Turram Khan Aur Phannay Khan - Article No. 2015

Turram Khan Aur Phannay Khan

طرم خان اور پھنے خان - تحریر نمبر 2015

دونوں کو اپنے بارے میں یہ خوش فہمی تھی کہ گاؤں میں ان سے زیادہ بہادر اور طاقتور کوئی نہیں

منگل 13 جولائی 2021

عروج سعد
گاؤں میں ڈھنڈورچی اعلان کر رہا تھا:”سب گاؤں والے ایک ضروری اعلان سنیں۔آئندہ ہفتے جمعہ کی نماز کے بعد کُشتی کے میدان میں پھنے خان اور طرم خان ایک دوسرے سے مقابلہ کریں گے۔اس دلچسپ مقابلے کو دیکھنے کے لئے تمام گاؤں والے طے شدہ وقت پر میدان میں جمع ہو جائیں۔“
اعلان کا سننا تھا کہ پورے گاؤں میں کھلبلی مچ گئی۔
یہ گاؤں برف پوش پہاڑوں کے درمیان ایک سرسبز وادی میں واقع تھا۔چونکہ دیہاتی کھلے میدانوں میں مل جل کر بیٹھنے اور کھیل تماشوں کے شوقین ہوتے ہیں،لہٰذا سبھی اس سنسنی خیز مقابلے کا بے چینی سے انتظار کرنے لگے۔
مگر یہ پھنے خان اور طرم خان کون تھے اور یہ مقابلہ کیوں ہو رہا تھا۔دراصل پھنے خان سچ مچ کے پھنے خان نہیں تھے اور نہ طرم خان حقیقت میں طرم خان تھے۔

(جاری ہے)

دونوں کو اپنے بارے میں یہ خوش فہمی تھی کہ گاؤں میں ان سے زیادہ بہادر اور طاقتور کوئی نہیں۔وہ کُشتی کے دو چار داؤ جانتے تھے اور گاؤں والوں کے سامنے اپنی بہادری کی شیخیاں بگھارتے رہتے تھے۔گاؤں کے لوگ انھیں اصل ناموں کے بجائے پھنے خان اور طرم خان کے نام سے پکارنے لگے تھے۔
گاؤں کے چڑی مار کرم دین نے اتفاق سے ایک سرخاب پکڑ لیا۔سرخاب ایک انتہائی حسین پَروں والا،قیمتی اور نایاب پرندہ ہوتا ہے۔
اس کے بارے میں مشہور ہے کہ جس کے پاس سرخاب ہو گا،اس کی قسمت چمک جائے گی۔کرم دین نے سرخاب بیچنے کے لئے اپنی دکان پر رکھ لیا،تاکہ اس کے اچھے سے اچھے دام مل سکیں۔
اب اتفاق کی بات ہے کہ پھنے خان اور طرم خان ایک ساتھ سرخاب کو خریدنے کے لئے دکان پر پہنچے۔دونوں ایک دوسرے کو ناگواری سے گھورنے لگے۔
طرم خان اپنی کہنی سے پھنے خان کو پیچھے دھکیلتے ہوئے دکان میں داخل ہوئے۔
کرم دین اپنی جگہ سے اُٹھ کھڑا ہوا۔
پھنے خان نے زور سے کہا:”کرم دین!میں سرخاب خریدنے آیا ہوں،کیا دام لو گے؟“
طرم خان نے فوراً کہا:”میں دکان میں پہلے داخل ہوا تھا،سرخاب صرف میں ہی خریدوں گا۔“
پھنے خان نے کہا:”خریدنے کی بات پہلے میں نے کی ہے۔“
طرم خان نے کہا:”ارے اس پرندے کو خریدنا ہر کسی کے بس کی بات نہیں ہے۔

