Chacha Chakkan Ne Aik Baat Suni - Article No. 2647

Chacha Chakkan Ne Aik Baat Suni

چچا چھکن نے ایک بات سُنی - تحریر نمبر 2647

ہاں پنڈت جی ہم بھی تو سنیں،وہ ریل کا کیا قصہ ہے

ہفتہ 5 مارچ 2022

سید امتیاز علی تاج
جانتا بھی تھا کہ چچا چھکن میں مسلسل دو منٹ کسی کی بات سننے کی تاب نہیں،مین میکھ نکالنا ان کی عادت ہے،بات کاٹے بغیر ان سے رہا نہیں جاتا،لفظ لفظ پر ٹوکتے ہیں۔مگر ہونی شُدنی،ہو گئی حماقت۔رات کو اپنے دوست پنڈت دُرگا پرشاد کو کھانے پر بلا رکھا تھا،کھانے سے فارغ ہونے کے بعد انگیٹھی بیچ میں رکھے گاؤ تکیوں سے ٹیک لگائے مزے سے چاندنی پر نیم دراز تھے،سامنے چلغوزوں کے ڈھیر لگے تھے،کھا بھی رہے تھے،باتیں بھی کرتے جا رہے تھے،سرور سا جما ہوا تھا۔
اطمینان اور بے فکری سے بیٹھے ہوں اور پنڈت جی کا دل بولنے کو چاہ رہا ہو تو یوں سمجھیے پھول جھڑتے ہیں منہ سے،جی چاہتا ہے صحبت جمی رہے۔

(جاری ہے)

اور یوں ہی بیٹھے ان کی باتیں سنا کریں۔جو بات ہو ایسے سلیقے اور شُستگی سے کہتے ہیں اور اپنے اندازِ بیان سے اس میں ایسی جان سی ڈال دیتے ہیں کہ سماں بندھ جاتا ہے۔
پنڈت جی ہمیں اپنے ایک سفر کا واقعہ سنا رہے تھے۔

کہ اُنہوں نے کس طرح ایک اسٹیشن پر گاڑی بدلتے وقت درجے میں آموں کی ایک گٹھڑی رکھی دیکھی اور اسے لاوارث سمجھ کر اپنے اسباب میں شامل کر لیا۔اس کے کچھ آم تو مزے لے لے کر کھائے۔کچھ آموں سے پیدل سڑک کے مسافروں کو نشانہ بناتے رہے۔پھر اس خیال سے ڈر کر کہ کہیں چوری کھل نہ جائے،باقی آم اور نئی دوہر جس میں یہ لپٹے ہوئے تھے چلتی گاڑی میں سے باہر پھینک دی۔
یوں اپنی چوری کے تمام سراغ مٹا کر بڑی تسلی سے سفر کرتے رہے۔لیکن مزہ منزل مقصود پر اپنے گھر پہنچ کر آیا۔پہنچنے کے تھوڑی دیر بعد کیا دیکھتے ہیں کہ گھر کی ماما کسی چیز کو تلاش کرتی ہوئی باہر نکلی اور بولی۔”میاں میں نے ریل میں سوار ہوتے وقت اپنی نئی دوہر جس میں سو قلمی آم بندھے ہوئے تھے،آپ کے درجے میں رکھ دی تھی،وہ اسباب میں نظر نہیں آتی؟“
پنڈت جی نے یہ واقعہ ایسے مزے سے بیان کیا اور آخر میں ایسی مضحکہ انگیز صورت بنا کر اپنی حماقت کا اعتراف کیا کہ ہنسی کے مارے سب کے پیٹ میں بل پڑ گئے۔
ہماری ہنسی کی آواز کہیں چچا چھکن کے کان میں بھی پہنچ گئی دروازہ کھول کر پوچھنے لگے۔”ارے بھئی کیا واقعہ ہوا۔ جو یہ قہقہے اُڑ رہے ہیں؟“
ہم سب کھڑے ہو گئے۔پنڈت جی آداب بجا لائے۔محجوب سے نظر آئے،تو چچا نے ان ہی سے پوچھا۔”ارے بھئی پنڈت!یہ کیا پھلجھڑیاں چھوڑ رہے ہو،کچھ ہمیں بھی تو بتاؤ۔“
پنڈت جی نے شرما کر جواب دیا۔”کچھ نہیں صاحب یوں ہی اِدھر اُدھر کی باتیں ہو رہی تھیں۔

