Mohtarma University Sahiba - Article No. 2682

Mohtarma University Sahiba

محترمہ یونیورسٹی صاحبہ - تحریر نمبر 2682

پنجاب یونیورسٹی اور اوساکا یونیورسٹی میں وہی فرق ہے جو مرد اور عورت میں ہے

یونس بٹ جمعرات 9 مئی 2024

ڈاکٹر محمد یونس بٹ
لیجئے صاحب! اوساکا یونیورسٹی جاپان کے استاد اور پنجاب یونیورسٹی کے طالب علم سویامانے صاحب نے فرمایا ہے کہ پنجاب یونیورسٹی اور اوساکا یونیورسٹی میں وہی فرق ہے جو مرد اور عورت میں ہے۔ہم نے دونوں یونیورسٹیوں کی تصویریں بڑے غور سے دیکھیں مگر ہمیں وہ فرق نظر نہ آیا جس پر سویامانے نے ان کی جنس کا تعین کیا ہے۔
یہ بھی پتہ نہیں چلا کہ یہ بات انہوں نے اوساکا یونیورسٹی کی تعریف میں کہی ہے یا پنجاب یونیورسٹی کو عورت کہہ کر اس کے ”حسن سلوک“ بلکہ حسن اور سلوک کا ذکر کیا ہے۔چونکہ وہ پنجاب یونیورسٹی میں اردو کے طالب علم ہیں اور ہماری اردو شاعری میں جس کی بھی تعریف کرنا ہو‘ اسے محبوبہ کہتے ہیں۔

(جاری ہے)

سو ہو سکتا ہے اردو شاعری کے زیر اثر انہوں نے پنجاب یونیورسٹی کو نازک اندام اور حسین کہنے کے لئے خاتون کا لفظ استعمال کیا ہو لیکن یہ بات بھی یقین سے نہیں کہی جا سکتی کیونکہ جاپانی تو اپنی محبوبہ کی بھی تعریف کر رہے ہوں تو لگتا ہے کسی مشین کے پرزوں کی افادیت بتا رہے ہیں۔

