Bazurg Palna - Article No. 2669

Bazurg Palna

بزرگ پالنا - تحریر نمبر 2669

ہر آدمی کے اندر ایک بچہ ہوتا ہے جو کھیلنا چاہتا ہے

یونس بٹ جمعرات 14 مارچ 2024

ڈاکٹر محمد یونس بٹ
جو بندہ ہاتھوں اور پاؤں کا کام زبان سے لینے لگے اسے بزرگ کہتے ہیں۔کہتے ہیں ہر آدمی کے اندر ایک بچہ ہوتا ہے جو کھیلنا چاہتا ہے۔میرا خیال ہے کہ یہ قول کھیلوں کو فروغ دینے کے لئے ہے۔ورنہ ہر آدمی کے اندر ایک بزرگ ہوتا ہے جو اپنی ہر بات کو صحیح سمجھتا ہے اور منوانا چاہتا ہے۔
اگرچہ اصلی بزرگ میں ساری نومولود والی خوبیاں ہوتی ہیں یعنی منہ میں دانت نہ سر پر بال‘خود چل بھی نہیں سکتا۔یہاں تک کہ کسی کے تعاون کے بغیر گر بھی نہیں سکتا۔پھر بھی بچہ پالنا اور بزرگ پالنا بہت مختلف ہیں کیونکہ بچوں کو بزرگ پالتے ہیں اور بزرگوں کو ان کے بچے پالتے ہیں۔
وہ بچے جنہیں عورتیں پالتی ہیں ان بچوں کی نسبت جلد باتیں کرنے لگتے ہیں جنہیں مرد پالتے ہیں۔

(جاری ہے)

اور وہ بزرگ جنہیں عورتیں پالتی ہیں ان بزرگوں کی نسبت جلد چپ ہو جاتے ہیں جنہیں مرد پالتے ہیں۔بچہ جب بولتا ہے تو سب خوش ہوتے ہیں اور بزرگ جب چپ ہوتا ہے تو خوشی ہوتی ہے۔بچے جب تک کہانی نہ سن لیں انہیں نیند نہیں آتی اور بزرگوں کو تب تک نہیں آتی جب تک سنا نہ لیں۔بچہ اس وقت زیادہ کاٹتا ہے جب اس کے دانت نکلتے ہیں‘بزرگ بھی اس وقت زیادہ کاٹنے لگتا ہے جب اس کے دانت نکلتے ہیں۔
بچوں کے چہروں پر گلاب کھلا ہوتا ہے تو بزرگوں کی آنکھوں میں موتیا۔بچوں کی بات نہ مانی جائے تو وہ روتے ہیں‘بزرگوں کی بات نہ مانی جائے تو وہ خود نہیں روتے۔بچے شادی کی بات کریں تو گھر والے خوش ہوتے ہیں‘بزرگ شادی کی بات کریں تو ہمسائے خوش ہوتے ہیں۔
ہمارے ہاں قدرتی وسائل میں سوئی گیس‘کوئلہ‘سنگ مرمر اور بچے ہیں جبکہ قدرتی مسائل میں سیلاب‘آندھی‘زلزلہ اور بزرگ شامل ہیں۔
امیر گھرانوں میں بچوں اور بزرگوں کو بالترتیب ہاسٹل اور ہاسپٹل میں رکھا جاتا ہے۔بچوں کا سب سے بڑا مسئلہ یہ ہے کہ وہ ہمیشہ بچے نہیں رہتے اور بزرگوں کا سب سے بڑا مسئلہ یہ ہے کہ ایک بار بزرگ ہو جائیں تو پھر ہمیشہ بزرگ ہی رہتے ہیں‘بلکہ مزید بزرگ ہوتے جاتے ہیں۔بچوں اور بزرگوں دونوں کو توجہ چاہیے۔آپ بچوں کو ایک ہفتہ توجہ نہ دیں تو وہ آدھے رہ جائیں گے اور بزرگوں کو ایک ہفتہ توجہ نہ دیں تو آپ آدھے رہ جائیں گے۔
بچوں کو اٹھانے کے ایک سو ایک طریقے ہیں‘بزرگ کو اٹھانے کا صرف ایک ہی طریقہ ہے کہ اسے کہیں لیٹے رہو۔کہتے ہیں بچوں کو تو بندہ اٹھائے اٹھائے پھرتا ہے بزرگوں کو نہیں۔حالانکہ یہ غلط ہے بچے تو کسی وقت اتر بھی جاتے ہیں مگر بزرگ تو ہر وقت آپ پر سوار رہتے ہیں۔ان سواروں میں سسر ساس شہ سوار ہیں۔پھر بچے پالتے وقت آپ کبھی بچے نہیں ہوتے مگر بزرگوں کو پالتے پالتے آپ بزرگ ہو جاتے ہیں۔
اگرچہ بچے کو پالنا بھی تو دراصل مستقبل کے بزرگ پالنا ہے۔
ہمارے ہاں جنوں‘بھوتوں اور بزرگوں کا ایک ہی مصرف رہ گیا ہے‘بچوں کو ڈرانا‘بچے ضد کرتے ہیں کہ انہیں وہ دیں جو انہیں پسند ہے۔جبکہ بزرگوں کی ضد یہ ہوتی ہے کہ آپ وہ لیں جو انہیں پسند ہے۔بلکہ میرا بچپن تو اتنا میں نے نہیں گزارا جتنا میرے بزرگوں نے گزارا ہے۔اب بھی ان کی بات نہ سنو تو پریشان کر دیتے ہیں‘سن لوں تو پریشان ہو جاتا ہوں۔

