Hostel Mein Rehna - Article No. 2660

Hostel Mein Rehna

ہوسٹل میں رہنا - تحریر نمبر 2660

جس نے ہوسٹل میں رہ کر غلطی نہ کی اس نے آدھی زندگی ضائع کر دی‘اور جس نے ہوسٹل میں نہ رہنے کی غلطی کی اس نے پوری زندگی ضائع کر دی

یونس بٹ منگل 13 فروری 2024

ڈاکٹر محمد یونس بٹ
میں آپ لوگوں کے لئے کچھ کرنا چاہتا ہوں۔اس مقصد کے حصول کے لئے میں جب بھی ملک کی بھاگ دوڑ سنبھالنے لگتا‘اسی وقت یا تو مجھے نیند آ جاتی یا کوئی ملنے آ جاتا۔سو میں آپ لوگوں کے لئے کچھ نہ کر سکا۔کل تو مجھے ملک ڈولتا ہوا نظر آ رہا تھا۔وہ تو میں نے چکروں کی دوائی لے لی‘سو ملک کے حالات تو بہتر ہو گئے لیکن اب میں نے ملک کی بھاگ دوڑ سنبھالنے کا پروگرام ملتوی کر دیا ہے۔
اب میرا ارادہ آپ سب لوگوں کے لئے جنت بنانے کا ہے۔جنت کی سب سے بڑی خوبی یہ ہے کہ وہاں سب جوان ہوں گے۔گویا جنت اور دنیا میں بنیادی فرق یہی ہے کہ وہاں نصیحت کرنے کے لئے بوڑھے نہ ہوں گے ویسے اگر جنت میں سب بوڑھے ہوں گے‘پھر بھی جنت جنت ہی رہے گی۔

(جاری ہے)

کیونکہ جہاں سب بوڑھے ہوں وہاں کوئی بوڑھا نہیں ہوتا۔دنیا میں جو شخص پہلی مرتبہ جنت بنانے میں کامیاب ہوا‘اس نے ہوسٹل بنایا اور مجھے یقین ہے کہ خدا اسے قیامت کے دن جنت میں نہیں بھیجے گا‘دوبارہ ہوسٹل میں بھیج دے گا۔

اب تو آپ کو پتا چل گیا ہو گا کہ میں آپ کے لئے ہوسٹل بنانا چاہتا ہوں کیونکہ یہ وہ جنت ہے جہاں سے غلطی کرنے پر نکالا بھی نہیں جاتا بلکہ جس نے ہوسٹل میں رہ کر غلطی نہ کی اس نے آدھی زندگی ضائع کر دی‘اور جس نے ہوسٹل میں نہ رہنے کی غلطی کی اس نے پوری زندگی ضائع کر دی۔
گھروں میں صرف دو قسم کے لوگ ہوتے ہیں بچے یا بوڑھے‘بچے وہ جنہیں قدم قدم پر ٹوکا جاتا ہے اور بوڑھے وہ جو ہر قدم پر ٹوکتے ہیں۔
جوان تو بس ہوسٹلوں میں ہوتے ہیں۔کہتے ہیں جو جا کر نہ آئے وہ جوانی اور جو آ کر نہ جائے وہ بڑھاپا۔مگر میں آپ کو چوبیس گھنٹوں کے اندر دوبارہ جوان بنا سکتا ہوں۔میں کوئی حکیم یا سنیاسی باوا نہیں‘آپ کو میرے پاس آنے کی بھی ضرورت نہیں۔اگرچہ وارڈن کا وجود ہوسٹل میں ایسے ہی ہے جیسے نیک دل میں برا خیال۔پھر بھی آپ فوراً کسی وارڈن سے ہوسٹل میں کمرے کے لئے ملیں۔