پھنے خان نے کہا:”تم جیسا پھٹیچر تو یہ خرید ہی نہیں سکتا۔“
یہ سنتے ہی طرم خان نے پھنے خان کو دھکا دے کر گرا دیا:”مجھے پھٹیچر کہتا ہے اپنی اوقات دیکھی ہے۔“اور دونوں آپس میں گتھم گتھا ہو گئے۔
کرم دین نے جو یہ ماجرا دیکھا تو دوڑا دوڑا گاؤں کے قاضی صاحب کے پاس پہنچ گیا اور ساری بات کہہ سنائی۔قاضی صاحب نے دونوں فریقوں کو اپنے پاس بلا لیا اور یہ فیصلہ سنایا کہ دونوں اپنی طاقت کا مظاہرہ کریں۔
کُشتی کا مقابلہ ہو گا۔جس نے مقابلہ جیت لیا وہ سرخاب خریدنے کا حق دار قرار پائے گا۔چنانچہ اعلان کرکے گاؤں والوں کو اس مقابلے کی اطلاع دے دی گئی۔
ادھر گاؤں والے مقابلہ دیکھنے کے لئے بے چین تھے،اُدھر پھنے خان اور طرم خان نے بھی مقابلے کے لئے کمر کس لیں۔
پھنے خان نے گھر پہنچتے ہی اپنی ماں سے کہا:”ماں جی!میرے لیے چھ گلاس لسی اور ساتھ چار چھ پراٹھے تو بنا دو۔
آخر مجھے مقابلے کے لئے جان بھی تو بنانی ہے۔“
طرم خان کے گھر کا منظر بھی کچھ مختلف نہ تھا۔ان کی بیگم پراٹھوں پر بالائی ڈال ڈال کر ان سامنے رکھتی جاتیں اور وہ جلدی جلدی سب چٹ کر جاتے اور ساتھ ہی بیوی سے کہتے:”ارے سنتی ہو؟تھوڑی دیر میں مجھے گرم دودھ میں میوے ڈال کر دے دینا اور ہاں دوپہر کے کھانے میں پایوں کے ساتھ ساتھ چھ اُبلے ہوئے انڈے رکھنا مت بھولنا۔

شام میں دونوں سرسوں کے تیل سے اپنے بدن کی مالش کرواتے،اکھاڑے میں ڈنڈ پیلتے،بیٹھکیں لگاتے اور بھاری بھاری وزن اُٹھا کر کسرت کرتے۔یوں ہی ایک ہفتہ گزر گیا۔
مقابلے کے روز کُشتی کے میدان میں گویا میلے کاسا سماں تھا۔اکھاڑے کے اردگرد رنگ برنگی جھنڈیاں لگائی گئی تھیں۔ایک طرف چبوترے پر اسٹیج بنایا گیا تھا،جہاں گاؤں کے معزز لوگ اور قاضی صاحب بیٹھے تھے۔

سرخاب،قاضی صاحب کی کلائی پر بیٹھا تھا۔اس کے پیر ایک ڈوری سے بندھے ہوئے تھے تاکہ وہ اُڑ نہ سکے۔دوسری ہتھیلی میں دانے تھے جو سرخاب وقتاً فوقتاً چُگ رہا تھا۔کچھ لوگ باجے اور ڈھول بھی لائے تھے اور بجا بجا کر خوب شور کر رہے تھے۔باقی لوگ تالیاں بجا کر اپنے جوش و خروش کا اظہار کر رہے تھے۔
سلیم گوالے نے اپنے برابر میں بیٹھے فضلو کمہار سے کہا:”آج تو کانٹے کا مقابلہ ہو گا،مگر طرم خان کے تیور بتا رہے ہیں کہ جیتے گا تو وہی۔

