Sard Jahanum - Article No. 1476

Sard Jahanum

سردجہنم - تحریر نمبر 1476

ہر شخص ڈاکٹر والٹن کی گفتگو نہایت خاموشی اور توجہ سے سن رہا تھا۔یوں محسوس ہورہا تھا جیسے وہ آئینے کے سامنے کسی ڈرامے کی مشق کررہے ہوں اور باقی لوگ ان کی حرکات اور مکالموں پر نظر رکھے ہوئے ہوں۔

جمعرات 18 جولائی 2019

شیخ عبدالحمید عابد
ہر شخص ڈاکٹر والٹن کی گفتگو نہایت خاموشی اور توجہ سے سن رہا تھا۔یوں محسوس ہورہا تھا جیسے وہ آئینے کے سامنے کسی ڈرامے کی مشق کررہے ہوں اور باقی لوگ ان کی حرکات اور مکالموں پر نظر رکھے ہوئے ہوں۔
”آپ میں سے کون جائے گااس مشن پر؟“انھوں نے اپنی بات جاری رکھتے ہوئے کہا:”میر ے خیال میں وہی لوگ ملکی مسائل کو حل کرنے کے اہل ہیں ،جن میں اپنے مسائل کو حل کرنے کی اُمنگ ہوتی ہے ۔
اپنے قومی وقار کو بڑھانے کا جذبہ ہوتا ہے اور ایسے ہی لوگ خطرات سے نمٹنے کے لیے ہر وقت تیار رہتے ہیں۔“
انھوں نے ایک اُچٹتی ہوئی نظر ہال کے اطراف میں دوڑائی ۔جین ،ولےئم اور رابرٹ نے ہاتھ اُٹھا دیے۔وہاں بیٹھے تمام افراد نے ٹھنڈی آہ بھر کر ان کی طرف ایسے دیکھا جیسے کہہ رہے ہوں، کیوں اپنی موت کو دعوت دے رہے ہو۔

(جاری ہے)

ان تینوں نے والٹن کی طرف سے بنائی گئی فائل پر دستخط کیے اورمحفل برخاست کر دی گئی۔