مجھے کوئی پوچھے کہ میں لاہور میں رہتا ہوں؟تو میں کہتا ہوں ”نہیں“ میں لاہور میں نہیں ہوسٹل میں رہتا ہوں“کیونکہ ہوسٹل تو الگ ملک ہے جس کا قانون‘اصول بلکہ موسم تک اپنا ذاتی ہوتا ہے۔پندرہ سے پچیس سال کی عمر میں ہوسٹل میں بڑی گرمی ہوتی ہے اور مکیں زیادہ تر غسل خانوں میں رہتے ہیں جبکہ چالیس سال کی عمر تک موسم معتدل اور ساٹھ سال کے بعد بہت ٹھنڈا ہوتا ہے۔
یہ دنیا کا وہ نایاب خطہ ہے جہاں کے ہر باسی کا ذاتی قانون ہوتا ہے‘کسی کمرے میں اسلامی نظام نافذ ہوتا ہے تو کسی میں مارشل لاء کا دور دورہ ہوتا ہے۔
ہوسٹل میں رہنا دراصل خوابوں میں رہنا ہے۔شاید اسی لئے طلبہ یہاں سوتے ہی رہتے ہیں‘صرف اس وقت اٹھتے ہیں جب دوبارہ سونا ہو۔یہاں تو بندہ خواب میں بھی یہی دیکھتا ہے کہ وہ سویا ہوا ہے۔گھروں میں بندہ تھکتا ہے تو سو جاتا ہے‘یہاں جب سو سو کر تھک جاتا ہے تو گھنٹے دو گھنٹے کے لئے اٹھ بیٹھتا ہے‘البتہ میں ذرا کم سوتا‘رات نو بجے کہیں جا کر نیند آتی اور رات آٹھ بجے اٹھ بھی پڑتا۔

اگر کوئی ہوسٹل میں صبح صبح اٹھ کر کہے کہ میں لیکچر سننے جا رہا ہوں تو یقین کر لیں وہ شادی شدہ ہے اور رات یہاں گزار کر گھر جا رہا ہے۔جب تک میں ہوسٹل میں رہا‘میرا ریکارڈ ہے میں کبھی پہلی کلاس میں دیر سے نہ پہنچا جس کی ایک وجہ تو یہ تھی کہ مجھے دیر سے پہنچنا بہت برا لگتا ہے اور دوسری وجہ یہ تھی کہ کبھی پہلی کلاس میں پہنچا ہی نہیں‘البتہ دوسری کلاس میں سب سے پہلے پہنچتا‘تاکہ آخری بنچ پر جگہ مل سکے۔

دنیا کی وہ جگہ جہاں سے ہر لڑکی پیاری لگتی ہے‘بوائز ہوسٹل کہلاتی ہے۔بوائز ہوسٹل اور گرلز ہوسٹل میں یہ فرق ہے کہ اگر ہوسٹل کے سامنے زیادہ بوائز ہوں تو یہ گرلز ہوسٹل ہو گا۔ہوسٹل میں وہ طلبہ رہتے ہیں جن کا گھر دور ہوتا ہے‘نہ بھی ہو تو ہوسٹل میں رہنے سے دور ہو جاتا ہے۔ہوسٹل کی دیواروں کے کان ہی نہیں زبان بھی ہوتی ہے جو آپ کے کمرے کی آواز بلند کر کے دوسرے کمرے تک پہنچاتی ہے۔
یہاں کے غسل خانے سارا سارا دن غسل کرتے رہتے ہیں۔بقول ”ف“ ہوسٹل کا پانی بھی زیادہ گیلا ہوتا ہے۔کہتے ہیں گھر کی مرغی دال برابر‘ ہوسٹل کی دال مرغی برابر یقین نہ آئے تو میس بل دیکھ لیں۔
بوائز ہوسٹل کی سب سے بڑی خوبی یہ ہے کہ یہاں لڑکی نہیں آ سکتی۔جہاں لڑکی آ جائے وہ گھر بن جاتا ہے۔یعنی آپس میں لڑائیاں ہونے لگتی ہیں۔دنیا کے تمام بڑے آدمیوں کا کام لوگوں کو خواب غفلت سے بیدار کرنا ہے۔
ہوسٹل میں رہنے والے لوگوں کا بھی یہی کام ہوتا ہے۔وہ بھی کسی کو سونے نہیں دیتے۔یہاں اُس بازار کی طرح راتیں جاگتی اور دن سوتے ہیں۔
ہوسٹل میں وہ جگہ جہاں جا کر سب اجتماعی طور پر اپنے گھروں کو شدت سے یاد کرتے ہیں‘میس کہلاتی ہے۔ہوسٹل میں سب چیزیں آپ کی نہ ہوتے ہوئے بھی آپ کی ہوتی ہیں۔جب کہ گھروں میں سب چیزیں آپ کی ہوتے ہوئے بھی آپ کی نہیں ہوتیں۔
آج کل مسجدیں بوڑھوں کے ہوسٹل بنتی جا رہی ہیں۔یوں بھی آپ کو ہوسٹل بنانے کے لئے سیمنٹ‘بجری اور اینٹوں کی ضرورت نہیں۔آپ کسی مقام پر خواہ وہ کہیں بھی ہو پریشانیوں کا داخلہ ممنوع کر دیں‘وہ ہوسٹل بن جائے گا۔

Browse More Urdu Adab