Bila Tabsara - Article No. 2683

Bila Tabsara

بِلا تبصرہ - تحریر نمبر 2683

کسی کتاب پر تبصرہ لکھنے سے پہلے بندے کو وہ کتاب نہیں پڑھنا چاہیے کیونکہ اس طرح بندہ غیر جانبدار نہیں رہتا

یونس بٹ بدھ 22 مئی 2024

ڈاکٹر محمد یونس بٹ
ہم تو سمجھتے تھے کہ ادب میں انتخاب کرنا سب سے آسان ہے کہ جس کا ادب کرنے کو دل چاہا‘ اسے انتخاب میں شامل کر لیا۔اگر تحریروں کا انتخاب بھی کرنا پڑے تو کیا مشکل ہے؟ایک بار ایک نوجوان فیض احمد فیض صاحب کے پاس اپنی تین نظمیں لے کر گیا کہ مجھے ریڈیو پر ایک نظم پڑھنا ہے‘ ان تینوں میں سے ایک کا انتخاب کر دیں۔
فیض صاحب نے دو نظمیں سنیں تو کہہ دیا ”تیسری پڑھ لینا۔“ ایسے ہی علی اکبر عباس صاحب نے اپنی کتاب ”درنگاہ“ میں غزلوں اور نظموں کا انتخاب امجد طفیل کی سربراہی میں ایک پانچ رکنی کمیٹی کے سپرد کیا اور جو غزلیں ‘نظمیں کمیٹی کی سمجھ میں آ گئیں‘ وہ رکھ لیں اور باقی کو کتاب میں شامل کر لیا۔

(جاری ہے)

اسی مقصد کے لئے اکادمی ادبیات نے 1990ء کے پاکستانی ادب کے نثری انتخاب کے لئے تین رکنی مجلس مشاورت بنائی اور مرتب کے طور پر رشید احمد صاحب کی ”طویل“ خدمات حاصل کیں۔

انتخاب کا لفظ ایسا ہے کہ اس کے ساتھ لفظ ادبی جچتا ہی نہیں‘ اس کے ساتھ دھاندلی ہی جچتا ہے۔جس انتخاب پر دھاندلی کا الزام نہ لگے‘ لگتا ہے وہ انتخاب ہوا ہی نہیں لیکن اکادمی ادبیات نے اس انتخاب میں ایسے اختلاف کی گنجائش کم کرنے کے لئے اس کی قیمت زیادہ سے زیادہ رکھی ہے تاکہ لوگوں کو اختلاف مہنگا پڑے۔ویسے بھی ادبی کتاب کی جس قدر قیمت زیادہ ہو گی‘ ادب کی اتنی قدر و قیمت بڑھے گی۔

ہمارے ایک دوست نے کہا”آپ اس ادبی انتخاب پر تبصرہ لکھیں۔“ہم نے کہا”مگر ہمیں تو ادب کی سمجھ نہیں۔“کہا”اسی لئے تو کہہ رہا ہوں‘تبصرہ لکھ دو۔“ساتھ ہی یہ شرط بھی لگا دی کہ تبصرہ طویل نہ ہو۔کسی کتاب پر طویل تبصرہ نہ لکھنے کا واحد طریقہ یہ ہے کہ آپ کتاب کو پڑھ لیں لیکن سڈنی سمتھ نے کہا ہے کہ کسی کتاب پر تبصرہ لکھنے سے پہلے بندے کو وہ کتاب نہیں پڑھنا چاہیے کیونکہ اس طرح بندہ غیر جانبدار نہیں رہتا۔
ویسے بھی ہم سے اگر تبصرہ کروانا ہی تھا تو شاعری کے انتخاب پر بنتا تھا ویسے بھی اردو شاعری پر ہمارا یہ احسان ہمیشہ رہے گا کہ ہم نے تمام مواقع ملنے کے باوجود شاعری نہیں‘ نثر کو ہی نثار کیا۔برنارڈشا کو ایک نوجوان نے دعوت دی کہ آپ میرا ڈرامہ دیکھ کر اپنی رائے دیں۔ڈرامے کے دوران برنارڈشا سو گئے تو اس نے ہلا کر کہا”آپ تو سو رہے ہیں‘ آپ کو تو میں نے تبصرے کے لئے کہا تھا۔
“تو برنارڈشا نے کہا’یہ تبصرہ ہی تو ہے۔“سو اس حساب سے تو ہم انتخاب پر تبصرہ کر چکے ہیں کہ جس سے یہ ہمارے ہاتھ لگا ہے‘رات کو اس کے بغیر نیند نہیں آتی۔ہمیں اس کے انتخاب میں جو چیز سب سے اچھی لگی‘ وہ یہ ہے کہ 1990ء میں چھپنے والی کسی ادبی کتاب سے کوئی کہانی‘ مضمون‘ افسانہ اور انشائیہ نہیں لیا گیا کیونکہ جس کی تحریر کوئی رسالہ یا اخبار نہیں چھاپتا‘وہ اٹھ کے کتاب چھاپ لیتا ہے۔
ویسے بھی سڈنی سمتھ نے ٹھیک کہا ہے کہ کتابیں تو گھر کے فرنیچر کا حصہ ہوتی ہیں۔کہتے ہیں کتابیں پڑھنے سے زندگی میں ترتیب آ جاتی ہے‘ حالانکہ ان میں خود ترتیب نہیں ہوتی۔کتابوں میں ڈکشنری واحد کتاب ہے جس میں الفاظ ترتیب سے ہوتے ہیں‘ باقی کتابیں انہی لفظوں کو بے ترتیب کرنے سے ترتیب پاتی ہیں۔پہلے لوگ بوریت سے بچنے کے لئے کتابیں پڑھتے تھے‘ اب لوگ اسی مقصد کے حصول کے لئے نہیں پڑھتے۔
بعض کتابیں تو ایسی ہوتی ہیں کہ انہیں رکھنا ان کو پڑھنے سے کہیں آسان ہوتا ہے۔مغربی ممالک میں کتابیں لکھنے سے رائٹر کے حالات بہتر ہوتے ہیں‘ یہاں بھی بہتری ہوتی ہے جیسے رضیہ بٹ‘ سلمیٰ کنول‘ بشیریٰ رحمن‘اے حمید اور مستنصر حسین تارڑ نے اتنا لکھا ہے کہ سب کی ہینڈ رائٹنگ بہتر ہو گئی ہے۔اس کے علاوہ اس کے انتخاب میں یہ خوبی ہے کہ اسے جلدی میں کیا گیا ہے‘سو زیادہ غلطیاں کرنے کا موقع نہیں مل سکا۔
سنا ہے دو مہینوں میں یہ سب ہوا۔واقعی کمپوزنگ اور پروف ریڈنگ میں تو دو ماہ تو لگ ہی جاتے ہیں۔آپ تبصرے کو بلا تبصرہ سمجھیں کیونکہ ہم نے جو لکھا‘ بڑے نقادوں کی طرح لکھا ہے یعنی بغیر سوچے سمجھے کیونکہ ڈان مار کیوٹس کے بقول ”جب بندہ لکھ رہا ہو تو سوچ نہیں رہا ہوتا کیونکہ ایک وقت میں تو بندہ ایک ہی کام کر سکتا ہے۔“

Browse More Urdu Adab