Naqal Mandi - Article No. 2677

Naqal Mandi

نقل مندی - تحریر نمبر 2677

نقل کے لئے عقل چاہیے حالانکہ اب تو عقل کی بھی نقل دستیاب ہے

یونس بٹ بدھ 17 اپریل 2024

ڈاکٹر محمد یونس بٹ
کہتے ہیں نقل کے لئے عقل چاہیے حالانکہ اب تو عقل کی بھی نقل دستیاب ہے۔یوں عقل مندی اب نقل مندی ہو کر رہ گئی ہے۔مارکیٹ میں آپ کو ہر چیز کی نقل مل جائے گی۔اب تو وزیر تک نقلی ملنے لگے ہیں۔چند روز قبل حسنات نامی ایک شخص انار کلی لاہور کے سر رشتہ تعلیم کے ڈائریکٹوریٹ میں آیا اور خود کو وزیر ظاہر کر کے محکمہ تعلیم کے افسروں سے فراڈ کرنا چاہا‘ لیکن انہوں نے بھی نقلی وزیر کو مہمان خصوصی کے طور پر بلا کر پودا لگوانے کے بہانے پکڑوا دیا۔
اگرچہ خبر سے لگتا ہے کہ یہ سب محکمہ شجرکاری کی مہم کو سبوتاژ کرنے کے لئے کیا گیا ہے کہ اب تو ہم جیسا شخص بھی پودا لگاتا ہوا ڈرے گا کہ کہیں وزیر سمجھ کر دھر نہ لیا جاؤں۔

(جاری ہے)

ویسے تو ہم بھی ایک ممبر کے اختلاف سے وزیر بننے سے رہے ہیں۔ہوا یوں کہ جب ہمارا نام رکھا جانے لگا تو ایک رشتہ دار نے کہا ”وزیر“ نام ٹھیک رہے گا‘ مگر گھر کے ایک ممبر نے اختلاف کیا کہ وزیر زنانہ نام ہے۔

ہمارے ایک ادیب دوست نے تو اس زنانہ نام کا بڑا سکوپ بتایا ہے کہ اگر کسی کا نام وزیر بی بی ہو اور اس کی شادی کسی اعظم نامی شخص سے ہو جائے تو وہ گھر بیٹھے وزیر اعظم کہلا سکتی ہے‘ بلکہ اب تو لگتا ہے پاکستان میں خواتین اسی طرح وزیر اعظم بن سکیں گی۔
وزیر وہ ہوتا ہے جو وہ نہیں کرتا جو اسے کرنا ہوتا ہے اور وہ کرتا ہے جو اسے نہیں کرنا ہوتا۔
ہمارے ہاں اسمبلی میں ہر تیسرا رکن وزیر ہے‘ ہر پہلا رکن وزیر تھا اور ہر دوسرا رکن وزیر ہو گا۔اتنے وزیر ہیں کہ بچے ان پر گنتی سیکھ سکتے ہیں۔ایسے ہی ایک اخبار کے ایڈیٹر نے بہت زیادہ رپورٹر رکھے ہوئے تھے۔اسے پتا چلا کہ شہر کی سب سے بڑی سڑک کے عین درمیان بجلی کے ننگے تار پڑے ہیں تو اس نے فوراً دو رپورٹر بھیجے‘ ایک کو کہا ”تم جا کر تار کو ہاتھ لگانا“ اور دوسرے سے کہا ”تم اس کی سٹوری لکھنا“ اگرچہ اتنا تو ہمیں نہیں پتا کہ ان وزیروں سے اصل کیا کام لیا جائے گا‘ اتنا پتا ہے کہ ایک نئے وزیر اپنے دفتر گئے اور سٹاف کے ایک بندے سے پوچھا ”تمہیں پتا ہے کہ میں کون ہوں؟“ تو اس نے کہا ”سر! آپ تشریف رکھیں‘ میں ابھی پتا کر کے آپ کو مطلع کرتا ہوں۔