کھانسی بزرگوں کی پسندیدہ ان ڈور گیم ہے‘جس سے وہ بیٹھے بیٹھے ایک منٹ میں پورے جسم کی ورزش کر لیتے ہیں۔”نیا نو دن‘پرانا سو دن“ یعنی بچے کے ساتھ نو دن گزرتے ہیں تو بزرگ کے ساتھ لگتا ہے سو دن گزرے ہیں۔وہ تو پانی بھی یوں پیتے ہیں جیسے کھانا کھا رہے ہوں اور کھانا یوں کھاتے ہیں جیسے پانی پی رہے ہوں۔آنے والا بچہ اور جانے والا بزرگ سب کو اچھا لگتا ہے۔
بزرگ کا پیٹ‘بچے کا منہ‘عورت کی آنکھیں اور خاوند کا دل اکثر بھرا ہوتا ہے۔بزرگ مرد ہو تو وہ دوسری شادی کا سوچتا رہتا ہے‘عورت ہو تو وہ پہلی شادی کا سوچتی رہتی ہے۔کہتے ہیں بزرگ کچھ نہیں کرتے‘حالانکہ اگر بزرگ کچھ نہ کرتے تو آپ دنیا میں کیسے تشریف لاتے․․․․!
کسی عورت نے ایک بار ایڈیسن سے کہا’آپ عظیم ہیں کہ آپ نے دنیا کی پہلی بولنے والی مشین بنائی۔
تو ایڈیسن نے کہا”محترمہ دنیا کی پہلی بولنے والی مشین تو اللہ تعالیٰ نے حضرت آدم علیہ السلام کی پسلی سے بنائی تھی۔البتہ جو مشین میں نے بنائی ہے اسے بند کرنے کے لئے سوئچ ہے“میرے خیال میں بزرگ بولنے والی وہ مشین ہیں جس کے آن آف کے سوئچ ڈھیلے ہو چکے ہوں۔اسی لئے اگر کوئی بزرگ پانچ منٹ تک نصیحت نہ کرے تو اس کی زبان دیکھیں اور اگر دس منٹ تک نصیحت نہ کرے تو نبض دیکھیں۔

بچے پالنا کون سا مشکل کام ہے‘ہر کسی کو اس کا ذاتی تجربہ ہوتا ہے۔کوئی ایسا شخص بچہ پال کر دکھائے جو خود کبھی بچہ نہ رہا ہو تو مانوں!جبکہ بزرگ تو پالتا ہی وہ ہے جو کبھی بزرگ نہیں رہا ہوتا۔
بزرگ پالنا آسان نہیں۔اہل مغرب ہر جانور پال لیتے ہیں مگر بزرگ پالنے کا ان میں بھی حوصلہ نہیں۔وہ کتے بہت شوق سے پالتے ہیں۔بقول میرے دوست ”ف“ کتوں کو گھر میں نہیں پالنا چاہیے انسانوں کے ساتھ رہ کر ان کی عادتیں خراب ہو جاتی ہیں‘وہ مزید کتے ہو جاتے ہیں۔

