College Canteen - Article No. 2661

College Canteen

کالج کینٹین - تحریر نمبر 2661

عام کینٹین اور کالج کینٹین میں یہ فرق ہے کہ عام کینٹین میں داخل ہو کر ہنستا مسکراتا شخص بھی سنجیدہ ہو جاتا ہے لیکن یہ کالج کینٹین کی خوبی ہے کہ یہاں سنجیدہ سے سنجیدہ شخص کا دل بھی مسکرانے اور قہقہہ لگانے کو چاہتا ہے

یونس بٹ ہفتہ 17 فروری 2024

ڈاکٹر محمد یونس بٹ
ہمارے گاؤں کے قریب آموں کا ایک باغ تھا‘جس پر دور سے آم اور لڑکے لٹکے نظر آتے۔مالی کو دیکھتے ہی لڑکے پکے آموں کی طرح زمین پر گرنے لگتے۔مالی انہیں پکڑنے کے لئے لپکتا لیکن بچپن بڑھاپے کے آنے سے پہلے ہی بہت دور جا چکا ہوتا۔ایک دوپہر میں پیڑ کے میٹھے سائے تلے کھٹے آم کھا رہا تھا کہ مالی کی کڑوی کسیلی گالی سنائی دی۔
مالی کو دیکھ کر میں ایسے ہی سہم گیا جیسے امتحان کی تاریخ سن کر گھبرا جایا کرتا تھا اور گھر کی طرف بھاگنے لگا۔مالی میرے پیچھے پیچھے تھا مگر ہمارے درمیان چالیس برسوں کا فاصلہ تھا۔وہ گالی دینے کے لئے رکتا اور میں تیز ہو جاتا کہ اسے نہ سن سکوں۔میرے پیچھے پکڑے جانے کا خوف اور اس سے بہت پیچھے پکڑنے والا تھا۔

(جاری ہے)

وہ دوڑتے دوڑتے گر پڑتا پھر اٹھتا تاکہ دوبارہ گر سکے۔

یہاں تک کہ میں گلی میں کھیلتے ہوئے بچوں میں گم ہو کر ایک سے کئی میں بٹ گیا۔اتنی دیر میں آم کے پیڑوں پر اور لڑکے نئی کونپلوں کی طرح اگ آئے تھے۔جونہی مالی انہیں پکڑنے کے لئے میری نظروں سے اوجھل ہوا اس کا خوف ہر شخص کے روپ میں چاروں طرف میرا تعاقب کرنے لگا اور اس وقت تک میرا پیچھا نہ چھوڑا جب تک گھر کے دروازے نے بازو پھیلا کر مجھے اپنی گود میں نہ لے لیا۔
گھر میں داخل ہوتے ہی مجھے یہ بات ایسے ہی بھول گئی جیسے بڑے اپنی غلطی بھولتے ہیں۔لیکن امتحان کا ڈر ابو اور بھائی جان کی صورت اس پناہ گاہ میں بھی گھس آتا۔وہ ساری رات اس لئے نہ سوتے کہ کہیں میں نہ سو جاؤں۔
اب میں کالج جاتا ہوں۔سکول میں طلبہ استادوں سے ڈرتے ہیں اور یونیورسٹی میں استاد طلبہ سے ڈرتے ہیں‘مگر کالج میں کسی قسم کا ڈر نہیں ہوتا۔
کالج کا زمانہ یوں ہے جیسے لڑکپن اور بڑھاپے کے درمیان جوانی کا بے فکر خط۔جس دن گھر پر کوئی مصروفیت ہو اس دن کالج نہ جانا حماقت ہے‘اور جس دن کالج میں کوئی مصروفیت نہ ہو اس دن کالج نہ جانا اس سے بڑی حماقت۔لیکن کبھی کبھی یہاں بھی امتحان کا آدم خور خوف و ہراس برپا کر دیتا ہے‘رونقیں اجڑ جاتی ہیں اور ویرانی آ بستی ہے۔اس ہنگامی حالت میں کالج کینٹین وہ مچان ہے جو اس آدم خور کی پہنچ سے دور ہے۔
کالج کینٹین تو ماں کی آغوش کی طرح ہے جہاں غموں اور پریشانیوں کے باوجود سکون ہی سکون ہوتا ہے۔
عام کینٹین اور کالج کینٹین میں یہ فرق ہے کہ عام کینٹین میں داخل ہو کر ہنستا مسکراتا شخص بھی سنجیدہ ہو جاتا ہے لیکن یہ کالج کینٹین کی خوبی ہے کہ یہاں سنجیدہ سے سنجیدہ شخص کا دل بھی مسکرانے اور قہقہہ لگانے کو چاہتا ہے۔
کینٹین کالج کا دل ہے جس طرح جسم کے دور دراز حصوں سے خون دل میں سستانے کے لئے رکتا ہے اور پھر تازہ دم ہو کر نکلتا ہے ایسے ہی تھکے ماندے طلبہ جب کینٹین سے نکلتے ہیں تو ان کی تھکاوٹ ہوا ہو چکی ہوتی ہے۔