بیٹھے بٹھائے میری جو شامت آئے،کہیں کہہ بیٹھا۔
”پنڈت جی!یہ ریل کا قصہ تو چچا میاں کو بھی سنا دیجئے۔“
چچا چھکن عام طور پر تو جلدی سو جانے کے عادی ہیں لیکن اس وقت تو جیسے اشارے کے منتظر کھڑے تھے۔پنڈت جی ہاں یا نہیں بھی نہ کرنے پائے تھے کہ کواڑ کھول یہ کہتے ہوئے اندر تشریف لے آئے۔”ہاں پنڈت جی ہم بھی تو سنیں،وہ ریل کا کیا قصہ ہے؟“
یہ کہہ کر چچا انگیٹھی کے قریب پھسکڑا مار کر بیٹھ گئے۔
رضائی کو ازسرنو تکلف سے اوڑھا۔کندھوں پر ڈالا۔زانوؤں کے نیچے دبایا۔کنٹوپ پر ہاتھ پھیر کر اسے سر پر ٹھیک جمایا۔ذرا دیر اس کے بند سے شغل کیا۔باندھنا چاہا نہ باندھا۔پھر ذرا ہاتھ سینکے۔پہلو کو جھک کر خاصدان کا جائزہ لیا۔بولے”ہاں پنڈت جی!تو کیا قصہ ہے وہ؟“
پنڈت جی ابھی زبان بھی نہ کھولنے پائے تھے کہ ارشاد ہوا۔”حقہ نہیں پیتے پنڈت جی؟“انہوں نے بامشکل ”جی نہیں“ کہا ہو گا کہ بولے۔
”بھلا حقے کے بغیر بات چیت کا کیا مزہ؟“
زنان خانے کی طرف منہ کر بُندو اور امامی کو آوازیں دینی شروع کر دیں۔
”آؤ یہاں آؤ!سنتے ہو،یہاں آؤ کوئی!ابے نہیں سنا؟کان چور لے گئے کیا؟او بُندو!او امامی!کہاں مر گئے کم بختو!دیکھا،بس سو گئے دونوں کے دونوں۔ان بدمعاشوں کو ایسی سرشام سونے کی عادت پڑی ہے کہ فکر ہی نہیں ہے کسی بات کی۔ابے آتے ہو یا میں آؤں؟لاحول ولا، بھئی بڑے حرام خور ہیں یہ لونڈے قصور سارا تمہاری چچی کا ہے،شام سے روٹی دے دلا کر کم بختوں کو نچنت کر دیتی ہیں۔
خیر،جی تو پنڈت جی کیا تھا وہ قصہ؟مگر کچھ مزہ نہیں بات چیت کا حقے کے بغیر۔ارے بھئی للّو!ذرا تم جا کر حقہ نہیں بھر لاتے؟شاباش شاباش جیتے رہو مگر دیکھنا ذرا تازہ کر لینا حقہ۔سمجھ گئے؟اور سننا توا رکھ کر لانا۔اور بات تو سنو،بڑا عیب ہے تم لوگوں میں کہ آدھی بات سن کر چل پڑتے ہو۔طاق میں سے خمیرہ لے لینا،آج ہی آیا ہے لکھنوٴ سے،پندرہ روپے سیر کے حساب سے۔
کچھ سادہ تمباکو اس میں ملا لینا۔بڑا مہنگا ہو گیا ہے خمیرہ صاحب۔خود اپنے زمانے کی بات کہتا ہوں کہ پانچ روپے سیر کے حساب سے خریدا ہے میں نے۔ایک دُکان تھی لکھنوٴ میں حسینے حسینے کی۔ مگر صاحب واہ واہ!کیا بناتا تھا خمیرہ کش لگاتے ہی ارواح خوش ہو جاتی تھی۔جب لکھنوٴ جاتا اُس کے ہاں سے اکٹھا خرید کر لاتا تھا۔اور اب تو وہ بات ہی نہیں رہی تمباکو میں،کہنے کو تو خمیرہ کہیے یا جو جی چاہے،نرا گوبر ہوتا ہے۔
خیر،تو ہاں وہ قصہ کیا تھا پنڈت جی؟“
پنڈت جی اتنا ہی کہنے پائے تھے۔”اجی قصہ کیا ہوتا۔یوں ہی ایک بات سنا رہا تھا سفر کی۔عرض کیے دیتا ہوں۔“کہ اتنے میں چچا کی نظر چھٹن پر پڑ گئی۔”ارے یہ چھٹن بھی ہے یہاں؟کیسا دبک کر بیٹھا ہے کہ نظر تک نہ آیا مجھے۔ارے سویا نہیں تو اب تک؟صبح اُٹھے گا کیسے؟ملا جی باہر کھڑے چیخا کریں گے اوپر پڑا چارپائی پر کروٹیں لیا کرے گا۔
چل اندر،ہیں اُوں اُوں؟اُوں اُوں کیا معنی۔اب اُوں اُوں کر یا رُوں رُوں۔جا کر سونا ہو گا۔نا صاحب عادت بگڑتی ہے بچے کی،چلو جا کر سوؤ․․․․․جی تو پھر؟میں نے کہا،خاصدان میں پان کا ٹکڑا بھی ہے کوئی؟ذرا تم جا کر نہیں لے آتے ددو؟ساتھ ہی مراد آبادی تمباکو بھی رکھتے لانا۔جی تو پنڈت جی پھر؟غرضیکہ سفر کیا تھا آپ نے،خوب؟“
پنڈت جی بولے۔
”پچھلی گرمیوں مُراد آباد میں ایک عزیز کی شادی تھی۔سواریوں کو وہاں پہنچانے کے لئے میرٹھ سے میں اور میرا چھوٹا بھائی روانہ ہوئے۔ہاپڑ جنکشن پر گاڑی بدلنی تھی۔وہاں جو اُترے․․․․
”کہاں؟“
”میرٹھ سے مراد آباد جاتے ہوئے گاڑی ہاپر جنکشن پر بدلنی پڑتی ہے۔“
”یہ میرٹھ اور مراد آباد کے راستے میں ہاپڑ کہاں سے آ گیا؟“
”صاحب مجھے تو یہی راستہ معلوم ہے۔