بزرگ وہ شخص ہوتا ہے جس دن آپ اس کا کہا کام کر کے آئیں تو وہ بھول چکا ہو کہ اس نے کوئی کام کہا تھا اور جس دن آپ اس کا کام نہ کر کے آئیں تو اسے یاد ہو کہ اس نے کام کہا تھا۔”ف“ کے علاوہ میرے تمام جاننے والے اس بات پر قائل ہو گئے ہیں کہ بزرگ پالنا بچوں کا کھیل نہیں۔”ف“ اس لئے قائل نہیں ہوا کہ وہ پہلے سے قائل تھا۔وہ تو کہتا ہے ”میرے بزرگوں نے دنیا میں کئی مسئلے پیدا کیے۔
“حالانکہ یہ زیادتی ہے‘اسے اپنے بھائیوں کو مسئلہ نہیں کہنا چاہیے۔
بچوں کو ملیں تو آپ کو ہر وہ بچہ اچھا لگتا ہے جس سے آپ ملتے ہیں۔مگر جوں جوں آپ بزرگوں سے ملیں آپ کو ہر وہ بزرگ اچھا لگنے لگتا ہے جس سے آپ ابھی نہیں ملے۔بزرگ چاہتے ہیں کہ آپ ان کے پاؤں پر سر رکھیں جبکہ ہم بزرگوں کو دیکھتے ہی سر پر پاؤں رکھ لیتے ہیں۔
کہتے ہیں بزرگ مرنے سے ڈرتے ہیں۔
ہر گز نہیں!وہ تو ہر وقت جہاں موقع ملے کسی نہ کسی پر مرنے کے لئے تیار رہتے ہیں۔بچے جب لباس پہنتے ہیں تو پہننے سے پہلے لباس ان کے قابو میں نہیں آتا اور پہننے کے بعد وہ لباس کے قابو میں نہیں آتے۔جبکہ بزرگ جب لباس پہنتے ہیں تو پہننے سے پہلے لباس ان کے قابو میں ہوتا ہے اور پہننے کے بعد وہ لباس کے قابو میں ہوتے ہیں۔
کہتے ہیں بزرگوں کی صحبت میں رہنے سے انسان بڑا ہوتا رہتا ہے۔
اس کا تو مجھے پتہ نہیں البتہ وہ قمیض جو بزرگ پہنے ہوئے ہیں‘اس کو روز بروز بڑا ہوتے تو میں نے خود دیکھا ہے۔
میں یہ نہیں جانتا کہ مرغی پہلے پیدا ہوئی یا انڈا۔البتہ یہ علم ہے کہ بزرگ دنیا میں پہلے پیدا ہوا اور بچہ بعد میں۔زندگی کی ابتداء کسی بچے سے نہیں‘بزرگ اول حضرت آدم علیہ السلام سے ہوئی۔بچہ تو بہت دیر اور انتظار کے بعد پیدا ہوا۔
بچہ پالنا ایک تفریح ہے جبکہ بزرگ پالنا عبادت ہے۔اگر بزرگ پالنا اتنا آسان ہوتا تو اللہ تعالیٰ اس کام کا معاوضہ جنت نہ رکھتا۔پھر بچوں کو پالنے والی ماں ہوتی ہے اور بزرگ سب یتیم ہوتے ہیں۔یوں بزرگ پالنا یتیم پالنا بھی ہے۔”ف“ کہتا ہے”کاش! بزرگوں کی ماں ہوتی اور وہ بھی سدھر سکتے۔“میں تو کہتا ہوں انسان اشرف المخلوقات ہی بزرگ پالنے کی وجہ سے ہے۔کیونکہ بچے تو ہر جانور پالتا ہے مگر انسان واحد مخلوق ہے جو بزرگ پالتی ہے۔یوں آپ اسی وقت تک اشرف المخلوقات رہیں گے جب تک بزرگ پالتے رہیں گے۔

Browse More Urdu Adab