Chalo Chalo Thane Chalo - Article No. 2654

Chalo Chalo Thane Chalo

چلو چلو تھانے چلو - تحریر نمبر 2654

ان کے پاس غیر قانونی اسلحہ ہونا مجھے احساس کمتری میں مبتلا کر گیا کہ مجھے بھی حسب توفیق حکومت اسلحہ فنڈ میں کچھ نہ کچھ جمع کرانا چاہئے لیکن مجھے یقین تھا کہ مرزا صاحب اپنا دیوان ہی جمع کرانے جا رہے ہیں۔یہی ان کا اسلحہ ہے جس کے دم سے محلے میں ان کی دھاک بیٹھی ہوئی ہے

جمعرات 12 جنوری 2023

ڈاکٹر محمد یونس بٹ
صبح مرزا صاحب گھبرائے ہوئے آئے اور بولے ”چلو چلو تھانے چلو“ میں نے پوچھا ”کیوں؟“ فرمایا ”اسلحہ جمع کرانا ہے۔“مرزا صاحب ان لوگوں میں سے ہیں جب دفعہ 144 کے تحت چار سے زیادہ لوگوں کے سڑک پر اجتماع پر پابندی لگی تو سارا دن یہی کہتے:”دفع 144۔“کیونکہ جب بیویوں بچوں کے ساتھ باہر نکلتے تو پولیس پوزیشن سنبھال لیتی۔
سمجھتی جلوس آ رہا ہے۔گھر کی حالت مارک ٹوئن جیسی ہے کہ رات کو کوئی آہٹ ہو تو خود ہی بھونکنا پڑتا ہے۔ایک مرتبہ مرزا صاحب نے چوری سے بچنے کے لئے کتا رکھا مگر وہ چوری ہو گیا۔اب ان کے پاس غیر قانونی اسلحہ ہونا مجھے احساس کمتری میں مبتلا کر گیا کہ مجھے بھی حسب توفیق حکومت اسلحہ فنڈ میں کچھ نہ کچھ جمع کرانا چاہئے لیکن مجھے یقین تھا کہ مرزا صاحب اپنا دیوان ہی جمع کرانے جا رہے ہیں۔

(جاری ہے)

یہی ان کا اسلحہ ہے جس کے دم سے محلے میں ان کی دھاک بیٹھی ہوئی ہے مگر پتہ چلا کہ ان کے پاس کاغذ کاٹنے کی ایک چھری ہے جو چار انچ سے تھوڑی سی بڑی ہے اور وہ اس ڈر میں تھے کہ کہیں پولیس والے پیمانہ لے کر گھر گھر چھریاں ماپنے آ گئے تو کہیں دھر نہ لیا جاؤں اور زمینیں ضبط نہ ہو جائیں حالانکہ جہاں تک مجھے پتہ ہے ان کی اپنی کوئی زمین نہیں وہ خود غالب‘میر‘فیض اور منیر نیازی کی زمینوں سے کام چلاتے ہیں۔