”اور جو دوسرا راستہ ہو؟“
”کم از کم نزدیک راستہ تو یہی ہے۔“
”اے لیجئے۔اب دور نزدیک پر آ گئے۔یوں ہی سہی ہماری آدھی عمر بھی ریلوں ہی کا سفر کرتے گزری ہے۔میں آپ کو میل ٹرین کا راستہ بتاتا ہوں۔پھر تو دور نزدیک کا مسئلہ بھی ہو جائے گا حل؟سنیے میرٹھ سے جائیے سہارن پور سمجھ گئے؟اور جناب سہارن پور سے لکسر،لکسر سے نجیب آباد․․․․“
”کلکتہ میل کا راستہ؟“
”اب بیچ میں نہ ٹوکیے۔
پورا راستہ سن لیجیے مجھ سے۔نجیب آباد سے نگینہ۔نگینہ سے دھام پور۔اور جناب دھام پور سے مراد آباد۔آیا سمجھ میں؟یہی گاڑی آگے شاہجہاں پور لکھنوٴ،بنارس کی طرف نکل جاتی ہے۔مگر اس موقع پر اس کے تذکرے سے کیا حاصل؟ہمیں تو صرف مراد آباد کے راستے سے سروکار ہے۔“
پنڈت جی نے کہا۔”جی ہاں یہ راستہ تو میل ٹرین ہی کا ہے مگر دُور کا ہے،میں قریب ترین راستے سے روانہ ہوا تھا۔

چچا نے فرمایا۔”یوں آپ کو ہر راستے سے روانہ ہونے کا اختیار تھا لیکن یہ خیال آپ کا صحیح نہیں کہ ہمارا بتایا ہوا راستہ دور کا ہے۔اور یقین نہ ہو تو ٹائم ٹیبل دیکھ کر اطمینان کر لیجئے۔ٹائم ٹیبل شاید موجود نہ ہو گھر میں۔ورنہ ابھی طے ہو جاتی جات،پر خیر،بالفرض وہ راستہ دُور کا بھی تھا۔ جب بھی یہ غلطی تھی آپ کی کہ سواریوں کو ساتھ لے کر ایسے راستے سے گئے جس میں گاڑی بدلنی پڑتی تھی۔

