Turkish Adakara Ki Tasveer

Turkish Adakara Ki Tasveer

ترکش اداکارہ کی تصاویر

ہمارے ملک میں بھی تاریخی فلمیں یا ڈرامے بنتے ہیں اسمیں اداکاروں نے اگر تاریخی اسلامی ہیرو ہیروئن کا رول ادا کیا ہو تو ہم دوسرے ڈراموں میں انہیں ولن یا منفی رول میں بھی قبول کر لیتے ہیں ہمیں کبھی ان پر تنقید نہیں کرتے اگرچہ بعض اداکاراؤں پر تنقید بھی ہوئی ہے مگر وہ اداکارائیں کبھی بھی ان اعتراضات کی پرواہ نہیں کرتیں

جمعہ 15 مئی 2020

تحریر---ڈاکٹر مقبول احمد صدیقی

اسلامی سلطنت عثمانیہ کی تاریخ پرمبنی ترکش ڈرامہ ارطغرل غازی جو آجکل پاکستان میں دکھایا جا رہا ہے اسمیں ارطغرل غازی کی بیوی حلیمہ سلطان کا کردار ادا کرنے والی اداکارہ کے بارے میں آجکل ایک خبر بہت گرما گرم ہے کہ اداکارہ نے اپنے انسٹا گرام اکاؤنٹ پر مغربی لباس میں اپنی کچھ تصاویر شیئر کی ہیں جو مغربی لباس میں ہیں جو نامناسب لباس بھی ہے اب خبر یہ ہے کہ اس اداکارہ کے پاکستانی مداحوں میں غم وغصہ کہ لہر دوڑ گئی ہے۔
لوگ یہ اعتراض کر رہے ہیں کہ ایک اسلامی تاریخی ہیرو کی بیوی حلیمہ سلطان کا کردار ادا کرنے کے بعد اب اداکارہ کو مغربی نامناسب لباس زیب تن کرنا بالکل زیب نہیں دیتا۔یہ خبر سن کر سخت افسوس ہوا کہ ہماری قوم نہ جانے کن کن مباحثوں اور بحثوں میں اپنا وقت ضائع کرتی ہے۔

(جاری ہے)

ایک اداکارہ سے جس کا کام ہی ڈرامہ کرنا ہوتا ہے اس سے یہ توقع رکھنا کہ وہ آپ کی خواہشات کے مطابق لباس پہنے یہ توقع ہی ازحد غلط ہے۔