والٹن گروپ بارہ افراد پر مشتمل تھا،جو بہادری اور مہم جوئی میں اعلا مقام رکھتا تھا۔اس گروپ کا سر براہ والٹن تھا ،جو ملک کا نام ورسائنس داں تھا۔مہم جوئی کی دنیا میں اس گروپ نے کئی کارنامے سر انجام دیے تھے۔اس دفعہ گروپ کے ممبران کو تحقیق کے لیے جہاں بھیجا جارہا تھا،وہ ایک ایسا علاقہ تھا جو مسلسل برف باری کی وجہ سے قرب وجوار کی آبادی سے بالکل کٹ گیا تھا۔
اس گروپ کے ذمے ایسا کام لگا یا گیا تھا جو کسی بھی انسان کے لیے مشکل اور کٹھن کام تھا۔یعنی اس ویران ،خوف ناک اور حد درجے مشکلات سے گھرے علاقے کے بارے میں کوئی حل ڈھونڈنا اور پھر تمام معلومات کی مکمل تفصیلات کتاب کی صورت میں عوام کی آگہی کے لیے شائع کرنا تھا۔
دوسرے دن وہ تینوں اپنے مشن پر روانہ ہو گئے۔نقشے میں راستے انھیں جتنے دشوار دکھائی دیتے تھے،اس سے کہیں زیادہ خطر ناک اور دشوار گزار تھے۔
وہاں پہنچ کر تینوں الگ الگ سمتوں میں روانہ ہو گئے۔
رابرٹ جس سمت روانہ ہوا،وہ انتہائی برفانی علاقہ تھا۔پہاڑ ،برف کے تودوں سے ڈھکے ہوئے تھے۔آسمان پر سر مئی بادلوں کا راج تھا۔ہر طرف برف ہی برف تھی۔زمین کی سطح برف کی موٹی یہ میں ایسے ڈھک کر روئی کے گالوں کی طرح محسوس ہورہی تھی۔رابرٹ احتیاط سے قدم بڑھا رہا تھا۔ہر طرف مکمل سکوت تھا۔
برف باری بھی مسلسل ہورہی تھی۔اس نے ایک بارولیم سے وائر لیس پر رابطہ کیا۔تیز برف باری کی وجہ سے اس کا رابطہ ٹھیک طور پر نہیں ہو پارہا تھا۔
اس نے ولےئم کو ایک بار ضروری پیغام سمجھاکرپھر سے چلنا شروع کر دیا۔گمبیھر سناٹا،سائیں سائیں کرتی ہوا ان تینوں کو سخت نا گوار محسوس ہورہی تھیں۔برف باری نے ایک بار پھر تیزی پکڑ لی تھی ۔رابرٹ برف پر چلے چلتے تھک سا گیا تھا،لیکن یہاں سے واپس جانے کے بعد اس کے ملک کو اتنے بڑے اور مشکل کام کے کامیاب ہونے پر جو شہرت ملے گی وہ اس کا اندازہ بہ خوبی کر سکتا تھا ۔
اپنا ملک جو اس کی شناخت ،اس کی پہچان تھا ۔جہاں بسنے والے اس کے اپنے جیسے آدمی تھے۔وہ اپنے ملک اور اپنے لوگوں کے لیے زیادہ بہتر کام کرنے کی جستجو میں تھا۔
”رات اسی جگہ بسر کر لینی چاہیے۔“اس نے سوچا اور خیمہ نصب کرکے والٹن کے دیے گئے نقشے کو بہ غور دیکھتے ہوئے آیندہ کے لائحہ عمل کے بارے میں سوچنے لگا۔برف باری میں رات کے تیسرے پہر کمی آگئی تھی ۔
مسلسل برف گرنے کی وجہ سے زمین کی سطح چھپ گئی تھی۔رابرٹ نے جس جگہ خیمہ لگا یا وہ ایک اونچا پہاڑ نما تو دہ تھا ،جو آس پاس کے چھوٹے بڑے پہاڑ نماٹیلوں کے بیچ میں چھپ سا گیا تھا۔جس کی وجہ سے برف مکمل طور پر اس تودے تک نہیں پہنچ رہی تھی اور وہ تو دہ اس وقت اس کے لیے کسی محفوظ مقام
سے کم نہیں تھا۔رابرٹ کسی سہمے ہوئے مسافر کی طرح دُبکا بیٹھا تھا۔
