Panda - Article No. 1823

Panda

پانڈا - تحریر نمبر 1823

انسانوں سے پیار کرنے والا جانور

پیر 19 اکتوبر 2020

محمد فرحان اشرف
پیارے بچو!آپ نے دستاویزی فلموں میں لُڑھکتا،پتے کھاتا اور آہستہ آہستہ چلتا ہوا دور سے بڑے ریچھ جیسا نظر آنے والا جانور پانڈا ضرور دیکھا ہو گا۔ پانڈا گول مٹول سا جانور ہے،جو اپنے موٹے اور لمبے جسم کے باعث مائٹی(Mighty) پانڈا بھی کہلاتا ہے۔ حیوانات کے ماہرین اسے ریچھ کی ایک قسم تسلیم کرتے ہیں اور اسے پانڈا ریچھ کہتے ہیں،ہم بھورے،سیاہ ریچھ اور برفانی ریچھ کو پانڈا کے کزن کہہ سکتے ہیں ۔

پانڈا کہاں پایا جاتا ہے؟
پانڈا چین کے مرکزی صوبوں میں موجود بانس کے جنگلات میں پایا جاتا ہے ۔یہ وہاں بانس کے درختوں کے جھنڈ میں گیلی مٹی کھود کر گڑھا بناتا ہے اور اس میں چھپا رہتا ہے۔ ریچھ کی طرح پانڈا اپنی پچھلی ٹانگوں پر کھڑا ہو سکتا ہے اور پانی میں تیر بھی سکتا ہے،لیکن یہ پانی سے دور رہتا ہے اور چڑھائی پر آسانی سے چڑھ جاتا ہے۔

(جاری ہے)

پانڈا کو دن کے وقت کم نظر آتا ہے،مگر رات کے وقت اس کی نظر خاصی تیز ہو جاتی ہے۔ اس کی سونگھنے کی حس بہت تیز ہے جس سے یہ خوراک اور اپنے ساتھیوں کو تلاش کرتا ہے۔
افزائش نسل
پانڈا کی مادہ بہار کے موسم میں ایک یا دو بچے دیتی ہے۔ پیدائش کے وقت یہ بچے ایک بڑے چوہے جتنے ہوتے ہیں۔ ماں بچوں کو تقریباً ایک سال تک دودھ پلاتی ہے اور ڈیڑھ سال تک اپنے پاس رکھتی ہے۔

پانڈا کی اقسام
قن ڈنگ پانڈا
پانڈا کی دو اقسام”قن ڈنگ پانڈا“ اور سرخ پانڈا چین میں پائے جاتے ہیں۔ آپ کو یہ جان کر حیرت ہو گی کہ دنیا بھر میں پائے جانے والے تمام پانڈا چین کی ملکیت ہیں۔ چین سے باہر تمام پانڈاچین نے لیز پر حاصل کررکھے ہیں۔ پوری دنیا میں ان کی کل تعداد 300کے لگ بھگ ہے۔
سرخ پانڈا
سرخ پانڈا کو چھوٹا پانڈا اور سرخ بلی نما ریچھ بھی کہا جاتا ہے۔
یہ جنوب مغربی چین اور مشرقی ہمالیہ کے پہاڑوں میں پایا جاتا ہے۔ یہ قد میں پالتو بلی سے تھوڑا بڑا ہوتا ہے۔ یہ بانس کے علاوہ کیڑے،انڈے اور پرندے بھی کھا لیتا ہے۔ ان کی تعداد بہت کم ہے اور عمر زیادہ سے زیادہ 22سال تک ہوتی ہے۔ سرخ پانڈا بہت غصیلا ہوتا ہے اور تنگ کرنے پر فوراً حملہ کر دیتا ہے۔ پانڈا دن میں 14گھنٹے سویا رہتا ہے اور باقی وقت کھانے پینے اور سستی سے ایک جگہ بیٹھ کر گزار دیتا ہے۔
ایک دن میں پانڈا 15کلو گرام تک خوراک کھا جاتا ہے۔ پانڈا کو چڑیا گھر میں رکھنا خاصا مہنگا ہے،کیونکہ اس کے کھانے کے تازہ بانس کے درخت مہیا کرنا بہت مہنگا پڑتا ہے۔ پانڈا کو اُنیسویں صدی تک صرف چین میں جانا جاتا تھا۔1869ء میں ایک عیسائی مبلغ کو ایک مقامی چینی نے پانڈا کی کھال تحفے کے طور پر دی،اس طرح پہلی باریورپ کو اس جانور کا علم ہوا۔
1916ء میں ایک جرمن ماہر حیوانات’ہیو گو وی گولڈ‘(Hugo Weigold) نے پانڈا کا باقاعدہ ذکر کیا اور اس جانور پر تحقیق کی۔پانڈا بھی اُن جانوروں میں شامل ہے،جو ختم ہونے کے خطرے سے دو چار ہیں۔ چین میں اس جانور کی آزادی کے لئے کئی تحقیقاتی مراکز قائم کیے گئے ہیں اور چین حکومت نے ا س کے شکار پر پابندی لگا دی ہے۔ 2008ء کے اور اولمپکس چین کے شہر بیجنگ میں منعقد ہوئے ،ان میں نمایاں نشان پانڈا تھا۔

Browse More Moral Stories