Mahool Lahool - Article No. 2686

Mahool Lahool

ماحول لاحول - تحریر نمبر 2686

چالیس سال قبل بچوں پر کنٹرول کر لیا جاتا تو آج ماحول میں اتنی آلودگی نہ ہوتی

یونس بٹ پیر 10 جون 2024

ڈاکٹر محمد یونس بٹ
فخر امام صاحب نے کہا ہے کہ چالیس سال قبل بچوں پر کنٹرول کر لیا جاتا تو آج ماحول میں اتنی آلودگی نہ ہوتی۔واقعی ہمارے اکثر ارکان اسمبلی اتنے سال قبل ہی پیدا ہوئے۔اگرچہ ہمارا بھی یہی خیال ہے کہ ماحول بہتر بنانے کے لئے بچوں پر کنٹرول ضروری ہے۔ان پر کنٹرول نہ کیا جائے تو بگڑ جاتے ہیں اور بگاڑ پیدا کرتے ہیں۔
بچے پیدا ہونے کے تو وہ خلاف ہو جو خود بچہ پیدا نہ ہوا ہو۔ڈاکٹر شفیق الرحمن لکھتے ہیں کہ آخری بچہ لاڈ پیار سے اکثر بگڑ جاتا ہے اور گھر کا ماحول خراب کرتا ہے۔اس لئے ماحول کو بہتر بنانے کے لئے آخری بچہ نہیں ہونا چاہیے۔
صاحب! محکمہ منصوبہ بندی تو ہمارے کلچر سے ہی لگا نہیں کھاتا۔

(جاری ہے)

ہم نے تو کبھی کسی اور معاملے میں منصوبہ بندی نہیں کی یہ تو پھر اللہ کا معاملہ ہے۔

