Halwe Par Pabandi - Article No. 2676

Halwe Par Pabandi

حلوے پر پابندی - تحریر نمبر 2676

میٹھا کھانے سے مرد موٹے ہو جاتے ہیں۔عورتیں اس لئے موٹی نہیں ہوتیں کہ وہ پہلے ہی موٹی ہوتی ہیں بلکہ کہتے ہیں کہ جو عورت کبھی موٹی نہیں رہی‘ وہ کبھی عورت ہی نہیں رہی۔

یونس بٹ منگل 9 اپریل 2024

ڈاکٹر محمد یونس بٹ
اگرچہ حلوے پر پابندی تو ہمارے مولوی حضرات کے ہاں بھی ہے مگر یہ کھانے کی پابندی ہے لیکن صدام حسین نے عراق میں حلوہ کھانے پر پابندی لگا دی ہے۔ہمیں یاد ہے بھٹو صاحب کو الٹانے میں حلوے نے بڑا اہم رول ادا کیا تھا۔سو ہو سکتا ہے صدام حسین نے اپنی حکومت بچانے کے لئے حلوے پر پابندی لگانے کا سوچا ہو۔
حلوہ کیا ہے؟ یہ وہ حل ہے جو پہلے ”حل“ بعد میں ”وہ“ ہوتا ہے۔یہ چینی‘ سوجی اور گھی کو اس طرح ملانے سے وجود میں آتا ہے جیسے نوابزادہ نصراللہ خان صاحب پارٹیوں کو ملانے سے ”اتحاد“ بناتے ہیں۔جس طرح تربوز وہ پھل ہے جسے بندہ کھا بھی سکتا ہے‘ پی بی سکتا ہے۔یہی نہیں اس سے ہاتھ منہ بھی دھو سکتا ہے۔

(جاری ہے)

ایسے ہی حلوہ وہ مٹھائی ہے جو ہمارے ہاں کھانے اور تحریک چلانے کے کام آتی ہے۔

یہی نہیں بڑے بڑے گلے باز اس سے غرارے کرتے ہیں۔غرارے ہمیں بھی بھلے لگتے ہیں‘بشرطیکہ کپڑے کے ہوں۔کہتے ہیں مُلا کا پیٹ مرغوں کا مقبرہ ہوتا ہے لیکن صاحب ہم تو اتنا جانتے ہیں حلوے کی سب سے بڑی پلیٹ مُلا اور پنڈت کا پیٹ ہوتا ہے۔بہرحال ہمیں تو حلوے میں یہی خوبی نظر آتی ہے کہ یہ میٹھا ہوتا ہے اور میٹھا ہمیں اس قدر پسند ہے کہ ہمیں تو رنگ بھی میٹھا ہی پسند ہے لیکن جیسے ایک پرانی جپسی کک بک میں آملیٹ بنانے کی ترکیب یوں لکھی ہے ”پہلے دو انڈے چرائیں“ تو آج کل عراق میں چینی اتنی نایاب ہے کہ وہاں حلوہ پکانے کی ہی ترکیب ہے۔
وہاں چینی کی جو قسم آج کل ملتی ہے‘ وہ نکتہ چینی ہے۔ویسے ہم چینی کو صرف کھانے والی چیز ہی سمجھتے ہیں لیکن ہمارے ایک دوست نے چینی سے شادی کر کے اس کے نئے استعمالات سے آگاہ کیا۔ہو سکتا ہے صدام حسین نے حلوے پر اس لئے پابندی لگائی ہو کہ چینی نہ خریدیں۔حالانکہ انہیں کون بتائے گا کہ لوگ کتاب‘ فلم اور مشروب بھی وہی ڈھونڈتے ہیں جس پر پابندی ہو۔
سو پابندی لگانے سے تو اس کی خرید و فروخت بڑھے گی۔
میٹھا کھانے سے مرد موٹے ہو جاتے ہیں۔عورتیں اس لئے موٹی نہیں ہوتیں کہ وہ پہلے ہی موٹی ہوتی ہیں بلکہ کہتے ہیں کہ جو عورت کبھی موٹی نہیں رہی‘ وہ کبھی عورت ہی نہیں رہی۔عورتیں اس وقت کھاتی ہیں جب وہ بولتی ہیں اور مرد اس وقت بولتے ہیں جب وہ کھاتے ہیں۔ایک زمانہ تھا عراق میں ہر طرف موٹاپا پھیلا ہوا تھا۔
پنڈتوں کے تو حلوہ کھا کھا کے ہر ماہ کپڑے تنگ ہو جاتے اور یوں انہوں نے تنگ آ کر کپڑے پہننے ہی کم کر دیئے۔ہو سکتا ہے کہ صدام حسین نے اہل عراق کو سمارٹ بنانے کے لئے حلوے پر پابندی لگائی ہو۔ہم تو سمجھتے ہیں موٹاپے سے بچنے کے دو ہی طریقے ہیں۔ایک تو یہ ہے کہ وہ مٹھائی کھاؤ جو میٹھی نہ ہو اور دوسرا یہ کہ اپنے پیسوں کی کھاؤ۔خود بل دینے سے وزن بڑھتا نہیں کم ہوتا ہے۔
ویسے بھی عراق میں میٹھا اس قدر کم ہے کہ وہاں میٹھی باتیں تک سننے کو نہیں ملتیں۔اگر کسی عراقی کو شوگر بھی وہ جائے تو امریکہ شور مچا دیتا ہے کہ عراقی شوگر میں خود کفیل ہو گئے ہیں۔صحت کے معاملے میں ان کی یہ حالت ہے کہ دو کرد ڈھانچے آپس میں باتیں کر رہے تھے۔ایک نے کہا ”میں جنگ کے دنوں میں ایک کھائی میں بھوکا پیاسا رہنے کی وجہ سے مرا۔تم کیسے مرے؟“ تو دوسرا احتجاجی لہجے میں بولا ”میں تو ابھی زندہ ہوں۔

حلوے کو ہمارے ہاں بڑا نمک مرچ لگا کر پیش کیا جاتا ہے۔حالانکہ حلوہ تو وہ سویٹ ڈش ہے جسے مولوی چمچ سے نہیں کھاتے‘ شوق سے کھاتے ہیں۔کہتے ہیں ایک بار مولانا کوثر نیازی نے کسی سے پوچھا ”حلوہ ہے؟“ مگر حلوہ یوں حلق سے ادا کیا کہ سننے والے نے کہا ”ہے تو سہی مگر اتنا نہیں۔“ بہرحال ہم تو اس پابندی کو بھی حلوہ ہی سمجھتے ہیں مگر ڈر بھی ہے کیونکہ انسان کا کائنات میں پہلا گناہ کھانے سے متعلق ہی تھا۔بہرحال یہ پتہ چلا ہے کہ یہ پابندی صرف تین سالوں کے لئے ہے۔ہم نے پوچھا ”اس کے بعد کیا ہو گا؟“ کہا ”اس کے بعد لوگ عادی ہو جائیں گے۔“

Browse More Urdu Adab