Bulhar University - Article No. 2671

Bulhar University

بُلھڑ یونیورسٹی - تحریر نمبر 2671

دنیا کی یہ مختصر ترین یونیورسٹی اقبال عرف بُلھڑ کی کار کی پچھلی سیٹ پر قائم تھی

یونس بٹ ہفتہ 23 مارچ 2024

ڈاکٹر محمد یونس بٹ
پچھلے دنوں پولیس نے ایک ایسی یونیورسٹی کو گرفتار کیا جو ملک سے چالیس میل فی گھنٹہ کی رفتار سے جہالت کم کر رہی تھی۔دنیا کی یہ مختصر ترین یونیورسٹی اقبال عرف بُلھڑ کی کار کی پچھلی سیٹ پر قائم تھی۔ہر قسم کی مہریں‘اسناد‘سرٹیفکیٹ اور دوسری چیزیں موجود تھیں۔یہ یونیورسٹی ہر وقت چلتی رہتی لیکن کار چونکہ پرانی تھی اور بیوی اور کار جب پرانی ہو جائے تو چالیس سے اوپر نہیں جاتی‘ سودہ اسی رفتار سے اسناد تقسیم کرتی۔
کہتے ہیں کہ اقبال عرف بُلھڑ یونیورسٹی کے ساتھ ایک خاتون بھی تھی۔ممکن ہے وہ ایکسٹرا یونیورسٹی ہو یا الگ خواتین کی یونیورسٹی ہو لیکن دونوں اس قدر پاس پاس تھے کہ آپ انہیں بُلھڑ مخلوط یونیورسٹی کہہ سکتے ہیں۔

(جاری ہے)

پہلے اقبال‘اوپن یہ کام کرتا تھا تو اقبال اوپن یونیورسٹی کہلاتا تھا لیکن اب اس نے بُلھر یونیورسٹی بنا لی۔یہ اشیا کی واحد یونیورسٹی تھی جس کا نتیجہ ہمیشہ سو فیصد ہوتا۔