پنڈت جی دبی زبان سے بولے․․․․”اس راستے بھی سہارن پور پر گاڑی بدلنے کی ضرورت ہوتی۔“
چچا کنٹوپ کے بند باندھنے لگے۔”بدلنے کی ضرورت ہوتی؟یقین ہے؟اچھا؟پھر تو کچھ ایسی غلطی نہیں کی آپ نے؟خیر وہ کسی راستے ہی گئے آپ،اب اس بعداز وقت بحث سے کیا حاصل،آپ بات کہیے نا؟“
پنڈت جی نے کہا۔”تو صاحب اسباب تھا ہمارے ساتھ زیادہ۔“
چچا نے حاشیہ آرائی کی۔
”وہ تو ہونا ہی تھا۔آخر شادی بیاہ میں جا رہے تھے اور پھر ساتھ سواریاں۔کچھ نہ پوچھیے ایسے موقعوں پر یہ عورتیں کیا کچھ سامان ساتھ لے کر نکلتی ہیں۔ٹرنک اور بکس اور گٹھڑیاں اور بستر اور جانے کیا کیا۔اُفوہ میرا تو سوچنے سے بھی دم اُلجھتا ہے۔“
پنڈت جی بولے۔”جی ہاں،تو ہاپڑ میں ہم اتنے اپنے درجے سے اسباب اُتاریں۔ہاپڑ اُترنے والے مسافر اسٹیشن سے باہر چلے گئے۔
جب ہم سارا اسباب اُتار چکے تو کیا دیکھتے ہیں کہ درجے میں اوپر کے تختے پر ایک گٹھڑی رکھی ہوئی ہے جو ہماری نہ تھی۔“
ددو پان لے کر آ گیا،چچا پان کھانے میں مصروف ہو گئے پنڈت جی ان کی توجہ دوسری طرف دیکھ کر رُک گئے تو تقاضا ہوا۔”آپ کہیے جائیے،میں سن رہا ہوں۔“پان کھول کر کتھا چونا دیکھا۔زیادہ تھا۔زیر لب کچھ اس پر تنقید ہوئی۔”اب تک پان لگانے کا سلیقہ بھی نہیں آیا۔
اچھا خاصا پلستر ہے کتھے کا،لاحول ولا۔“کتھا پونچھا پان کھایا۔چھا لیا تمباکو ہتھیلی پر رکھ کر پھنکی لگائی۔پان کلے میں دبایا پنڈت جی کی دلداری کو مسکرا کر فرمایا۔”آپ تو خاموش ہو گئے،پنڈت جی؟“
پنڈت جی بے صبری سے اس عمل کے تمام ہونے کا انتظار کر رہے تھے۔چچا کو متوجہ دیکھ کر پھر شروع ہو گئے۔
”ساری ٹرین خالی ہو چکی تھی چنانچہ یقین تھا کہ اب مالک نہ آئے گا۔
دل میں شوق ہوا کہ گٹھڑی کھول کر دیکھیے تو،اس میں کیا ہے۔میں نے اسے اُٹھا کر کھولا تو کیا دیکھتا ہوں کہ سہارن پور کے نہایت اعلیٰ درجے کے مالدہ آم قریب ایک سو کے رکھے ہیں!“
چچا منہ اُونچا کرکے پیک سنبھالتے ہوئے بولے۔”ارے بھئی ذرا لالدان بلانا۔“پیک تھوکی،باچھیں پونچھیں،بولے:۔
”یہ سہارن پور کے کیسے آم کہے آپ نے؟مالدہ آم!اور سہارن پور کے؟بھلا سہارن پور میں مالدہ آم کہاں سے آیا؟اماں یہ تم پنجاب کی طرف کے اضلاع کے لوگ آموں کی قسموں کے صحیح نام بھی نہیں جانتے؟مالدہ آم ہوتا ہے بڑا سا،پھیکا پھیکا،ریشہ دار،جسے تم لوگ بمبئی کا آم کہتے ہو۔
اور یہ جو سہارن پور کا قلمی آم ہوتا ہے،یہ ہے اصل میں بمبئی کا آم،دونوں میں فرق ہے خیر یہ تو جملہ معترضہ تھا۔آپ اپنا قصہ جاری رکھیے۔“
پنڈت جی بیچارے پر اب تک کچھ اوس سی پڑ گئی تھی۔مگر تقاضا سن کر پھر شروع ہو گئے۔
”اگرچہ وہ بیگانہ مال تھا اور ہمیں کسی طرح اس کا کھانا مناسب نہ تھا،مگر عمر کا تقاضا،تنہائی کا موقع اور نہایت پکے آم،رہا نہ گیا،ہم نے سوچا، اب کون اُنہیں ریل والوں کے سپرد کرتا پھرے اور ریل والے ہی ایسے کہاں کے ایماندار ہیں کہ مالک کو واپس کر دیں گے چنانچہ وہ آم بھی ہم نے اپنے اسباب میں شامل کر لیے۔