فضلو کمہار نے اپنے کان پر بیٹھی مکھی کو ہاتھ سے اُڑاتے ہوئے سلیم گوالے کی بات سے اختلاف کیا:”بھائی!تم کچھ بھی کہو،سرخاب کو تو پھنے خان ہی اپنے گھر لے کر جائے گا۔میں نے اسے روزانہ صبح پانچ پانچ میل کی دوڑ لگاتے ہوئے اور شام میں تین تین گھنٹے اکھاڑے میں کسرت کرتے ہوئے دیکھا ہے۔وہ بڑی زبردست تیاری کرکے آیا ہے۔“
آخر کُشتی شروع ہونے کا اعلان کیا گیا۔
دونوں حریف آمنے سامنے کھڑے ایک دوسرے کو چِت کرنے کی نیت سے کبھی دائیں جانب گھومتے تو کبھی بائیں۔طرم خان کا چہرہ غصے سے تمتما رہا تھا۔اس نے آنکھیں سیکٹر کر اپنی لمبی لمبی کمان دار مونچھوں کو تاؤ دیا تو پھنے خان نے بھی اپنے چمکتے ہوئے،گنجے سر پر ہاتھ پھیرتے ہوئے دونوں مٹھیاں بھینچ لیں۔دونوں نے مقابلہ شروع ہونے سے پہلے سرخاب پر نظر ڈالی جو بے فکری سے دانے چُگنے میں مصروف تھا۔

مقابلے کے نگران نے سیٹی بجائی تو پھنے خان نے آؤ دیکھا نہ تاؤ،جھٹ طرم خان کی کمر پکڑنے کے لئے آگے بڑھا،مگر یہ کیا!طرم خان تو مچھلی کی طرح ان کے ہاتھوں سے پھسل گیا،کیونکہ طرم خان نے اپنے بدن پر سرسوں کا تیل ملا ہوا تھا تاکہ پھنے خان کی گرفت میں نہ آسکیں ۔اب طرم خان نے پھنے خان کا بایاں بازو پکڑ کر انھیں نیچے گرانے کی کوشش کی،مگر پھنے خان نے اپنی ایک ٹانگ ان کی ٹانگوں میں اَڑا کر انھیں ہی زمین پر گرا دیا۔
طرم خان بل کھا کر فوراً اُٹھ کھڑا ہوا۔دونوں حریف اپنے اپنے داؤ پیچ لڑا رہے تھے۔
اچانک پہاڑیوں کے پیچھے سے ایک بہت بڑا عقاب نمودار ہوا اور ایک ہی جھپٹے میں سرخاب کو پنجوں میں دبا کر لے اُڑا۔یہ سب کچھ ایسے آناً فاناً ہوا کہ کسی کو سنبھلنے کا موقع ہی نہ مل سکا اور قاضی صاحب سمیت تمام تماشائیوں کے منہ کھلے کے کھلے رہ گئے۔
دونوں پہلوان مقابلہ جیتنے کے لئے ایڑی چوٹی کا زور لگا رہے تھے کہ میچ کے نگران نے سیٹی بجاتے ہوئے مقابلہ ختم کرنے کا اعلان کر دیا۔
دونوں نے پہلے تو حیرانی سے نگران کو اور پھر تماشائیوں کو دیکھا جو اپنی اپنی جگہ سے اُٹھ کر میدان سے باہر جا رہے تھے۔پھر جیسے ہی ان کی نظر قاضی صاحب پر پڑی جو منہ اُٹھائے آسمان کی طرف دیکھ رہے تھے۔نگران نے انھیں بتایا کہ جس سرخاب کی خاطر وہ لڑ رہے تھے،اسے تو ایک عقاب اُچک کر لے گیا۔اب تو دونوں کی شکلیں دیکھنے کے قابل تھیں۔پھنے خان تو وہیں اپنا سر پکڑ کر بیٹھ گئے اور طرم خان آنکھوں میں آنسو بھر آئے۔ٹھنڈی آہیں بھرنے لگے۔ان نادانوں کے خیال میں قسمت بنتے بنتے بگڑ گئی تھی۔
دوستو!قسمت تو انہی پر مہربان ہوتی ہے جو فضول کاموں میں وقت ضائع کرنے کے بجائے محنت اور لگن سے اپنا کام کرتے ہیں۔

Browse More Moral Stories