کالج کینٹین بہترین تفریح ہے یہاں آپ وہ باتیں بھی کر سکتے ہیں جنہیں کرنے کے لئے رانگ نمبر کا انتظار کرنا پڑتا ہے بلکہ آپ اس موضوع پر کھلے عام گفتگو کر سکتے ہیں جس پر بوڑھے چھپ کر کرتے ہیں۔میرا دوست ”ف“ کہتا ہے ”کالج اچھی جگہ ہے بس یہاں پڑھایا نہ جائے۔“وہ کالج کینٹین کے اس لئے خلاف ہے کہ کینٹین کالج کے اندر نہیں ہونی چاہیے بلکہ کالج ‘کینٹین کے اندر ہونا چاہیے۔

کالج کینٹین کلاس روم کے بہت قریب ہوتی ہے اور کلاس روم کالج کینٹین سے بہت دور ہوتا ہے۔کینٹین کے سامنے لڑکوں کی تعداد سے پتہ چلتا ہے کہ یہ گرلز کینٹین ہے۔ہمارے کالج کی گرلز کینٹین کو وہیں بنایا گیا ہے جہاں سے اللہ تعالیٰ نے عورت کو بنایا یعنی یہ بوائز کینٹین کے دائیں پہلو میں واقع ہے۔اس کے دو دروازے ہیں۔ایک اندر داخل ہونے کے لئے اور دوسرا اس مقصد کے لئے جس کے لئے وہ اندر آتی ہیں۔
ایک کھڑکی ہے جس کے شیشے زنانہ لباس کی طرح ہیں یعنی آر پار دیکھا جا سکتا ہے۔دو صوفے ہیں جن کی حالت دیکھ کر لگتا ہے کہ اگر کسی اچھی جگہ ہوتے تب بھی ایسے ہی لگتے۔ایک گھڑی ہے جو لگتی تو گھڑی کی گھڑی ہے مگر گرمیوں میں پنکھے کا کام بھی دیتی ہے۔یہاں پورے محلے سے زیادہ شور ہوتا ہے۔صرف اس وقت خاموشی ہوتی ہے جب اندر کوئی لڑکی نہ ہو۔لڑکیاں یہاں ہر وقت انگریزی بولتی رہتی ہیں‘صرف اس وقت انگریزی نہیں بولتیں جب چپ ہوں۔
لڑکوں کی کینٹین سے ہر وقت قہقہوں اور گرلز کینٹین سے چیخوں کی صدائیں آتی ہیں کہ لڑکیاں خوشی غمی ہر دو موقعوں پر چیختی ہیں۔
مخلوط کینٹین وہ ہوتی ہے جہاں لڑکے اس لئے آتے ہیں کہ یہاں لڑکیاں ہوں گی اور لڑکیاں بھی اسی لئے آتی ہیں۔میرے دوست ”ف“ کے خیال میں لڑکیاں علیحدہ کینٹین کی حامی نہیں کہ اس سے ان کا بجٹ ڈسٹرب ہوتا ہے۔مخلوط کینٹین پر شریف لڑکی وہ ہوتی ہے جو روزانہ ایک ہی لڑکے سے چائے پیتی ہے‘اور شریف لڑکا وہ ہوتا ہے جس سے روزانہ مختلف لڑکیاں چائے پیتی ہیں۔

کینٹین کالج کا دارالخلافہ ہوتی ہے۔اسی لئے یہاں بڑے بڑے خلیفہ پائے جاتے ہیں۔میرا دوست ”ف“ کہتا ہے ”کینٹین کا بڑا فائدہ یہ ہے کہ باہر سے آنے والے ملاقاتی کو پریشانی نہیں ہوتی۔“یہ فائدہ صرف ”ف“ ہی کو حاصل ہے کہ آنے والا اس کا نام تک بھول جائے تو پھر بھی اس سے ملاقات کر سکتا ہے‘بس کینٹین والے سے یہ کہہ دے کہ مجھے اس سے ملنا ہے جس کا بل سب سے زیادہ ہے۔ویسے اس غیر پارلیمانی تکلف کے بغیر بھی کام چل جاتا ہے کہ کینٹین والا طلبہ کا انسائیکلوپیڈیا ہوتا ہے۔

Browse More Urdu Adab