اس پر چچا نے ایک دلداری کا قہقہہ لگایا اور بولے۔”غرضیکہ خوب آم ملے کھانے کو۔نہایت دلچسپ واقعہ ہے۔“
پنڈت بیچارہ حیران کہ یہ ادھ بیچ میں داد کیسی!دو تین دفعہ کہنے کی کوشش بھی کی کہ صاحب باقی بات تو سُن لیجیے۔مگر چچا نے مربیانہ انداز میں سر ہلا ہلا کر انہیں بولنے کی مہلت ہی نہ دی کہنے لگے۔”سمجھ گیا،سمجھ گیا،خوب آم اُڑائے پھر۔
نہایت خوب،ہمیں بھی ایک مرتبہ اسی قسم کا واقعہ پیش آیا مراد آباد سے الہٰ آباد جا رہے تھے ہم۔راستے میں پڑا وہ جنکشن،وہ ہے نا،کیا نام ہے اُس کا؟وہ اے توبہ،دیکھو اچھا سا نام ہے،زبان پر پھر رہا ہے،یاد نہیں آتا۔اماں وہ ہے نہیں جنکشن جہاں سے وہ چھوٹی لائن کسی طرف کو جاتی ہے۔تمہیں تو یاد ہو گا للّو!تم ہی تو تھے ہمارے ساتھ۔نہیں کیسے؟واہ!ہم خود تمہیں لے کر گئے تھے ساتھ۔
یاد نہیں،وہ تمہارا آدھا ٹکٹ لے لینے پر ٹکٹ بابو سے قصہ ہو گیا تھا؟اور نہیں تو کیا۔ارے بھئی الہٰ آباد جاتے ہوئے ہی تو۔فیض آباد؟اچھا؟فیض آباد!ٹھیک ہے۔ہاں ٹھیک ہے،تم فیض آباد کے سفر میں ساتھ تھے۔خیر اُس کا اس موقع پر کیا ذکر۔تو وہ صاحب نہ معلوم کیا نام تھا اُس جنکشن کا،خیر وہ کچھ ہی تھا۔نام معلوم ہونا بھی ایسا کیا ضروری ہے،تو وہاں سے ایک لالہ ہمارے درجے میں سوار ہوئے،وہ بھی یوں ہی اپنی ایک کوری ہنڈیا جس میں پیڑے تھے درجے میں چھوڑ گئے تھے۔
وہ بعد میں ہمارے ہاتھ لگی۔تو اس قسم کے دلچسپ واقعات اکثر ریل کے سفر میں پیش آتے رہتے ہیں۔“
چچا نے بات ختم کرکے خاصدان پر توجہ کی۔محفل پر خاموشی طاری ہو گئی،پنڈت بیچارے کی حالت عجیب تھی،فیصلہ نہ کر سکتا تھا کہ بات ختم کرے یا چپ ہو رہے،آخر میں نے ان کی پریشانی رفع کرنے کے لئے کہا۔”تو پنڈت جی بات تو ختم کیجئے۔“
چچا چونک کر بولے۔
”اچھا ابھی باقی ہے بات؟لیجئے ہم تو سمجھے تھے ختم ہو گئی۔تو بھلا آپ نے ادھ بیچ میں کیوں چھوڑ دی؟فرمائیے نا،میں ہمہ تن گوش ہوں۔“
پنڈت جی نے بے بسی کے انداز میں ہم سب کو دیکھا اور پھر شروع ہو گیا۔”اتفاق سے ہم دوسری گاڑی کے جس درجے میں سوار ہوئے، اُس میں اور کوئی مسافر نہ تھا،بے فکری سے آم کھانے شروع کر دیئے۔“
”تراش کر کھائے ہوں گے۔

پنڈت جی نے کہا۔”جی نہیں چُوسے ہی تھے،غالباً چاقو جیب میں موجود نہ تھا۔“
چچا نے زیادہ تعرض نہ کیا۔”خیر خیر،کیا مضائقہ ہے،سفر میں چھوٹی چھوٹی چیزیں ساتھ لے جانی کہاں یاد رہتی ہیں،پر چُوسنے میں مزہ نہیں رہتا قلمی آم کا۔“
پنڈت جی نے ایک واضح وقفے میں انتظار کیا۔کہ شاید چچا کچھ اور بھی فرمائیں۔وہ خاموش رہے تو بات آگے شروع کر دی”دس بارہ ہی آم کھا کر پیٹ بھر گیا،دو چار اور زبردستی کھائے جب دیکھا کہ بس اب اور حلق سے نیچے نہیں اُترتے اور رسید کی ڈکار پر ڈکار آ رہی ہے تو منہ ہاتھ دھو اُٹھ کھڑے ہوئے،پیٹ پر ہاتھ پھیرا اور اللہ کا شکر ادا کیا․․․․․
چچا چھکن نے پھر ایک حاشیہ چڑھایا کہ”بے مانگے ایسی مزیدار نعمت عطا فرمائی۔

