Ganje Farishte - Article No. 2679

Ganje Farishte

گنجے فرشتے - تحریر نمبر 2679

گنج کی قدر کرنے والے بھی کم نہیں

یونس بٹ بدھ 1 مئی 2024

ڈاکٹر محمد یونس بٹ
ہمیں یہ تو نہیں پتہ منٹو صاحب نے گنجے فرشتے کہاں دیکھے لیکن ہم نے لیڈی ولنگڈن ہسپتال کے لیبر روم میں اپنی ڈیوٹی کے دوران ہر فرشتہ گنجا ہی پیدا ہوتے دیکھا‘ سب نے بعد میں ہی بال نکالے۔لانگ فیلوز نے تو یہاں تک کہا ہے ”جب بچہ پیدا ہوتا ہے تو اس کے بال نہیں ہوتے‘ بوڑھے بھی بے بال ہوتے ہیں۔
“ گویا گود سے گود تک کا فاصلہ ایک ہیئر کٹ اور ایک شیو کا ہے۔ہو سکتا ہے منٹو صاحب نے فرشتوں کو گنجے نہ کہا ہو بلکہ گنجوں کو فرشتہ کہا ہو لیکن وہ آج کے دور میں گنجوں کو فرشتہ کہتے تو لوگ سمجھتے انہوں نے نواز شریف مسلم لیگ جوائن کر لی ہے۔
گنج خزانے کو کہتے ہیں اور فیصل آباد کے دو ”مبینہ“ ڈاکٹروں نے بذریعہ اشتہار یہ ترغیب دی ہے کہ گنجے اپنا سارا وقت گنج بال اگانے میں لگا دیں۔

(جاری ہے)

ان ڈاکٹروں نے سند کے طور پر اپنی تصویریں اشتہار میں دی ہیں جو اتنی اخبار میں چھپی ہوئی نہیں ہیں‘ جتنی بالوں میں چھپی ہوئی ہیں۔ایک ایسا شخص حجام کے پاس گیا تو حجام نے پوچھا ”آپ نے پہلے کہاں سے کٹنگ کرائی؟“ تو وہ شخص بولا ”آپ سے!“ حجام نے کہا ”مگر مجھے تو یہاں آئے صرف دو سال ہوئے ہیں۔“ کٹنگ پر جب اس حجام نے بہت دیر لگا دی تو وہ شخص بولا ”آپ اتنی دیر سے کیا کر رہے ہیں؟“ حجام نے کہا ”بال کاٹنے لگا تھا کہ قینچی آپ کے بالوں میں گر گئی‘ اس وقت سے ڈھونڈ رہا ہوں کیونکہ یہاں بال وبال ہیں۔
“ مغرب میں ایک دور میں ایسے ہپیوں میں سے کوئی کہتا کہ مجھے بالکل نظر نہیں آ رہا تو ساتھی اسے اُٹھا کر آنکھوں کے ڈاکٹر کے پاس لے جانے کی بجائے نائی کے پاس لے جاتے۔
ان ”مبینہ“ ڈاکٹروں کو اشتہار میں شہرہ آفاق سائنسدان لکھا گیا ہے۔اگر عظیم سائنسدان لکھا ہوتا تو ہم سمجھتے عظیم ان کا نام ہے۔بہرحال یہ پڑھ کر خوشی ہوئی کیونکہ اس سے پہلے ہمارے پاس صرف افتخار ایشیا ڈاکٹر فضل الرحمن لاہوری ہی تھے۔
اب یہ شہرہ آفاق فیصل آبادی بھی آ گئے۔مارک ٹوئن سے کسی نے پوچھا ”سب سے بڑا موجد کون سا ہے؟“ تو انہوں نے کہا ”اتفاق‘ کیونکہ بیشتر ایجادات اتفاق سے ہوئیں۔“ سو ان دو ”مبینہ“ ڈاکٹروں نے بھی آپس میں اتفاق کر کے بال اگانے والی دوائی ایجاد کر دی مگر اس کے بارے میں کچھ نہیں بتایا۔ایک ایسے ہی سائنسدان نے ایک مشین ایجاد کی تو کسی نے پوچھا ”یہ کس کام آئے گی؟“
تو سائنسدان نے کہا ”ابھی مجھے اس کا استعمال تو دریافت کرنا ہے۔
“ سو ہو سکتا ہے کہ ان سائنسدانوں نے دوائی کا استعمال پہلے دریافت کر لیا ہو اور دوائی ابھی تک ”ایجاد“ نہ کی ہو لیکن انہوں نے کہا کہ ہمارے ہاں گنجوں کی تعداد میں اضافہ ہو رہا ہے جس سے تو لگتا ہے‘ لوگ ان کی دوائی استعمال بھی کر رہے ہیں کیونکہ گنجے اتنے خودسر ہوتے ہیں کہ جہاں ایسی خبر سنتے ہیں‘ خود اپنا سر آگے کر دیتے ہیں۔اسی لئے تو دعا ہے کہ خدا گنجے کو ناخن نہ دے۔
ویسے بھی فیصل آباد اتنا زرخیز علاقہ ہے کہ پہلے ہی منصوبہ بندی والے بہت پریشان ہیں کہ یہاں ”بال“ بہت ہوتے ہیں۔اب ان سائنسدانوں بلکہ ”دانوں“ نے بھی بالوں کی دوائی کی نوید سنا دی۔
گنجے کا لفظ سن کر ہمارے ذہن میں ہمیشہ مرد کا ہی سر آیا‘ شاید اسی لئے عورتوں کو ”سر“ نہیں کہتے لیکن ان اشتہاری ڈاکٹروں نے اشتہار میں نادیہ نامی کسی خاتون کی تصویر گنجوں میں شامل کر کے خواتین کو بھی برابر کی نمائندگی دے دی جس سے یہ بھی پتہ چلتا ہے کہ ماشاء اللہ اب خواتین بھی کسی شعبے میں مردوں سے پیچھے نہیں۔
اردو ادب میں تو پہلے ہی اس محاورے کی صورت میں ان کی نمائندگی ہے کہ ”گنجی دھوئے گی کیا اور نچوڑے گی کیا؟“ ویسے بھی ہر گنجے کے پیچھے ایک عورت ہوتی ہے جو اس کے ”بالوں“ کی ماں کہلاتی ہے۔ایک صاحب نے دوسرے سے کہا ”تمہارے بال بڑی تیزی سے کم ہو رہے ہیں‘ اس کا کچھ کرتے کیوں نہیں؟“ تو اس نے کہا ”ہاں‘ میں طلاق لینے کے بارے میں سوچ رہا ہوں۔