ڈرامہ میں یہ اداکارہ ہیرو کے کئی بار گلے لگتی ہے اب ایسے مناظر پر اس اداکارہ کے مداحوں میں غم وغصہ کی لہر نہیں دوڑتی --ہاں ڈرامہ سے مکمل محظوظ ہونے کے بعد اداکارہ کو مغربی لباس میں دیکھنے پر فورا اخلاقی اقدار یاد آجاتی ہیں اور غم وغصہ کی لہر دوڑ جاتی ہے۔
پھر بولنے سے پہلے اداکارہ کے مداح پاکستانی یہ نہیں سوچتے کہ ہمارا اپنا فعل کیا ہے--
اپنے ملک کی اداکاراؤں پر تو نظر ڈالیے کیا وہ سب فلموں میں برقعہ یا حجاب پہن کر آتی ہیں؟؟ یا کیا وہ ہمیشہ ملکی اور قومی لباس ہی پہنتی ہیں اور مغربی لباس بالکل نہیں پہنتی یا کیا فلمی گانوں میں پہنے ہوئے ملبوسات ہماری قومی روایات کے عین مطابق ہوتے ہیں اس پر ہماری بالکل نظر نہیں ہوتی ---ہم اپنی اداکاراؤں کو تو بدل نہیں سکتے مگر ہم چاہتے ہیں کہ دوسرے ملک کی اداکارہ ہماری خواہش کے مطابق لباس پہنے۔
 ہم اپنی اداکاراؤں کو تو انڈین فلموں میں کام کرنے سے روک نہیں سکتے مگر دوسرے ملک اور وہ بھی ترکی جیسے آزاد خیال ملک کی اداکارہ سے توقع رکھتے ہیں کہ اس نے آخر کیوں مغربی لباس پہن لیا ہے۔
ہمارے ملک میں بھی تاریخی فلمیں یا ڈرامے بنتے ہیں اسمیں اداکاروں نے اگر تاریخی اسلامی ہیرو ہیروئن کا رول ادا کیا ہو تو ہم دوسرے ڈراموں میں انہیں ولن یا منفی رول میں بھی قبول کر لیتے ہیں ہمیں کبھی ان پر تنقید نہیں کرتے اگرچہ بعض اداکاراؤں پر تنقید بھی ہوئی ہے مگر وہ اداکارائیں کبھی بھی ان اعتراضات کی پرواہ نہیں کرتیں اور ان سب باتوں کے باوجود ہم انکی پسندیدگی میں فرق بالکل نہیں آنے دیتے۔
 اب ان باتوں کے با وجود ہمارے پاس وقت ہے تو اس بات کا وقت ہے کہ ایک دوسرے ملک کی اداکارہ کا کیا حق ہے کہ وہ ہمارے خواہش کے مطابق لباس نہ پہنے۔ہم قول وفعل کا تضاد رکھتے ہیں کہتے ہیں کہ دوسرا اپنے آپ کو بدلے مگر ہم خود اپنے اداکار یا اداکاراؤں کو بدل نہیں پاتے۔
ایک اور بات پاکستان میں زیادہ چینلز آنے کی وجہ سے ڈرامہ بہت مقبول ہوا ہے --بہت زیادہ ڈرامہ دیکھ کر ہم خود بھی ڈرامہ بن گئے ہیں ہم حقیقت کی دنیا سے دور ہوتے جارہے ہیں-
ارطغرل اور اسکی بیوی حلیمہ تو ہمارے لیے رول ماڈل ہو سکتے ہیں مگر ان کا کردار ادا کرنے والا اداکار یا اداکارہ ہمارے لیے نمونہ ہرگز نہیں ہو سکتے ان کی اپنی لائف ہیں ان پر دوسرے پابندی نہیں لگا سکتے۔
اصولا شرعی اعتبار سے فلم یا ڈرامہ انہیں پسندیدہ طریق قرار نہیں دیا جا سکتا-اگر قوم کو تاریخی شخصیات اور ہیروز سے آگاہی دینی ہے تو کتب ورسائل کے ذریعے یا اساتذہ و سکالرز کے لیکچرز کے ڈریعے یہ آگاہی دی جا سکتی ہے۔
اور اگر فلم بنانی ہی پڑے تو ایسی فلم بنائی جا سکتی ہے جسمیں اداکار یا اداکارائیں نہ ہوں---بولتی فلم ہو جسمیں کوئی بولنے والا ساری کہانی سنائے اور سامنے تصویر پر مناظر دکھائیں جائیں کہ تیرھویں صدی میں ارطغرل قبیلہ کے حالات اسطرح تھے انکے جنگی آلات اور گھوڑے اسطرح کے تھے اور میدان جنگ اسطرح کے تھے اسطرح دیکھ کر بہت کچھ سیکھا جا سکتا ہے۔
اداکاروں سے یہ توقع رکھنا کہ وہ اداکاری بھی کریں اور جو کردار وہ ادا کریں اسی کے مطابق بھی عین زندگی بھی گذاریں یہ توقع رکھنا بالکل غلط ہوگا اسی طرح ڈرامے یا فلمیں دیکھ کر یہ توقع رکھنا کہ ہم میں کوئی اسلامی اور اخلاقی انقلاب آجائے گا یہ توقع بھی غلط ہوگی۔
ماضی میں کئی اسلامی تاریخی ہیروز اور موضوعات پر فلمیں بن چکی ہیں-عمر مختار سے لے کر ٹیپو سلطان تک شاہین سے لے کر حیدر علی تک بے شمار فلموں نے کونسی توپ چلا لی تھی جو یہ فلم چلا لے گی-یہ ڈرامے یا فلمیں محض کمرشل طور پر اور انٹرٹینمنٹ کے لیے بنائی جاتی ہیں--ان کے کچھ فوائد ضرور ہو سکتے ہیں۔
مگر ڈرامہ کو محض ڈرامہ ہی سمجھیں انٹرٹینمنٹ کے طور پر لیں-- انہیں حقیقت نہ سمجھیں ڈراموں اور فلموں سے قوموں میں کبھی انقلاب نہیں آیا کرتے۔

Browse More Articles of Lollywood