وائرلیس کی ٹونٹ ٹونٹ کرتی آواز اسے اس وقت کسی دھماکے سے کم نہ لگی۔دوسری طرف ولئیم تھا۔
”میں رابرٹ بول رہا ہوں۔“رابرٹ گھگیائے ہوئے لہجے میں بولا۔
”رابرٹ سنو !جین کا مجھ سے رابط نہیں ہو رہا ہے ۔“ولئیم نے بتایا۔
“تم نے اس سے رابطہ کیا؟“رابرٹ خاصا پریشان تھا۔
ولئیم نے جواب دیا:”تمھارا اور جین کا رابطہ مجھ سے تقریباً آٹھ گھنٹے پہلے ہوا تھا۔
اس کے بعد میں نے نہ تم سے رابطہ کیا اور نہ جین سے ۔“
اس نے کئی بارجین سے رابطہ کرنے کی کوشش کی ،لیکن جواب نہیں ملا۔ولئیم کے ساتھ ساتھ رابرٹ بھی جین کی طرف سے پریشان ہو گیا۔
”تو کیا جین ہم سے ہمیشہ کے لیے بچھڑ گیا۔“
اس خیال کے ساتھ ہی اُسے اپنے اندر ایک سرد لہر سرایت کرتی ہوئی محسوس کی۔رابرٹ نے فوراً اس بُرے خیال کو جھٹک دیا اور پھر نقشے کی طرف متوجہ ہو گیا۔
رات جو بے حد تاریک تھی ۔آہستہ آہستہ گزر ہی تھی۔ایک زور دار دھماکے کے ساتھ برف کے ٹکڑے ہوئے اور پھر مکمل خاموشی چھا گئی۔پھر چٹخنے کی عجیب وغریب آواز کے ساتھ برف علاحدہ ہو گئی۔ساری رات برف کے تو دے گر کر پاش پاش ہوتے رہے۔رابرٹ ساری رات جا گتا رہا تھا۔اپنے آپ کو خاصا اکیلا محسوس کر رہا تھا۔صبح کی روشنی پھیلتے ہی وہ خود کو تازہ دم محسوس کرنے لگا۔
شاید زندہ بچ جانے کی خوشی چہرے اور دل ودماغ پر مسرت بن کر چھا گئی تھی ۔رابرٹ نے آہستہ آہستہ تو دے سے اُتر کر چلنا شروع کر دیا۔سردہوائیں چلنے لگیں۔بادل اِدھر اُدھر بھٹک گئے تھے۔اس لیے سورج بھی ان کے پیچھے سے باہر آکر اپنی پوری تمازت دکھا رہا تھا۔بہت عرصے بعد سورج کی رو پہلی کرنیں اسے اور بھی خوش گوار لگ رہی تھیں۔وہ متعین کردہ سمت کی
طرف چلنے لگا۔
جہاں اس نے ولئیم کو پہنچنے کے لیے کہا تھا۔شمال کی طرف جانے والے راستے پر وہ چلتا رہا۔سورج کی تپش سے برف کے ٹکڑے پگھل کر پانی بن رہے تھے۔جس کی وجہ سے چلنا اور بھی دشوار ہو گیا تھا۔برف باری کے رک جانے پر البتہ وہ خوش تھے۔
وہ جلد از جلد ولیم کے پاس پہنچنا چاہتا تھا۔وہ جتنا سنبھل سنبھل کر آہستگی سے جارہا تھا۔اس سے کہیں زیادہ تیز سے موسم نے رُخ بدلا اور بادلوں کے چھوٹے چھوٹے ٹکڑوں نے سورج کو نگل لیا۔
ایک بار پھر اندھیرا چھا گیا تھا۔اس اچانک تبدیلی نے رابرٹ کو مایوس کر دیا۔ایک دفعہ پھررابرٹ کے بدن میں سر سراہٹ سی ہونے لگی۔اس ہول ناک سناٹے میں اس کا دم گھبرانے لگا۔وہ خیالوں میں گم آگے بڑھتا ہی جارہا تھا کہ اچانک کوئی سخت چیز اس کے لونگ اسٹرانگ شوز سے ٹکرائی تو وہ ٹھٹک گیا۔اس نے جھک کر دیکھا تو برف کے گرنے کی وجہ سے وہ سخت چیز چھپ گئی تھی،لیکن گرین ہیٹ کو اس نے پہچان لینے میں دیرنہ کی تھی:”اوہ!یہ تو جین کا ہیٹ ہے۔
“وہ اپنے آپ میں بڑبڑایا۔