پنڈت جی اب ان حاشیہ آرائیوں سے ایسے خائف ہو گئے تھے کہ چچا کی بات ختم ہو جانے کے بعد بھی اُن کی زبان نہ کھلتی تھی۔کچھ تو اُلجھن کی وجہ سے حواس غائب ہو جاتے کچھ یہ اندیشہ ہوتا کہ بات ابھی اور باقی نہ ہو۔کچھ دیر کے توقف کے بعد اُنہوں نے ذرا تیزی سے داستان بیان کرنی شروع کر دی۔
”پیٹ بھرنے پر سوجھی شرارت،ریل کی پٹڑی کے ساتھ ساتھ پیدل مسافروں کی سڑک تھی،اس پر مسافر آ جا رہے تھے،ان پر آموں کی دُہری باڑ مارنی شروع کر دی۔
جس کے نشانہ ٹھیک بیٹھتا۔وہ تو سر پکڑ کر سوچتا رہ جاتا کہ یہ آسمانی گولا کہاں سے آیا،جو دار خالی جاتا اُس کی بدولت مسافروں کو مفت کا آم کھانے کو ہاتھ آتا۔“
”بھئی واہ واہ لے آئے حقہ!بس رکھ دو یہیں پر․․․․تو غرضیکہ پنڈت جی ایک کھیل ہاتھ آ گیا آپ کے ․․․․تازہ کر لیا تھا نہ حقہ؟․․․․جی تو پنڈت جی اور کیا رہ گیا؟․․․․توا نہ رکھ کر لائے؟حالانکہ کہہ بھی دیا تھا میں نے۔
اور خود بھی دیکھ رہے تھے کہ چار آدمی بیٹھے ہیں،محفل جمی ہوئی ہے،باتیں ہو رہی ہیں،بڑے نالائق ہو،خیر آپ بات کے لئے پنڈت جی․․․چلم بجھ گئی۔تو تم ہی کو پھر بھر کر لانی پڑے گی․․․․جی پنڈت جی؟“
پنڈت جی کھسیانے سے ہو گئے تھے۔مگر ہم لوگوں کا لحاظ ایک بار پھر حوصلہ کرنے کی ٹھانی۔”ہماری ان شرارتوں کو ریل کا گارڈ بھی بریک میں کھڑا دیکھ رہا تھا۔
آخر اس سے ضبط نہ ہو سکا۔پائیدان پائیدان چلتا ہوا ہماری گاڑی میں آ پہنچا۔ہم نشانہ تاک رہے تھے کہ یک بیک آ کر ہمیں پکڑ لیا۔“
چچا نے ذرا گردن اُٹھا کر اور آنکھیں جھپکا جھپکا کر اپنے متاثر ہونے کا ثبوت دیا۔”ہئی ہے!“
”گارڈ نے ہم کو ڈانٹنا ڈپٹنا شروع کیا کہ تم پیدل مسافروں کو تکلیف پہنچا رہے ہو۔میں نے مجبوراً یہ بہانہ کیا کہ کچھ آم سڑ گئے تھے،اس لئے ہم انہیں پھینک رہے ہیں ہم نے خیال نہ کیا تھا کہ کوئی مسافر بھی سڑک پر جا رہا ہے۔

