Mere Pas Tum Ho

Mere Pas Tum Ho

میرے پاس تم ہو

پاکستان میں ہزاروں ڈرامے اور فلمیں ایسی بنی جن میں مردوں کو برا دکھایا گیا اگر ایک ڈرامے میں اچھا دکھا دیا تو اس پر واویلا کرنے کی کیا ضرورت تھی ؟

پیر 27 جنوری 2020

تحریر: حافظ وارث علی رانا 

یہ ڈرامہ پاکستان کی تاریخ کا سب مقبول ڈرامہ ثابت ہوا کیونکہ اس نے ریٹنگ کے سارے ریکارڈ توڑ ڈالے ۔ اس کے عوام میں مقبول ہونے کی وجہ اس کی غیر روایتی کہانی تھی کیونکہ ہمارے ہاں روایتی طور پر ڈراموں اور فلموں میں مرد کو ہی ہمیشہ برائی کی جڑ ، وحشی درندہ ، چور ، ڈاکو ، زانی شرابی ، ہوس کا پجاری اوربے وفا دکھایا جاتا رہا ۔
یہ اپنی نوعیت کی پہلی کہانی تھی جس میں عورت کی خامیوں پر روشنی ڈالی گئی اور مرد کو ایک انسانی جذبات کو مدنظر رکھتے ہوئے مظلوم دکھایا گیا ، اس ڈرامے کی مقبولیت کی وجہ سوشل میڈیا کے علاوہ اس کے ڈائیلاگ اور اس ڈرامے کا گانا جو راحت فتح علی خاں نے گایا بنا ۔
 اس ڈرامے کی کہانی نے عام آدمی کوجذباتی طور پر بہت متاثر کیا اور اسے اپنی طرف متوجہ کیا ، ڈرامہ تو ختم ہو گیا لیکن اس کے بولے گئے جملے کبھی فراموش نہیں ہونگے کیونکہ وہ لوگوں کے دلوں میں گھر کر چکے ہیں ۔

(جاری ہے)

اور اس کا سارا کریڈٹ ڈرامے کے لکھاری خلیل الرحمن قمر کو جاتا ہے جنہوں نے پہلے ہی بتا دیا تھا کہ آخری سین لکھتے وقت میرے بھی ہاتھ کانپ گئے تھے اور حقیقت میں میری آنکھوں میں آنسو تھے ، لہذا کمزور دل والے یہ ڈرامہ نہ دیکھیں اور اگر دیکھنا بھی ہو تو اپنی دوائیاں اپنے پاس رکھ کر دیکھیں ۔ اور پھر ہم نے دیکھا کہ ایسا ہی ہوا کیونکہ اختتام پر ڈرامے کا ہیرو مر جاتا ہے ، اس پر کچھ لوگوں کا کہنا ہے کہ یہ اختتام ٹھیک نہیں ،لیکن مجھے لگتا ہے کہ جتنا لبرل طبقے نے اس ڈرامے پر واویلا مچایا تھا اس کو دیکھتے ہوئے ڈرامے کی ایک محفوظ اینڈنگ یہی ہونی چاہئے تھی ، اگر ہیرو اپنے بیٹے کی ٹیچر سے شادی کرتا تب بھی خلیل الرحمن کی خیر نہیں تھی اور اگر وہ اپنی طلاق یافتہ بیوی کو قبول کرتا تو تب بھی مذہبی طبقوں کی زد میں آجاتے کہ حلالہ کے بغیر بیوی کو واپس لے لیا یہ معاشرے کو کیا سیکھایا جا رہا ہے ۔
 اس لیے مجھے لگتاہے کہ ڈرامے کے اختتام کا ایک محفوظ راستہ یہی تھا کہ ہیرو کو مار کر مرد کے ماتھے پر لگے بے وفائی کے کلنک کو دھو دیا جائے ۔ دوسرا سبق یہ ملا کہ مرد نے موت تو قبول کی مگر بے وفائی معاف نہیں کی ، ایک اور جملہ جو مجھے بہت پسند آیا جس میں دانش اپنے آخری وقت میں بیٹے کو نصیحت کرتا ہے کہ بڑا آدمی وہ ہوتا ہے جس کی جیب میں اپنی کمائی ہو اور اس کی قیمت کوئی نہ ہو یعنی اس کے ضمیر کو کوئی کسی قیمت پر بھی خرید نہ سکے وہ بڑا آدمی ہوتا ہے ۔
خلیل الرحمن قمر اس ڈرامے کو لکھنے کے بعد خواتین کے ایک مخصوص طبقے کی شدید زد میں رہے ، خاص کر جو میرا جسم میری مرضی کے حامی ہیں انہیں اس پر بڑی تکلیف پہنچی کیونکہ انکا چورن تو خواتین کی بے تُکی آزادی اور حقوق نسواں کے نام سے منسوب تنظیموں کے بل بوتے پر ہی بکتا ہے اور قمر صاحب نے ان کے نظریے پر کاری ضرب لگا کر اُن کی دال روٹی بند کرنے پر تلے ہوئے ہیں ۔
۔۔
 پاکستان میں ہزاروں ڈرامے اور فلمیں ایسی بنی جن میں مردوں کو برا دکھایا گیا اگر ایک ڈرامے میں اچھا دکھا دیا تو اس پر واویلا کرنے کی کیا ضرورت تھی ؟ ڈرامے میں بے وفائی کرنے والی صرف ایک لڑکی کو دو ٹکے کی کہا گیا لیکن اس جملے کو حقیقت میں ساری دو ٹکے کی لڑکیوں نے محسوس کیا جیسے کسی نے ان کو مخاطب کر کے یہ جملہ ہو ، ورنہ یہ تو محض ڈرامہ ہی تھا اسے ڈرامے کی حد تک ہی سوچنا چاہئے تھا لیکن لبرل طبقے نے اسے عورت ذات پر حملہ تصور کیا ۔
حالانکہ ڈرامے کا لکھاری بارہا وضاحت دے چکا کہ یہ جملہ صرف اس لڑکی کیلئے بولا گیاجو اس ڈرامے کے کریکٹر میں تھی ۔بہرحال ایک اچھی بات یہ ہے کہ پاکستانی ڈرامہ انڈسٹری اپنا کھویا مقام دوبارہ حاصل کر رہی ہے ، میرے پاس تم ہو کے علاوہ عہدِ وفا ،الف جیسے ڈرامے بھی ناظرین کی توجہ کا مرکز بنے ہوئے ہیں اور اچھی ریٹنگ میں جا رہے ہیں ۔

Browse More Articles of Lollywood