Rahzan - Article No. 2672

Rahzan

راہزن - تحریر نمبر 2672

کم از کم جو کسی مصنف کی ایک کتاب چرائے‘ اسے مصنف کی دوسری کتابیں انعام میں دی جائیں۔اگر وہ پھر بھی باز نہ آئے تو پڑھائی بھی جائیں۔

یونس بٹ منگل 26 مارچ 2024

ڈاکٹر محمد یونس بٹ
پطرس بخاری مرحوم نے اپنی کتاب کے دیباچے میں لکھا تھا:”اگر آپ نے یہ کتاب چوری کی ہے تو میں آپ کے ذوق کی داد دیتا ہوں۔“اگر انہیں آج یہ دیباچہ لکھنا پڑتا تو وہ یقینا لکھتے:”جو اس کتاب کے نئے ایڈیشن کی ایک کتاب چرائے گا‘اسے پہلے ایڈیشن کی دو کتابیں مفت دی جائیں گی۔
“مگر قائد اعظم لائبریری والوں کا ذوق ملاحظہ فرمائیں‘انہوں نے لوکل گورنمنٹ کے پراجیکٹ ڈائریکٹر کو فارن کتاب چرانے پر راہزن قرار دے ڈالا اور حوالہ پولیس کر دیا۔
اگرچہ ہمیں یہ سمجھ نہیں آتی کہ راہزن سے مراد تو راہ میں ملنے والی زن ہوتی ہے۔اس سے مراد چور اچکا کیوں لیا جاتا ہے۔اس پر خواتین کو احتجاج کرنا چاہیے کہ آئندہ چور اچکوں کو راہ زن کی بجائے راہ مرد کہا جائے بلکہ چور اچکوں کو خود اس پر کچھ مردانگی دکھانا چاہیے۔

(جاری ہے)

جہاں تک کتاب چوری کا تعلق ہے تو اردو ادب میں دوسرے کی زیادہ سے زیادہ تعریف یہی کی جاتی ہے کہ وہ نظر میں دل چرا لیتا ہے۔کتاب چور کو تو ادب میں بہت ہی بلند مقام حاصل ہے۔ہم ایک ایسے شاعر کو جانتے ہیں جن کی کتاب کسی نے چرا لی تو وہ اسے بھی اپنے کلام کی خوبیوں میں شمار کرنے لگے۔حالانکہ اگلے دن دیوان واپس مل گیا تھا اور اس میں سے وہی صفحے چرائے گئے تھے جو صاف تھے لیکن قائد اعظم لائبریری والوں نے تو حد کر دی۔
ہم انہیں بد ذوق بھی نہیں کہتے‘کہیں کل بیان دے دیں کہ ہم نے استاد ذوق کو بد کہا۔
ویسے ہمیں تو لگتا ہے کہ کتاب چور پراجیکٹ ڈائریکٹر صاحب بھی کبھی کالج یا یونیورسٹی نہیں گئے کہ وہاں تو سکھایا ہی یہی جاتا ہے کہ کمرہ امتحان میں چوری چھپے کتاب کس طرح لے جا سکتے ہیں۔چلو اگر وہی اناڑی تھے تو لائبریری والوں کو ہی خیال کرنا چاہیے تھا۔ویسے ہو سکتا ہے انہوں نے موصوف کو صرف اس لئے پکڑا ہو کہ کتاب امریکی تاریخ کی تھی۔
لائبریری والوں نے سوچا ہو گا کہ اگر امریکہ کی تاریخ چرا لی گئی تو پھر امریکہ کے پاس کیا رہ جائے گا؟حالانکہ تاریخ کے معاملہ میں امریکہ پہلے ہی رہ گیا ہے۔امریکہ کی نئی نسل سے تاریخ کا مطلب پوچھو تو وہ ”ڈیٹ“ بتاتے ہیں۔
سکول کے زمانے میں ہم بھی تاریخ کے لاجواب طالب علم تھے یعنی ہر سوال کا جواب لا میں دیتے۔اب بھی ہم نے تاریخ یاد رکھنے کے لئے کمرے میں کیلنڈر لٹکایا ہوا ہے۔
بہرحال اتنا ہمیں پتہ ہے کہ امریکہ کی تاریخ بھی اپنی نہیں‘چوری کی ہے۔چوری کے معاملے میں وہ خود ایسے ہیں کہ ایک انگریز امریکی اور یہودی گرجا گھر دیکھنے گئے۔انگریز نے وہاں لگے ہیرے دیکھ کر کہا ”کتنے خوبصورت ہیرے ہیں،دل چاہتا ہے اتار لوں۔“ امریکی نے کہا ”میں نے تو اتار بھی لئے ہیں۔“ یہودی بولا ”اور اس وقت وہ میری جیب میں ہیں۔“ اگر کوئی ہم سے پوچھے کہ کولمبس نے امریکا کب دریافت کیا؟ تو ہم یہی کہہ سکتے ہیں کہ ہم کو بتائے بغیر کیا! بہرحال کولمبس امریکا چھوڑ کر مرا۔
حالانکہ یہ بھی کوئی بڑی بات نہیں۔ہمارے دادا ساری دنیا چھوڑ کر مرے۔اگرچہ تاریخ کی کتاب کے بغیر ہمیں بھی رات کو نیند نہیں آتی۔تاریخ کی کتاب کھلی دیکھ کر فوراً آ جاتی ہے مگر ہم اتنے باذوق نہیں کہ کتاب چرانے کا سوچتے۔
بندہ فضول اور بے کار چیز خرید تو سکتا ہے‘چرا نہیں سکتا۔اسی لئے کتابیں بہت کم چرائی جاتی ہیں۔آج کل کتابوں کا یہ معاملہ ہے کہ ایک روز پروفیسر عالم خان تیزی سے پاک ٹی ہاؤس سے نکل رہے تھے‘کسی نے پوچھا”آپ گھبرائے ہوئے بھاگ کیوں رہے ہیں؟“تو بولے”اندر امجد طفیل لوگوں کو اپنی نئی کتاب دے رہا ہے‘کہیں مجھے بھی نہ دے دے۔
“آج کل ریڈر اتنے کم ہو گئے ہیں کہ مجسٹریٹ تک نے تنخواہ پر ریڈر رکھے ہوئے ہیں۔اگرچہ ہمیں تو لائبریری میں وہی کتابیں پسند ہیں جن پر کتابی چہرے جھکے ہوتے ہیں۔ایک بار ہم نے ایک اداکارہ سے ”بک“ کا ذکر کیا تو اس کی ماں بولی”ہاں بے بی کئی فلموں میں”بک“ ہے۔“اس دور میں پڑھنے کے لئے کتاب چرانا ایک کارنامہ ہے۔ہماری حکومت نے جتنے انعام رکھے ہیں‘چوروں‘ڈاکوؤں پر رکھے ہیں اور اس حساب سے صرف سندھ میں 12 کروڑ روپے کے ڈاکو ہیں۔تیس چالیس ہزار کے شریف بھی ہیں۔حکومت کو چاہیے کہ کتاب چوروں کے لئے بھی انعام رکھے۔کم از کم جو کسی مصنف کی ایک کتاب چرائے‘ اسے مصنف کی دوسری کتابیں انعام میں دی جائیں۔اگر وہ پھر بھی باز نہ آئے تو پڑھائی بھی جائیں۔

Browse More Urdu Adab