اس نے جلدی جلدی اپنے دستانوں والے ہاتھ سے برف اِدھر اُدھر ہٹانی شروع کردی کوئی برف پراوندھا پڑ ا تھا۔اس نے جیسے ہی منھ سیدھا کیا۔اس کی ایک دلخراش چیخ سردہواؤں میں گم ہو گئی ۔وہ یقینا جین ہی تھا۔ہونٹ گہرے نیلے اور چہرے کی تمام نسیں اُبھر کرنیلی ہو گئی تھی۔وہ اسے چھوڑ کر آگے بڑھ گیا۔اب اسے مکمل یقین تھا کہ ولئیم اور خودان کا بھی شاید یہی حال ہو گا ۔
وہ سوچتا ہوا جس راستے پر آنکلا تھا۔ و انتہائی پتھر یلااور غیر ہموار تھا۔اندھیرا بڑھتاجارہا تھا۔وہ مسلسل تیز چل رہا تھا۔کافی آگے جانے پر اسے شدید حیرت کا سامنا کرنا پڑا۔
اس کے تھورے فاصلے پر عجیب وغریب درخت تھے،جن کی لمبائی کسی عام آدمی کے قد کے برابر ہو گی،لیکن وہ جسامت کے لحاظ سے قدرے پتلے اور کمزور سے درخت تھے۔اتنی برف باری اور شدید سردی میں وہ کیسے ہرے بھرے تھے،اس کی سمجھ میں نہ آسکا۔
اس کی شاخیں سوسن یا پھر برگد کے درختوں کی طرح ہوا میں جھول کر ایک بے ہنگم شور پیدا کر رہی تھیں۔وہ ان کے بارے میں جاننے کے لیے آگے بڑھا۔اس نے ایک جھولتی ہوئی شاخ کو چھوا تو تمام شاخیں جیسے حرکت میں آگئیں اور دیکھتے ہی دیکھتے اس کے اردگرد لپٹنے لگیں ۔رابرٹ اس نئی افتاد سے گھبرانے کے بجائے بڑی تیزی اور مہارت سے جیب سے چاقو نکال کر شاخیں کاٹنے لگا۔
دوتین منٹ کی اس جان لیوا کوشش کے بعدد رخت کی گرفت ڈھیلی محسوس ہوتے ہی اس نے ایک لمبی چھلانگ لگادی۔اس وقت وہ خاصہ حواس باختہ تھا۔اس کی آنکھوں کی پتلیاں حیرت سے مزید پھیل گئیں،جب اس نے دیکھا کہ کاٹی گئی شاخیں ایسے تڑپ رہی ہیں جیسے کیس چھپکلی کی دُم کو اس کے جسم سے الگ کردیا گیا ہو۔تمام شاخیں جھول کر واپس درخت کے تنے سے لپٹ گئیں۔اب اس کی سمجھ میں آگیا تھا۔
کوئی بھی ذی روح ان آدم خوردرختوں کے ہوتے ہوئے کیسے زندہ رہ سکتا ہے۔
وہ شدید تکلیف کے باوجود تیزی سے اُٹھ کھڑا ہوا۔ہواؤں کے تیز جھکڑپھر سے چلنا شروع ہو گئے اور ساتھ ہی برف باری نے بھی زور پکڑلیا تھا۔وہ اپنے متعین کردہ مقام پر پہنچا تو وہاں ولیم بھی موجود نہ تھا۔اس کا رقعہ چاقو سے اڑ سا ہوا اسے ملا تھا ،جس میں اس کی روانگی کی اطلاع تھی۔
رابرٹ نے رات وہیں گزارنے کا فیصلہ کیا اور خیمہ نصب کرنے لگا۔جین کی ہولناک موت نے اسے خوف زدہ کر دیا تھا۔اس کی سمجھ میں نہیں آرہا تھا کہ مزید اس علاقے کے بارے میں تحقیق کرے یا واپس کا سامان کرلے۔موسم کی خرابی کی وجہ سے ڈاکٹر والٹن سے بھی کوئی رابطہ نہیں ہو پارہا تھا۔
”ولئیم سے مل کر ہی کوئی فیصلہ کروں گا۔“اس نے اپنے آپ کو تسلی دی جو اسے خود ہی جھوٹی لگی کیوں کہ ہر رات اسے آخری رات سے کسی طرح کم نہ لگتی تھی۔
