Shadi Ka Nisab - Article No. 2673

Shadi Ka Nisab

شادی کا نصاب - تحریر نمبر 2673

ہم تو انگریزی کو بحیثیت مضمون مڈل‘میٹرک اور ایف اے کے نصاب میں شامل کرنے کے حق میں نہ تھے۔اب اسے شادی کے نصاب میں شامل کر لیا گیا ہے۔

یونس بٹ جمعرات 28 مارچ 2024

ڈاکٹر محمد یونس بٹ
ہم تو انگریزی کو بحیثیت مضمون مڈل‘میٹرک اور ایف اے کے نصاب میں شامل کرنے کے حق میں نہ تھے۔اب اسے شادی کے نصاب میں شامل کر لیا گیا ہے۔وہ ہتھ چھٹ جو کئی کئی ”پرچوں“ پر نہ گھبراتے تھے‘شادی پر انگریزی کے پرچے سے سہمے نظر آنے لگے ہیں۔ہوا یہ کہ شرقپور شریف کے حاجی عبداللہ صاحب نے اپنی بیٹی کی شادی کے موقع پر عین نکاح سے پہلے شاہ کوٹ سے آنے والی بارات کے دولہا محمد جمیل سے کہا ”انگریزی بول کر سناؤ۔
“اسے ٹینس کرنے کے لئے ٹینس بھی سنے گئے جس سے پتہ چلا کہ ان کی بی اے لڑکی کا ہونے والا خاوند تو ابھی اے بی پر ہی ہے۔سو انگریزی کے پرچے میں ناکامی پر محمد جمیل کو بارات سمیت ناکام لوٹا دیا گیا۔

(جاری ہے)

ہو سکتا ہے محمد جمیل سپلیمنٹری امتحان کی تیاری میں جیت بھی گیا ہو۔
انگریزی ہم پاکستانیوں کو اتنی اچھی لگتی ہے کہ ہم اسے انگریز کی موٴنث ہی سمجھتے ہیں۔

