فقیر اور بادشاہ
Faqeer Aur Badshah
لیٹر بکس کا بھوت
Letter Box Ka Bhoot
جھوٹ مت بولیں
Jhoot Mat Bolain
کنجوسی کی سزا
Kanjoosi Ki Saza
ظالم بادشاہ
Zalim Badsha
Urdu Jokes
ضمیر
Zameer
وکیل
Wakeel
مائیکل
michel
غریب دیہاتی
Gareeb dehati
ایک پرانی
Aik purani
استاد شاگرد سے
Ustad Shagird se
Urdu Paheliyan
دھرا پڑا ہے سرخ پیالہ
dhara para hai surkh piala
کالا گھر سے جاتا دیکھا
kala ghar se jate dekha
مت جانو کچھ ایسا ویسا
mat jano kuch aisa waisa
کتیا بھونک کہ جو کہتی ہے
kutiya bhounk ke jo kehti hai
جیسا تو ہے وہ بھی ویسی
jaisa tu hai wo bhi wesi
جانور اک ایسا بھی دیکھا۔۔۔
janwar aik aisa bhi dekha
ArticlesStoriesMiscellaneousGamesBaby NamesUrdu Videos