سو اگر تعریف ہی کرنا مقصود ہوتی تو اسے مشین کہتے۔
جاپان سے ہمارا پہلا تعارف اس وقت ہوا جب ہمارا استاد ہمیں روزانہ آٹھ آنے دے کر کہتا ”جا پان لا“ ہم سمجھتے وہ جاء جہاں سب سے زیادہ پان ہوتے ہیں‘ وہ جاپان ہے لیکن کئی سال تک مولانا شاہ احمد نورانی صاحب نے وہاں کا چکر نہ لگایا تو ہمیں پانوں والی بات جھوٹ لگنے لگی۔پھر ایک جاپانی نے بتایا کہ یہ تو مجمع الجزائر ہے جہاں پانی سے گھرے جزیرے ہیں۔
تب ہمیں پتہ چلا کہ وہ جزیرے جاپانی کیوں ہیں۔
جنگ عظیم دوم میں ہیرو شیما پر گرائے گئے بموں نے شیما کو تباہ کر دیا اور ہیرو بچ گیا۔دوسرے دن رات ایک کرنے کے لئے دن کو رات کرتے رہے اور یہ رات کو دن بنانے میں لگا رہا۔یہی جاپان جب دنیا بلٹ بنانے میں لگی تھی‘ یہ بلٹ ٹرین بنا رہا تھا۔اب تو جاپان کی چیزیں اس قدر دیرپا ہوتی ہیں کہ وہاں کے تو بادشاہ بھی پچاس پچاس سال چلتے ہیں۔
ہر وہ شخص کار رکھ سکتا ہے جس کے پاس کار پارکنگ کی جگہ ہو۔جاپان میں زلزلے اس قدر آتے ہیں کہ سست لوگ تو وہاں چائے میں چینی ڈال کر چمچ سے ہلانے کی بجائے زلزلہ آنے کا انتظار کرنے لگتے ہیں۔وہاں کے پہلوان اس قدر موٹے ہوتے ہیں کہ وہ آ رہے ہوں تو لگتا ہے فیوجی پہاڑ چل رہا ہے۔ایک ایسا پہلوان زلزلے کی وجہ سے گھر سے نکل کر گلی میں آیا تو ہمسائے نے پوچھا ”آپ زلزلے کی وجہ سے باہر آ رہے ہیں یا زلزلہ آپ کے باہر آنے کی وجہ سے آیا ہے؟“ وہ بدھ مت کو پسند کرتے ہیں۔
ہمیں بھی بدھ پسند ہے بشرطیکہ اس دن چھٹی ہو۔
تازہ ترین اور حیرت انگیز سروے رپورٹ کے مطابق جنگ عظیم دوم کے بعد سے جاپانیوں کا اوسط قد بڑھ رہا ہے اور پاکستانیوں کا اوسط قد کم ہو رہا ہے۔ہو سکتا ہے پچاس سال بعد ہم بھی جاپانی لگنے لگیں۔وہ اس قدر پڑھتے ہیں کہ ہر وقت دو کتابیں ان کی بغل میں ہوں گی۔پوچھا ”دو کیوں؟“ کہا ”ایک اس لئے کہ جب پڑھنے کو دل چاہا‘ کھول کر پڑھنے لگے اور دوسری کتاب اس لئے کہ کبھی پڑھنے کو دل نہیں بھی چاہتا“۔
بک تو ہم بھی ساتھ رکھتے ہیں بشرطیکہ اس سے مراد چیک بک ہو۔سویامانے نے بتایا کہ ان کے ہاں تو محبوبہ کو بھی محبوبہ نہیں کہتے۔پوچھا ”کیا اس کے لئے کوئی لفظ نہیں؟“ کہا ” اس کے لئے کوئی وقت نہیں۔“
اس سے تو لگتا ہے انہوں نے یونیورسٹی کو خاتون اس لئے کہا ہے کہ یہ بھی وقت ضائع کرتی ہے۔کسی نے کہا تھا جو کچھ بندہ بیس سالوں میں سیکھتا ہے‘عورت اسے بیس دنوں میں بھلا سکتی ہے۔
یہ بات بھی شاید مسز لارڈ میکالے یعنی محترمہ یونیورسٹی صاحبہ کے لئے کہی گئی ہو کیونکہ یہاں سے جو بھی طالب علم فارغ العلم ہو کر نکلتا ہے‘ وہ بقراط سے کم نہیں ہوتا اور بقراط وہ دانشور ہے جسے اس کے دور کے لوگوں نے کہا کہ آپ کا علم اس دور کے سب عالموں سے زیادہ ہے تو بقراط نے کئی عالموں اور دانشوروں سے ملاقاتوں کے بعد کہا ”واقعی میرا علم ان سب سے زیادہ ہے کیونکہ مجھے یہ تو علم ہے کہ مجھے کچھ علم نہیں جبکہ انہیں تو اس کا بھی علم نہیں۔
“ سو یونیورسٹی سے نکلنے کے بعد بندے کو یہی علم ہوتا ہے۔ایک ایسے طالب علم سے استاد نے کہا ”تمہیں یہ بھی نہیں پتہ کہ علامہ اقبال کب پیدا ہوئے‘ حالانکہ سامنے بورڈ پر 1877ء سیالکوٹ لکھا ہے۔“ تو اس نے کہا ”سر! میں تو سمجھ رہا تھا‘ یہ ان کا فون نمبر ہے۔“
ایک طالب علم جو یونیورسٹی میں داخلے کے لئے دن رات پڑھ رہا تھا‘ وہ یونیورسٹی کے ایک استاد کے گھر گیا کہ میری رہنمائی کریں‘ میں یونیورسٹی جانا چاہتا ہوں تو استاد نے کہا ”یہاں سے 33 نمبر ویگن میں بیٹھ جاؤ‘ سیدھی وہیں جاتی ہے۔
“ ویسے بیروزگاری پھیلانے میں یونیورسٹی بڑا اہم رول ادا کر رہی ہے۔اسے بند کر دیں تو سالانہ ہزاروں بیروزگاروں کی تعداد میں کمی آ جائے گی۔ویسے بھی اب اس محترمہ کو گھر کا خرچہ ملنا بھی بند ہو ہی رہا ہے۔ہو سکتا ہے اسے عنقریب نان نفقے کا دعویٰ دائر کرنا پڑے۔ہسبنڈ اور وائس ہسبنڈ اس کے ساتھ وہی سلوک کر رہے ہیں جو ہمارے ہاں خواتین کے ساتھ ہوتا ہے۔
بہرحال سویامانے کے اس بیان کے بعد الگ زنانہ یونیورسٹی کے مطالبہ میں وزن نہیں رہا۔ہاں البتہ مردانہ یونیورسٹی کی کمی محسوس ہونے لگی ہے۔جاپانی وہاں بھی عقل استعمال کرتے ہیں جہاں ہم ہاتھ استعمال کرتے ہیں۔سو ہو سکتا ہے اس سال گرتے میرٹ کو دیکھ کر سویامانے نے نوجوانوں کی یونیورسٹی میں عدم دلچسپی محسوس کی ہو اور انہوں نے لوگوں کو یونیورسٹی کی طرف متوجہ کرنے کے لئے اسے خاتون قرار دے دیا ہو۔ویسے اگر یہی حال رہا تو ہو سکتا ہے محترمہ خود اپنے بارے میں اشتہار دیں۔
چلے بھی آؤ کہ گلشن کا کاروبار چلے
یاد رہے یہاں گلشن سے مراد کوئی خاتون نہیں ہے۔

Browse More Urdu Adab