چچا نے یکلخت ایسی آواز میں ایک ”واہ واہ“ کی۔جیسے کسی بوتل کا کاگ اچانک کھل گیا ہو۔”سبحان اللہ!کیا بات پیدا کی آپ نے!“
کچھ دیر کو جیسے پنڈت جی کی زبان بند ہو گئی،حیرت کے عالم میں ہمارا منہ تکنے لگے،ہم سب کی یہ کیفیت کہ شرم سے پسینے پسینے ہو رہے ہیں، غصے کی لہریں اُٹھتی ہیں اور ٹھنڈی پڑ پڑ جاتی ہیں۔آنکھوں ہی آنکھوں میں ان سے کہا جس طرح ہو اس داستان کو ختم کیجئے۔
چنانچہ بھرائی ہوئی سی آواز میں پھر داستان شروع کر دی۔بولے”میں نے گارڈ کو اطمینان دلایا کہ اب ایسی حرکت نہ ہو گی چنانچہ وہ ہم پر بگڑ بگڑا کر رخصت ہو گیا۔اب․․․․“
”چلا گیا؟تو یوں کہیے۔رسیدہ بُود بلائے ولے بخیر گزشت۔بعض اوقات تو صاحب یہ لوگ ایسا پریشان کر دیتے ہیں کہ ناک میں دم آ جاتا ہے۔اب دیکھیے،ایک اپنا واقعہ عرض کرتا ہوں۔
سنہ خدا تمہارا بھلا کرے،سنہ کا ذکر ہو گا یا دس کا،یا گیارہ ہی ہو تو عجیب نہیں۔بہرحال کچھ ہی تھا وہ۔اسی زمانے کا واقعہ ہے۔نہ نہ یاد آ گیا ہمیں،10ء ہی کی بات ہے،اُن ہی دنوں بادشاہ ایڈورڈ ہشتم کا انتقال ہوا تھا۔ہم سہارن پور سے مراد آباد جا رہے تھے۔گھر کے لوگ بھی ہمارے ہمراہ تھے،بچوں میں بس یہ للو تھا گود میں،یا شاید ددو بھی،نہ ددو نہیں ہوا تھا پیدا بہرحال، تو بات یہ تھی کہ ہماری خوش دامن کچھ․․․․غرضیکہ بعض عوارض تھے انہیں۔
خطوط کے ذریعے ہمیں معلوم ہو چکا تھا کہ وہ علاج کرانے کے لئے شاہجہاں پور جانے والی ہیں۔ہم نے اُنہیں خط میں لکھ دیا تھا کہ ہم مُراد آباد کا ٹکٹ لے کر روانہ ہوں گے۔اگر اس عرصے میں آپ شاہجہاں پور چلی جائیں،تو ایسا انتظام کرتی جائیے گا کہ ہمیں اسٹیشن پر اس کی اطلاع مل جائے اور اگر آپ رخصت ہو چکی ہوں تو ہم بجائے مراد آباد اُترنے کے اسی گاڑی میں شاہجہاں پور روانہ ہو جائیں،لیجئے جناب ہمارے پہنچتے پہنچتے وہ شاہجہاں پور روانہ ہو گئیں۔
اسٹیشن پر ہمیں اس کی اطلاع ملی،رات کا وقت تھا،سردی کا موسم،ہم نے سوچا کہ اب کون اُتر کر آگے کا ٹکٹ لے،شاہجہاں پور پہنچ کر مراد آباد سے وہاں تک کا کرایہ ادا کر دیں گے،وہاں پہنچے تو ہماری شرافت ملاحظہ فرمایئے۔کہ ریل والوں سے صاف صاف کہہ دیا کہ بھائی لوگوں ہمارا ٹکٹ مراد آباد تک کا تھا،باقی تمہارا جو کچھ ہمارے ذمے نکلتا ہے،اب لے لو۔
لیجیے صاحب وہ تو اکڑ گئے کہیں کہ ہم تو دُگنا کرایہ لیں گے، ہمارا قاعدہ یہی ہے،بہتیرا سمجھایا،لڑے جھگڑے،منت خوشامد کی،مگر بے سود،مجبوراً دُگنا کرایہ ادا کرکے خلاصی ہوئی تو میرا یہ بیان کرنے سے مطلب کیا کہ یہ ریل والے جب ستانے پر تل جائیں تو کوئی کسر اُٹھا نہیں رکھتے۔“
چچا حقہ پینے لگے،محفل پر ایک ناگوار سا سکوت چھا گیا،پنڈت جی کی اب یہ کیفیت گویا کسی نشے سے دماغ سن ہو گیا ہے۔
ہم سب کی عجیب حالت،داستان جاری رکھنے کو کہیں تو قطع کلام کا ڈر،خاموش ہو رہیں تو یہ شرمندگی کہ پنڈت جی کی بات ادھ بیچ میں رہ گئی۔اتنے میں چچا چھکن نے کُہنیاں اُٹھا اُٹھا کر انگڑائیاں اور جمائیاں لینی شروع کر دیں۔اس سے کچھ ڈھارس بندھی کہ چچا اب زیادہ دیر نہ بیٹھیں گے اور بات شاید جلد ختم ہو سکے چنانچہ ہلکے سے کہہ دیا۔”جی پنڈت جی پھر؟‘
چچا نے ایک نئی جمائی لے کر کہا۔
”ختم نہیں ہوئی ابھی بات؟تو پھر کہہ ڈالیے جلدی سے۔اب تو کچھ نیند آ چلی ہمیں کیا وقت ہو گیا ہو گا؟سوا گیارہ!افوہ!دیکھیے تو بات چیت میں وقت کیسے جلدی گزر جاتا ہے۔ہاں تو کیا رہ گیا باقی اب؟“
پنڈت جی کے لئے ایسی حالت میں یہ کہنے کے سوا چارہ نہ تھا۔”ایسی کون سی ضروری بات ہے کہ اسے ختم ہی کیا جائے،نیند آ رہی ہے نواب آپ آرام فرمائیے۔“
چچا چھکن نہ مانے۔
بولے نہ نہ بات ختم کر لیجئے آپ ایسی جلدی نہیں مجھے۔وہ بات یہ ہے کہ جلد سو رہنے اور صبح جلد اُٹھنے کا عادی ہوں۔ تاہم کیا ہوا،آپ شوق سے فرمائیے۔“
پنڈت جی بیچارے کھوئے کھوئے ایک مردہ تبسم سے پھر گویا ہوئے،بات شروع تو تفریح کے لئے کی گئی تھی،پر حالت یہ تھی کہ کوئی باہر سے آتا تو اسے قطعی طور سے یہ معلوم ہوتا کہ پنڈت جی سے کوئی بہت بڑا جرم ہو گیا ہے جس کے لئے یہ غریب چچا چھکن سے معافی مانگ رہا ہے۔