ہمارے ہاں تو محاورہ ہے‘ ایک اور ایک گیارہ جو کھلم کھلا محکمہ منصوبہ بندی کا مذاق ہے۔یہ ہونا چاہیے تھا‘ ایک اور ایک زیادہ سے زیادہ چار۔اس کے باوجود ہمارے ہاں اس محکمہ کا اتنا کام ہے کہ کسی طالب علم سے مستقبل کی ”منصوبہ بندی“ کا پوچھ لو تو شرما کر کہے گا میری تو ابھی شادی ہی نہیں ہوئی۔ہمارے ہاں ایک رکن اسمبلی نے ایک بار اسمبلی میں خاندانی منصوبہ بندی کی حمایت میں بڑی ہی شاندار تقریر کی۔
جب اجلاس ختم ہوا تو اس کے گرد مبارکباد دینے والوں کا ہجوم تھا جو اس کے ہاں تین جڑواں بچے پیدا ہونے کی مبارکباد دے رہے تھے۔مغرب میں تو جس کے دو سے زیادہ بچے ہوں‘ اسے معزز نہیں سمجھا جاتا۔دو سے زیادہ والدین ہو سکتے ہیں۔وہاں تو مرد بھی منصوبہ بندی کے لئے آپریشن کرا لیتے ہیں۔ایک برطانوی سینٹر نے کہا ”میں نے منصوبہ بندی کے لئے اپنا آپریشن بہت پہلے کرا لیا تھا مگر میں نے یہ بات اپنی بیوی کو اس وقت تک نہ بتائی جب تک ہمارے دو بچے نہ ہو گئے۔
“اس کے باوجود وہاں پاکستان کی نسبت زیادہ تیزی سے بچے پیدا ہوتے ہیں۔ایک مغربی ڈاکٹر نے اس پر تبصرہ کرتے ہوئے کہا ”ہاں ہمارے ہاں شادی کے بعد پہلا بچہ کبھی کبھی چار پانچ ماہ بعد پیدا ہوتا ہے۔اس کے بعد ایسا نہیں ہوتا۔“پاکستانی کھلاڑی عمران خان نے کہا ”شادیوں پر پابندی لگائی جائے تاکہ کم بچے پیدا ہوں۔“ امریکی کھلاڑی نے کہا ”غیر شادی شدوں پر پابندی لگائی جائے تاکہ کم بچے پیدا ہوں۔
“لیکن جنوبی فلپائن نے کمال کر دیا۔وہاں محکمہ منصوبہ بندی کی کھلی خلاف ورزی کرتے ہوئے مردوں نے بچے پیدا کرنے شروع کر دیئے ہیں۔سنا ہے یہ سب میٹرنٹی لیو حاصل کرنے کے لئے کیا جا رہا ہے۔
مغربی پریس ماحول کا جو نقشہ کھینچتا ہے‘ اس سے ہول آتا ہے بلکہ ماحول پر لاحول بھیجنے کو دل چاہتا ہے۔ہمیں تو یہ ماحول اتنا خراب لگتا ہے کہ اس ماحول میں ویسے ہی بچے پیدا نہیں کرنے چاہیں۔
اگرچہ ہمارے ہاں بھی ماحول ٹھیک رکھنے کے لئے ہر کوئی اپنی سی کوشش کرتا رہتا ہے۔پچھلے دنوں ہم نے اپنے ایک دوست سے پوچھا ”تمہارے ساتھ اس دن جو خوبصورت خاتون تھی‘ وہ کون تھی؟“ بولا”وعدہ کرو یہ بات تم میری بیوی کے سامنے نہیں کہو گے تاکہ گھر کا ماحول خراب نہ ہو۔“ ہم نے وعدہ کیا تو بولے ”وہ میری بیوی ہی تھی۔“ ہمارے ایک جاننے والے گھریلو ماحول سے آلودگی ختم کرتے ہیں یعنی میرج کونسلنگ کرتے ہیں۔
گزشتہ دنوں انہوں نے میرج کونسلنگ کا اشتہار دیا اور ساتھ تجربہ پچیس سال لکھا۔جی ہاں ان کی شادی ہوئے پچیس سال ہو گئے ہیں۔
جہاں تک ماحول بہتر بنانے کے لئے آبادی پر کنٹرول کرنا ہے تو ہمارے کئی اراکین اسمبلی ایسے ہیں جو کسی بھی آبادی پر ایک منٹ میں کنٹرول کر سکتے ہیں۔ویسے بھی مغرب نے جب ابھی آبادی کے مسئلے پر سوچنا بھی شروع نہیں کیا تھا‘ ہمارے حکیم تب بھی آ․․․․بادی کی بجائے‘جا․․․․․․․بادی کا اہتمام کیا کرتے تھے مگر اس کے باوجود دنیا نے پاکستان کو Pollution Paradise قرار دے دیا ہے۔
سیاستدان اس پر شاید اس لئے مطمئن ہیں کہ Pollution اسٹارٹ ہی Poll سے ہوتی ہے۔پھر دنیا میں ”زمین بچاؤ“ تحریک تو اب چلی ہے۔ہمارے جاگیردار اور وڈیرے سیاستدان توازل سے ”زمین بچاؤ“ میں لگے ہوئے ہیں۔
غلام مصطفی جتوئی صاحب سے ہم نے پوچھا ”زمین کے تحفظ کی جو تحریک چلی ہے‘ اس میں آپ کا کردار کیا ہے؟“ فرمایا ”میرا کوئی کردار نہیں۔“ ہم نے کہا ”وہ پتا ہے مگر ہم زمین کے تحفظ کی تحریک کے حوالے سے پوچھ رہے ہیں؟“ بولے ”ہم تو زمین کے تحفظ کے لئے جانیں قربان کر دیتے ہیں۔
“مغربی پریس شور مچا رہا ہے کہ اگر ہم نے دنیا کے ماحول کو آلودگی سے بچانے کے لئے کچھ نہ کیا تو پچاس ساٹھ سال کے بعد پانی پینے کے قابل اور ہوا سانس لینے کے قابل نہ رہے گی۔شاید اسی لئے ہم لوگ کچھ نہیں کرتے۔ہم تو گاتے ہیں ”چاند میری زمین“ اگر یہی حال رہا تو ایک دن ہماری زمین واقعی چاند بن جائے گی یعنی یہاں پینے کو پانی ہو گا نہ سانس لینے کے لئے آکسیجن۔

Browse More Urdu Adab