ایکسل ہوف نے کہا ہے کہ اگر آپ سو فیصد ذمہ داری دو آدمیوں میں برابر برابر تقسیم کریں تو ہر کسی کے حصے میں دس فیصد آتی ہے۔یہی نہیں ہمارے دو ادیبوں نے مل کر ایک کتاب لکھی اور اس کی تقریب پر ایک نے کہا ”اگر دوسرا کتاب لکھنے میں میری مدد نہ کرتا تو یہ کتاب اس سے آدھے وقت میں لکھی جا سکتی تھی۔“ بہرحال وزیروں کے زیادہ ہونے سے کئی ملین ماہانہ کا خرچہ ہی نہیں بڑھا‘ ہمیں یہ مسئلہ بھی آن پڑا ہے کہ یہ کیسے پتا چلے گا کہ جو وزیر ہمیں مل رہا ہے وہ اصلی ہے نقلی نہیں۔
ویسے تو جو ہمیں مل رہا ہے وہ نقلی ہی ہو سکتا ہے۔کہتے ہیں یہ پتا کرنا ہو کہ دوسرا جھوٹ بول رہا ہے یا سچ‘ تو اس کا آسان طریقہ یہ ہے کہ اس سے پوچھو ”آپ جھوٹ بولتے ہیں؟“ اگر وہ کہے ”ہاں“ تو بات واضح ہے اور اگر وہ کہے ”نہیں“ تو وہ جھوٹ بول رہا ہے۔ایک دور میں برطانیہ میں یہ پتا کرنے کے لئے کہ یہ عورت جادوگرنی ہے یا نہیں‘ اسے باندھ کر دریا میں پھینک دیتے۔
اگر وہ ڈوب جاتی تو اس کا مطلب ہوتا کہ وہ جادوگرنی نہیں تھی اور اگر وہ بچ جاتی تو اسے جادوگرنی مان لیا جاتا اور ان دنوں جادوگرنی کی سزا موت تھی جو اسے ملتی۔دور کیا جانا ہے بلوچستان میں اکبر بگتی کے قبیلے میں یہ پتا کرنے کے لئے کہ یہ اصلی مجرم ہے یا نہیں‘ اسے دو فٹ گہری ایک فٹ چوڑی دہکتے کوئلوں سے بھری کھائی میں ننگے پاؤں سات قدم چلایا جاتا ہے‘ پھر بکری کے خون سے اس کے پاؤں دھو کر دیکھا جاتا ہے۔
اگر اس کے پاؤں جلے ہیں تو وہ قصوروار۔اگر آگ نہیں جلاتی تو قصوروار آگ دہکانے والا ہوتا ہے۔
کہتے ہیں ہٹلر نے اپنی کئی نقلیں تیار کر رکھی تھیں یعنی ہوبہو ہٹلر سے ملتے جلتے ہم شکل افراد اکٹھے کر رکھے تھے۔ایک جرمن آفیسر کو پتا نہیں چل رہا تھا کہ وہ اصل ہٹلر سے ہم کلام ہے یا نقلی سے‘ تو اس نے کہا ”سر! آج میں نے ایک ہزار یہودی قتل کیے۔
“ تو ہٹلر نے بے ساختہ کہا ”شاباش!“ تو جرمن افسر فوراً بولا ”آپ اصلی ہٹلر نہیں ہیں کیونکہ صرف ایک ہزار یہودیوں کو قتل کرنے پر ہٹلر شاباش نہیں دے سکتا۔“ ذہنی آزمائش کے امتحان میں طلبہ کو ایک تصویر دی گئی‘ جس میں ایک شخص پولیس کی وردی پہنے چند آدمیوں کے ساتھ کھڑا تھا۔یہ پتا کرنا تھا کہ وہ اصلی پولیس والا ہے یا نقلی۔ایک لڑکے نے تصویر دیکھتے ہی کہا ”یہ نقلی ہے۔
“ ممتحن نے پوچھا ”کیسے؟“ لڑکے نے کہا ”سر اگر یہ اصلی ہوتا تو اس کا ہاتھ کبھی اپنی جیب میں نہ ہوتا۔“ لیکن صاحب‘ ابھی تک ہمیں یہ پتا نہیں چلا کہ اصلی اور نقلی وزیر کا فرق کیسے کریں گے۔ہم نے آئی جے آئی کے ایک نمائندے سے پوچھا تو اس نے کہا ”اصلی وزیر وہ ہو گا جو لوگوں کے کام آئے گا۔“ ایک ایسے ہی اصل وزیر سے مقامی اخبار کے صحافی نے کہا ”سر! آپ گھنٹہ لیٹ ہیں۔“ تو وزیر موصوف نے کہا ”دراصل راستے میں ایک اندھے کو سڑک پار کرانے لگ گیا۔“ صحافی بہت متاثر ہوا اور پوچھا ”لیکن سر! اس میں ایک گھنٹہ کیسے لگ گیا؟“ تو وزیر نے کہا ”گھنٹہ اس طرح لگ گیا کہ وہ اندھا سڑک پار کرنا نہیں چاہتا تھا۔“

Browse More Urdu Adab