کسی نے نشہ کرنے والے بھکاری سے پوچھا ”مانگتے کیوں ہو؟“ اس نے کہا ”تاکہ نشہ کر سکوں۔“ پوچھا ”نشہ کیوں کرتے ہو؟“ کہا ”اس لئے کہ مانگتے ہوئے شرم نہ آئے۔“ بالوں کے بغیر تو کرکٹ بھی نہیں کھیلی جا سکتی۔ایک باؤلر بال کروا رہا تھا‘ امپائر ہر بال پر کہتا ”نو بال“ آخر تنگ آ کر گنجے باؤلر نے کہا ”آخری بار سمجھا رہا ہوں‘ اگر تم نے پھر ذاتی اٹیک کیا تو میں تم پر اٹیک کر دوں گا۔
“ عورتوں کو بال اس قدر عزیز ہوتے ہیں کہ وہ تو اپنے بچوں کو بھی کہتی ہے‘ یہ میرے ”بال“ ہیں لیکن گنج کی قدر کرنے والے بھی کم نہیں۔ایران میں تو لوگ شادی کے لئے ”گنجی“ عورتیں ڈھونڈتے ہیں تاکہ مالی حالات سدھر سکیں۔پھر عاشق کا محبوب کو چاند کہنا دراصل اس کے گنج ہی کی تعریف کرنا ہے لیکن ایک بار مشاعرے میں اکٹھے چار گنجے آ گئے تو جوش ملیح آبادی نے جوش میں آ کر کہا ”آپ نے تو ہمارے مشاعرے کو چار چاند لگا دیئے ہیں۔

 ویسے بھی چہرے اور چاند میں یہی قدر مشترک ہو سکتی ہے کہ چہرے پر چاند کی طرح داغ دھبے ہوں ورنہ تو گنج میں ساری چاندی والی خوبیاں ہیں یعنی ویران‘ بے آباد اور چٹیل خطہ‘پھر گنجوں کو یہ بڑا فائدہ ہوا ہے کہ بال کٹوانے پر وقت اور رقم خرچ نہیں ہوتی۔ہر وقت جیب میں پین کی طرح کنگھی لگائے گھومنا نہیں پڑتا۔جب اور جہاں دل چاہا ٹاکی سر پر پھیری اور چمکتے سر کے ساتھ آگے بڑھ گئے۔
پھر ایک کے بال دوسرے کے بالوں سے کم ہی ملتے ہوں گے مگر تمام گنجے ہم سر ہوتے ہیں۔ایسے اشتہارات ان کی بقا کے خلاف ہیں۔سو سب گنجوں کو سر جوڑ کر اس پر سوچنا چاہیے۔ایسا نہ ہو جیسے ایک گنجا کسی ایسے ہی ”سائنسدان“ کے پاس گیا۔”سائنسدان“ نے اس کا سر دیکھ کر کہا ”آپ نے پہلے بھی میری دوائی استعمال کی ہے؟“ تو گنجے نے کہا ”نہیں‘ یہ جو سر پر زخم کا نشان ہے‘ دراصل یہ چوٹ کا ہے۔“

Browse More Urdu Adab