ہم بھی انگریزی پڑھ لیتے ہیں بشرطیکہ وہ اردو میں لکھی ہو۔انگریز اس وقت بولتے ہیں جب ان کے پاس کہنے کو کچھ ہو اور ہم اس وقت چپ ہوتے ہیں‘جب ہمارے پاس کہنے کو کچھ ہو۔ہم تو ہمیشہ انگریزی میں چپ ہوتے ہیں۔میکس پیرہوم وہیکل کے بقول ”جذباتی شاعری کی نقل و حمل کے لئے انگریزی بہترین وہیکل ہے۔“ویسے اس لحاظ سے تو اردو بھی کم نہیں کہ نقل اور حمل اس میں بھی بہت ہوتا ہے لیکن ہم انگریزی کی اس قدر نقل کرتے ہیں کہ ہمارے ہاں تو تعلیمی اداروں میں سب سے زیادہ نقل انگریزی میں ہی ہوتی ہے۔
تاہم ہمیں یہ پتہ نہ تھا کہ اب اس کے بغیر شادی بھی نہ ہو سکے گی۔سب سے پہلے تو ہمیں اس بات پر اعتراض ہے کہ خاوند سے بولنے کا امتحان کیوں لیا گیا؟کیونکہ شادی کے بعد خاوند نے کونسا بولنا ہوتا ہے۔اگر ٹیسٹ ہونا بھی تھا تو سننے کا ہونا چاہیے تھا۔جدید ترین ریسرچ کے مطابق خاوند کی قوت سماعت بیویوں سے کم ہوتی ہے جس کی وجہ ماہرین یہ بتاتے ہیں کہ مسلسل شور اور بلند آوازیں سن کر ان کی قوت سماعت کمزور ہو جاتی ہے۔
ویسے بھی اگر سننے کا مقابلہ ہو تو محمد جمیل صاحب انگریزی بڑی روانی سے سن سکتے ہیں بلکہ سن کر ”سُن“ ہو جاتے ہیں البتہ ہمیں تو شادی اور انگریزی میں یہی قدر مشترک نظر آتی ہے کہ دونوں کی سمجھ بار بار دہرانے سے ہی آتی ہے۔دولہے کے لئے انگریزی جاننا شاید اس لئے ضروری سمجھا گیا ہو کہ اس کی کم از کم تین زبانیں تو ہوں تاکہ وہ لڑکی کے ساتھ گزارا کر سکے۔
لڑکی کے لئے انگریزی یا دوسری زبان جاننا اس لئے ضروری نہیں کہ عورت کے لئے ایک زبان ہی کافی ہوتی ہے۔پھر انگریزی وہ زبان ہے کہ اس میں گالی بھی دی جائے تو پتہ نہیں چلتا‘تعریف کی ہے یا برا بھلا کہا ہے۔مغرب میں کتا اور کتیا معاشرے کے معزز رکن ہیں۔کسی کو انگریزی میں کتا یا کتیا کہنے سے اگر کسی کی عزت کم ہوتی ہے تو وہ یقینا کتا اور کتیا کی ہو سکتی ہے۔
ویسے بھی ہمارے ہاں انگریزی اس قدر استعمال ہوتی ہے کہ پتہ نہیں چلتا‘یہ انگریزی ہے بھی یا نہیں۔ہماری رائے میں تو مبینہ خاوند سے امور خانہ داری کا امتحان لیا جانا چاہئے۔نکاح سے پہلے اس سے مٹر گوشت پکوا کر چکھا جاتے تو بات بنتی تھی۔ایک انگریز مفکر خاتون کہتی ہے”مجھے خانہ داری سے چڑ ہے۔آپ بستر بچھاتے ہیں‘برتن دھوتے ہیں اور چھ ماہ بعد پھر سے بستر بچھانے والے اور برتن دھونے والے ہو چکے ہیں۔
سو میرا تو خاوند کے بغیر گزارا نہیں ہو سکتا۔“یہ بھی کسی خاتون ہی کا قول ہے کہ میں نے برتن صاف کرنے کے لئے ساری چیزیں استعمال کر کے دیکھ لیں مگر خاوند سے بہتر کسی کو نہیں پایا۔سو زبان کے امتحان کی بجائے امور خانہ داری کا امتحان ہونا چاہیے کیونکہ ماہرین کہتے ہیں کہ خاوند اگر انگریزی کا صرف ایک حرف سیکھ لے تو انگریزی بولنے والی بیوی کے ساتھ عمر بھر خوش و خرم رہ سکتا ہے اور وہ لفظ ہے”یس“ (Yes) ہم تحریری امتحان کے بھی خلاف نہیں کیونکہ بندہ چند سالوں کے لئے کہیں ملازم ہوتا ہے تو اس کا تحریری امتحان اور زبانی ٹیسٹ ہوتا ہے۔
پبلک سروس کمیشن پاس کرنا ہوتا ہے۔یہاں تو ساری عمر کا معاملہ ہے۔پھر فائدہ ہو گا کہ خواندگی اور خاوندگی ساتھ ساتھ بڑھے گی۔ویسے تو یہ حال ہے کہ بقول ابن انشاء ”کراچی میں اساتذہ کی بستی میں بھی خواندگی کی شرح 70 فیصد ہے۔”دور کیا جانا لاہور میں صرف 50 فیصد پروفیسر پڑھے لکھے ہیں‘اکثر پری فیسر ہی ہیں۔یاد رہے یہاں پری فیسر سے مراد خاتون پروفیسر نہیں۔ویسے دیکھا جائے تو شادی خود ایک امتحان ہے جس کے نتائج پر کنٹرول کے لئے محکمہ منصوبہ بندی رات دن کام کر رہا ہے۔

Browse More Urdu Adab