کمر ٹیک کروہ خیالوں کو پرونے لگا۔ صبح کی آمد روزانہ کی طرح ہی تھی۔تیز سرد ہوائیں زور شور سے جاری تھیں۔اس نے سامان پیک کیا اور ولئیم کے تحریر کیے گئے راستے پر چل پڑا۔برف پر یوں آہستہ چلنا اسے سخت نا گوار لگ رہا تھا،وہ بڑی احتیاط سے چل رہا
تھا۔اس کے جسم کا جوڑ جوڑ دکھ رہا تھا۔رابرٹ نے صاف محسوس کیاکہ وہ اب آگے مزید آگے نہیں چل سکتا۔
جین کی موت کا سوچتے ہی وہ پھر سے آگے بڑھنے کے لیے تیار ہو گیا ۔اسے معلوم تھا کہ ایک بار بھی برف میں گرجانے کے بعد وہ بھی اس میں ہمیشہ کے لیے کھو جائے گااور وہ ایسی ہو لناک موت نہیں مرنا چاہتا تھا۔
دن کی روشنی کی شام کے سائے نگل رہے تھے۔ہر طرف دھند پھلنے لگی تھی۔اس کے جسم میں سنسناہٹ دوڑنے لگی۔ شام کے سائے پھیلتے ہی اس کی رفتار میں تیزی آگئی تھی۔
دورہی سے اس نے کچھ سامان دیکھ لیا تھا۔وہ تیز تیز قدم بڑھا کروہاں پہنچا تو بے اختیار رودیا۔وہ بالکل اکیلا رہ گیا تھا۔ولئیم کا سامان برف میں دھنسا ہوا تھا اور لمبی چھڑی جس سے راستے کی نشاندہی کرنی تھی،وہ برف میں اڑسی ہوئی تھی۔ولئیم برف کی قبر میں ہمیشہ کے لیے دفن ہو گیا تھا۔رابرٹ اس ماحول سے اُکتا گیا تھا۔اس نے فوری فیصلہ کر دیا تھا۔
مزید رکنا اس کے لیے محال تھا۔اسے اپنی موت بھی یقینی معلوم ہورہی تھی۔رابرٹ ایک ایک قدم پھونک پھونک کر رکھ رہا تھا۔ہولناک سناٹے اور رات کی تاریکی نے اسے اور بھی ڈرادیا تھا۔ابھی وہ ایک قدم اور بڑھا ہو گاکہ اپنا توازن بر قرار نہ رکھ سکا اور وہیں گر گیا۔
رات کی تاریکی میں ایسا کچھ دکھائی نہ دے رہا تھا۔وہ بالکل بے بس ہو چکا تھا۔ایک بار پھر اسے اپنی قسمت پر رونا آگیا ۔
اسے یقین ہو گیاکہ اب وہ دوبارہ انسانوں کی بستی میں کبھی بھی نہ جاسکے گا۔اس نے افسردگی اور نا اُمیدی کے ملے جلے احساسات کے ساتھ اپنے اطراف نظر دوڑائی تو اس کے بدن میں خوشی کی لہر دوڑگئی ۔تاحد نظر پہاڑوں کے اس پار مدھم سی روشنی اسے چاروں طرف پھیلی ہوئی محسوس ہوئی۔اسے یقین ہو چکا تھا کہ وہ انسانی آبادی کے قریب ہے ۔اس کی مایوسی نے اُمید کا دامن پھر سے تھام لیا۔
وہ ایک بار پھر اپنے پاؤں پر کھڑا ہو گیا۔اس کے پاؤں بے جان سے ہورہے تھے ۔وہ قدرے سرک سرک کر چلتا رہا ،وہ خطر ناک علاقے کی بلند وبالا چوٹیوں کو سر کر کے اس خطے کے بارے میں تمام معلوم سمیٹ کر زندہ سلامت واپس جارہا تھا۔یہی جذبہ اسے تیز چلنے پرمجبور کر رہا تھا۔وہ اب بے حد خوش تھا، کیوں کہ اس نے موت کو شکست دے دی تھی۔رابرٹ ساری رات طویل راستہ طے کرنے کے بعد پہاڑ کے اس پار انسانوں کی بستی میں اُتر گیا ،جہاں سے اس کا رابطہ ڈاکٹر والٹن سے ہو گیا ۔وہ بہت اطمینان محسوس کررہا تھا،لیکن اپنے دو ساتھیوں کے بچھڑنے کا احساس اسے مغموم کیے ہوئے تھا۔

Browse More Moral Stories