”گارڈ کے جانے کے بعد ہمیں فکر ہوئی کہ اول تو چوری کا مال کھایا اور پھر اس پر یہ شرارت کہ اس کی خبر گارڈ تک پہنچی۔اب اگر کوئی جھگڑا اُٹھا اور باقی آم اور کپڑا ہمارے پاس سے نکلا تو خاصا چوری کا مقدمہ بن جائے گا(چچا چھکن کی جماہی) چنانچہ یہ سوچا کہ جو آم باقی ہیں اُنہیں چپکے سے پھینک دیا جائے تاکہ کوئی سراغ باقی نہ رہے چنانچہ ہم نے آم اور وہ نئی دوہر جس میں وہ بندھے ہوئے تھے،لپیٹ کر گاڑی میں سے باہر پھینک دی۔
(چچا چھکن کی جماہی۔جس کے اخیر میں کچھ اس قسم کا شور تھا جیسے منہ چڑھاتے وقت نکلتا ہے)۔تھوڑی دیر بعد ہمارا سفر ختم ہو گیا اور ہم مراد آباد اُتر کر اپنے گھر پہنچے․․․․“
چچا اُٹھ کھڑے ہوئے۔”بھئی ہمیں تو نیند آ گئی پنڈت جی،قصہ بڑا دلچسپ تھا،مگر بقول آپ کے ایسی کون سی ضروری بات ہے کہ اب اسے ختم ہی کیا جائے۔میں تو معافی چاہتا ہوں،انہیں سنائیے آپ۔

”ذرا سی بات رہ گئی تھی۔“ہم سب نے کہا۔”چچا میاں بس ذرا سی تو بات باقی ہے۔اب سن ہی لیجئے۔“
”نہ بھئی اب تو سوئیں گے ہی ہم۔“
”دو تین ہی تو فقرے ہیں۔“
”بس اب تم ہی سنتے رہو۔“
”ہم تو سن چکے تھے،آپ ہی کو سنا رہے تھے پنڈت جی۔“
”آنکھیں مچی جا رہی ہیں۔“
”ہاں ہاں آرام فرمائیے آپ۔“
”ہاں بس اب لیٹوں گا۔وہ ددو!تم پان اور پانی ہمارے سرہانے رکھ دینا۔
اور للو میاں یہاں سے اُٹھ کر حقہ بھی ہمارے پلنگ کے ساتھ رکھ آنا۔صبح ضرورت ہو گی ہمیں،مگر دیکھنا چلم باہر اُلٹ دینا۔اور للو وہ دوا ہماری رکھنا نہ بھول جانا،اور شاید یہ اُگالدان بھی تو ہمارے ہی کمرے کا ہے یہاں،یہ بھی اپنے ٹھکانے پر پہنچ جائے،سمجھ لیا نا۔“
”چچا میاں اتنی دیر میں تو بات ختم بھی ہو جاتی۔“
چچا اصرار سے کچھ چڑ گئے۔
بولے”ہوتی تو ہو جاتی۔پھر ہم کیا کریں۔بات نہ ہوئی مذاق ہی ہو گیا۔“
مایوس ہو کر مجھے اس کے سوا چارہ نظر نہ آیا کہ پکار پکار کر کہوں،چچا میاں وہ آم کی گٹھڑی اصل میں پنڈت جی ہی کی ملازمہ کی تھی۔گھر جا کر بھید کھلا۔اور پھر یہ دوہرا اور آم پھینکنے پر پچھتائے۔“
”ہماری بلا سے۔“
یہ کہہ کر چچا زور سے دروازہ بند کر اندر چلے گئے۔ایسا معلوم ہوتا تھا ہمارے اصرار سے وہ اور کھچ گئے ہیں۔ان کے جانے کے بعد کمرے میں سناٹا طاری ہو گیا۔پہلی مرتبہ ہمیں احساس ہوا کہ کلاک چل رہا ہے۔

Browse More Urdu Adab