جارج ہربرٹ نے کہا ہے ”ایک تلوار دوسری کو نیام میں رکھتی ہے۔“ویسے بھی پولیس عوام کی پرانی خادم بلکہ خاوند ہے۔عوام انہیں پہچانتی ہیں ہم نے ایک شخص کو سادہ کپڑوں میں دو آدمیوں کی تصویریں دکھائیں اور پوچھا ”بتاؤ ان میں سے پولیس والا کون ہے؟“ تو اس نے منٹ میں بتا دیا۔میں نے پوچھا ”تم نے کیسے پہچانا حالانکہ دوسرا آدمی بھی پولیس والا ہو سکتا ہے۔
“تو اس نے کہا”یہ پولیس والا نہیں ہو سکتا اس نے تو اپنی جیب میں ہاتھ ڈالے ہوئے ہیں۔“شعبہ پولیس تو عوام کی خدمت کے لئے ہے۔ایک دیہاتی پولیس میں بھرتی ہو کر آیا تو اسے ایک چوک میں ”عوام کی خدمت“ پر لگا دیا گیا۔مہینے کے آخر میں اسے تنخواہ دی گئی تو وہ حیران رہ گیا کہ اس کام کی تنخواہ بھی ملتی ہے۔آج کل یہ سب پولیس‘ڈاکوؤں کو بروقت پکڑنے کے لئے کر رہی ہے۔
ایک ایسے ہی بروقت پولیس والے نے قاتل ڈاکو کا ہاتھ کاٹ کر افسر کے سامنے پیش کیا۔تو افسر نے کہا ”مجرم کی گردن کیوں نہیں کاٹی؟“تو سپاہی نے کہا ”وہ میرے جانے سے پہلے کٹی ہوئی تھی۔“پولیس اب ملزموں کو پکڑنے کے لئے جدید طریقے استعمال کر رہی ہے۔جیسے پہلے گھر سے بھاگنے والوں کے لئے اخبار میں اشتہار دیا جاتا تھا کہ اسے پڑھ کر گھر واپس آ جائیں۔
اب مجرموں کے لئے بھی پولیس یوں ہی اشتہار چھپوا رہی ہے۔پولیس اگر اس طرح ترقی کرتی رہی تو پھر ایسے اشتہار بھی چھپیں گے ”اسلام پورہ اور شیخوپورہ کے قاتل 30 جولائی تک اپنے قریبی تھانے میں رپورٹ کریں۔“جب کہیں ڈاکہ پڑے گا اگلے دن ڈاکوؤں کو بذریعہ اشتہار مطلع کیا جائے گا کہ آپ کو فلاں فلاں تھانہ لگتا ہے‘وہاں اس ڈاکے کی تفصیلات بتانے کے لئے حاضر ہوں۔
اگر اس تاریخ تک حاضر نہ ہوئے تو آپ کو غیر حاضر تصور کیا جائے گا۔یہ بھی ہو سکتا ہے کہ مجرموں کو مستقل طور پر بے نقاب کرنے کے لئے پولیس اشتہار دے کہ جلد از جلد تمام نقاب قریبی تھانے میں جمع کرا دیں تاکہ آپ کو بے نقاب کیا جا سکے۔
پولیس ہر کام عوام کی آسانی کے لئے کر رہی ہے۔جیسے‘اگر چھریاں تھانوں میں جمع کرانے سے کوئی مسئلہ پیدا ہو مثلاً عورتوں کو سبزی کاٹنے میں دشواری ہو سکتی ہے تو اس کا آسان حل یہ ہے کہ سبزی لے کر تھانے جائیں قانون کے سامنے بیٹھ کر سبزی کاٹیں اور چھری جمع کرا کے گھر آ جائیں۔
قصاب بھی صبح صبح بکرے لے کر تھانے پہنچ جائیں۔وہیں ذبح کریں‘کھال اتاریں‘یوں بھی وہاں کھال اتارنے میں بڑی آسانی ہوتی ہے۔
انگریزی میں اسلحے کو آرمز کہتے ہیں اور جہاں تک مجھے علم ہے آرمز کا ترجمہ بازو ہے۔پھر ہمارے ہتھیار بھی تو دراصل ہتھ یار ہیں‘سو ہمیں اپنے اپنے بازو اور ہاتھ جمع کرا دینے چاہئیں۔پال جو زو گوبلز کہتا ہے ”ہم مکھن کے بغیر رہ سکتے ہیں مگر ہتھیاروں کے بغیر نہیں۔
“واقعی ہم مکھن سے شادی بیاہ کے موقع پر ہوائی فائرنگ تو نہیں کر سکتے لیکن ہو سکتا ہے بات اور آگے بڑھے‘وہ تمام چیزیں جن سے قتل ہو سکتا ہے‘وہ جمع کرانی پڑیں۔جیسے دوپٹوں سے گلہ دبا کر قتل کیا جا سکتا ہے۔پھر کرسی مار کر بھی جان لی جا سکتی ہے۔ویسے اگر کرسیاں تمام تھانوں میں جمع کر لی جائیں تو کوئی تخریب کاری اور دھماکہ نہ ہو‘کہ فساد کی اصل جڑ ہی کرسی ہے۔دیکھا جائے تو گھر کی ہر چیز سے قتل کیا جا سکتا ہے‘لیکن یہ ممکن نہ تھا کہ سارے گھر کو تھانے میں شفٹ کر دیتے۔یہ تو اچھا ہوا حکومت نے آرڈنینس جاری کرکے تھانوں کو ہی ہمارے گھروں میں شفٹ کر دیا ہے۔یوں پولیس گھروں کو اپنا ہی تھانہ سمجھے گی اور آج تک میں نے کسی تھانے میں چوری ہوتے‘ڈاکہ پڑتے نہیں دیکھا۔

Browse More Urdu Adab