جب سے حکومت نے تعلیم کو سستا کرنے کا منصوبہ بنایا‘ بُلھڑ یونیورسٹی نے بھی رعایتی نرخوں پر ڈگریاں دینا شروع کر دی تھیں۔
حکومت کو چاہیے تو یہ تھا کہ اس نجی یونیورسٹی کی حوصلہ افزائی کرتی لیکن اس نے اسے بذریعہ پولیس سرکاری تحویل میں لے لیا ہے۔تعلیم کے ساتھ ہمارے ہاں یہی ہوتا آیا ہے۔سکندر مرزا کے زمانے میں کابینہ کی تشکیل ہوئی‘ سارے وزیر اپنے محکموں کا چارج لینے سیکرٹریٹ کی طرف بھاگے۔
قدرت اللہ شہاب نے جب فہرست چیک کی تو معلوم ہوا کہ تعلیم کا شعبہ الاٹ ہونے سے رہ گیا ہے۔وہ یہ سکندر مرزا کے نوٹس میں لائے تو انہوں نے حکم دیا”جاؤ جو وزیر ملتا ہے‘اسے لے آؤ تاکہ اسے تعلیم کا اضافی چارج دے دیا جائے۔“شہاب صاحب دوڑے دوڑے گئے‘دیکھا مشرقی پاکستان کے ایک بزرگ وزیر جنہیں دمے کی وجہ سے کھانسی کا دورہ پڑ گیا تھا‘ابھی کار میں سوار ہونے کی کوشش کر رہے تھے۔
انہیں واپس لا کر تعلیم کا شعبہ الاٹ کروا دیا گیا۔تب سے شعبہ تعلیم کھانس رہا ہے۔غلام حیدر وائیں صاب کو بھی کھانسی یہیں سے لگی۔اب ایسے وزیر تعلیم بھی ہیں کہ کسی نے کہا”آپ ماڈل وزیر بن سکتے ہیں؟“بولے”کیسے؟مجھے تو ”پوز“ بنانا نہیں آیا‘ماڈلنگ کیسے کروں گا؟“
کہتے ہیں جب کسی کالج کی انتظامیہ اس میں دلچسپی لینا بند کر دے تو وہ یونیورسٹی کہلاتا ہے۔
ویسے بھی کالج اور یونیورسٹیاں تو اس لئے بنائی گئی ہیں کہ لوگوں کو جہالت کی تلاش میں مارا مارا نہ پھرنا پڑے۔امریکی صدر روز ویلٹ تو یہاں تک کہتا ہے کہ اگر کوئی بندہ کبھی سکول نہیں گیا تو وہ زیادہ سے زیادہ مال گاڑی کی بوگی ہی چرا سکتا ہے لیکن جو یونیورسٹی گیا ہو‘وہ تو پوری ریل کی پٹڑی چرا لے گا۔اسی لئے ہمارے طلبہ یونیورسٹی میں دل لگا کر پڑھنے کے لئے‘ دل لگانے میں لگے رہتے ہیں تاکہ پھر پڑھ سکیں۔
آخر میں تعلیمی اخراجات کی رسیدوں کے طور پر انہیں ڈگریاں اور سندیں دے دی جاتی ہیں۔یوں ہمارے ہاں بیروزگار بننے کے لئے بندے کو یونیورسٹی میں کئی کئی سال انتظار کرنا پڑتا ہے۔یہی کام بُلھڑ یونیورسٹی نے منٹوں میں کرنا شروع کر دیا تھا۔
اقبال عرف بلھڑ خود تو ایسا طالب علم تھا ہی کہ جب سکول میں ماسٹر سوال پوچھتا تو بُلھڑ فوراً اپنا ہاتھ کھڑا کر دیتا اور جب تک وہ ”فارغ“ ہو کر آتا‘سوال کا جواب دیا جا چکا ہوتا۔
لیکن اس نے ایسی یونیورسٹی بنا دی جو اسناد کی ڈیلیوری کے لئے چوبیس گھنٹے کھلی رہتی جس سے لوگوں میں علم کی افادیت کا اس قدر شعور ہوا کہ بُلھڑ یونیورسٹی سے ایم اے اردو کرنے والے ایک صاحب نے کہا”اس سے مجھے اس قدر افاقہ ہوا ہے کہ میں نے سوچا ہے‘اب میٹرک بھی کر ہی لوں۔“ بُلھڑ صاحب اس یونیورسٹی کے طلبہ کو وہ موقع بھی دینے والے تھے جو بُلھڑ صاحب کے باپ کو بھی نہ مل سکا تھا یعنی مرد بھی گورنمنٹ کالج برائے خواتین اور کنیئرڈ کالج سے ایف اے اور بی اے کر سکتے۔
مرحومین کی تعلیم کا تو بُلھڑ یونیورسٹی میں پہلے ہی انتظام تھا۔بڑے بڑے افسر اپنے مرحوم باپوں کو پچھلی تاریخوں میں ایم اے اور ایم ایس سی کروا سکتے تھے۔اب تو یہ امید ہو چلی تھی کہ ڈگریوں کی کلیرنس سیل پر پانچ ڈگریاں اکٹھی خریدنے والے کو جرنلزم کی ڈگری مفت ملا کرے گی۔یہ ایسی نایاب یونیورسٹی تھی کہ یہاں آپ کا بچہ پیدا ہونے سے پہلے ہی ایم اے کر سکتا۔یوں دنیا میں پہلی بار تعلیم یافتہ بچے پیدا ہوتے جو ورلڈ ریکارڈ ہوتا لیکن ہم اپنے ٹیلنٹ کی قدر نہیں کرتے۔بلھڑ یونیورسٹی کو حوالہ پولیس کر دیا گیا ہے۔ویسے ہو سکتا ہے اسے پولیس کے حوالے اس لئے کیا گیا ہو کہ ہمارے ہاں جب تک یونیورسٹی کیمپس میں پولیس نظر نہ آئے‘یونیورسٹی نامکمل سی لگتی ہے۔

Browse More Urdu Adab