Ganda Hai Par Dhanda Hai Yeh

Ganda Hai Par Dhanda Hai Yeh

گندا ہے پر دھندہ ہے یہ

ماڈلنگ کی صنعت میں کس طرح نو آموزماڈ لز کا استحصال کیا جا تا ہے؟ ماڈلنگ کی دنیا کا سفر حقیقتاَ َ بہت گندا اور کٹھن ہے جہاں ہر قدم پر ہوس زدہ بھیڑ ئیے شکار کی تاک میں گھات لگائے بیٹھے ہیں

جمعہ 20 جولائی 2018

محمد اظہر
فیشن انڈسٹری کو عمو ماََ فحاشی ، ضرورت سے زیادہ دُبلا پن ، منشیات کا استعمال ، عجیب طرز کے ملبو سات اور مصنو عی پن کے فروغ کی وجہ سے تنقید کا نشانہ بنایا جاتاہے لیکن مذ کو رہ بحث میں اس شعبے سے وابستہ زیادہ تر نو آموز لڑ کیوں کی محر و میوں اور ان کے چمچماتے چہروں اور جدید تراش خراش کے پیچھے چھپے خون کے آنسو کسی کو کم ہی نظر آتے ہیں ۔

ایسا نہیں کہ پاکستان سمیت دنیا بھر میں ماڈلنگ انڈسٹری میں ہر جگہ سبھی لڑ کیوں کا استحصال ہو رہاہے تاہم اس حقیقت سے انکار ممکن نہیں کہ فیشن کاگڑھ سمجھے جانے والے یورپ اور امریکہ کے علاوہ پا کستان جیسے ملک میں بھی ماڈلزکے حالات قطعاو یسے نہیں ، جیسے ریمپ پر نظر آتے ہیں ۔ایک عام لڑکی سے ماڈل بننے کا سفر پھو لوں کی سیج نہیں بلکہ آگ کا دریا عبور کرنے کے مترادف ہے۔

(جاری ہے)

یہ ایسا کٹھن سفر ہے کہ جہاں ہر قدم پر ہوس زدہ بھیڑ ےئے گھات لگائے بیٹھے ہیں ۔ ماڈل بن کر پیسہ کمانے اور شہر ت سمیٹنے کی تمنا رکھنے والی ہر لڑکی کو سراب ہی منزل لگتی ہے ۔ ماڈل مینجمنٹ کمپنیاں ، پرو مو ٹر ز اور گھاگ قسم کے فو ٹو گرا فر انہیں کچھ ایسے خواب سکھاتے ہیں کہ ہر لڑکی خود کو سپر ماڈل تصو ر کر نے لگتی ہے ۔ سچ تو یہ ہے کہ اس شعبے میں پردے پر جو نظر آتا ہے ، پردے کے پیچھے اس سے قطعی مختلف حالات ہو تے ہیں ۔
لاکھوں روپے کے ملبو سات اور زیورا ت سے آراستہ اور مراعات یا فتہ طبقے کے ساتھ گھو منے پھرنے والی ماڈلزکی ز ندگی میں حقیقی گلیمر کے سوا سب کچھ ہو تاہے ۔
ماڈلنگ کی دنیامیں ہرجگہ لیبر قوانین کی کھلم کھلا خلاف ورزی نظر آتی ہے ،نو آموز ٹین ایجر ز ماڈلز سے پو را پو را دن بلا معاوضہ کام لیا جاتا ہے ۔ماڈل کو کا سٹ کرنے سے لے کر ، تجر باتی فو ٹو شوٹ اور کلائنٹ سے ملاقات تک میں کئی گھنٹے صرف ہو تے ہیں لیکن چندایک کیسز کے سوا تقر یبا سبھی ماڈلز کو اس ساری مشق کاکوئی مالی فائدہ نہیں ملتا۔
بعض اوقات جب مہینوں تک کوئی کلا ئنٹ نہ ملے تو حالات کے ہا تھوں مجبور ماڈلز کو انہی ایجنسیوں سے ایڈوانس لے کر اپنے اخراجات اُٹھانا پڑتے ہیں جس کے نتیجے میں یہ مزید استحصال کا شکار ہو جاتی ہیں ۔ کہا جاتاہے کہ ماڈل مینجمنٹ کمپنیوں کو وہی ما ڈلز زیادہ پسند ہیں جو کنڑ یکٹ اور معاوضوں کے حوالے سے زیادہ سوال جواب نہ کر یں ۔بعض اوقات ایسابھی ہوتاہے کہ کئی کمپنیاں نئی ماڈ ل کو لا علم رکھ کر اس کے نام سے اپنے کلائنٹ کے ساتھ کنڑ یکٹ سائن کر لیتی ہیں ،اس طرح ماڈل کو علم ہی نہیں ہو تا کہ اسے کس کام کا کتنا معاوضہ ملے گا ،یوں پرو مو ٹر ان کی محنت کا پیسہ آسانی سے ہڑپ کر جاتے ہیں ۔
اکثر ایسے بھی ہوتاہے کہ کنڑیکٹ میں مبہم سی شرائط پر سوال اٹھانے کی اجازت ہی نہیں دی جاتی اور معاوضے کا چیک بھی کمپنی کے کئی کئی چکر لگانے کے بعد ہی ملتا ہے ، اس صور تحال سے دلبر داشتہ ہو کر لڑکیوں کی ایک بڑی تعداد یہ شعبہ چھوڑ کر کوئی مستقل نو کری ڈھونڈ نا شروع کر دیتی ہے ۔ بعض اوقات ماڈلز کی مرضی پو چھے بغیر ان کی تصاویر کو بل بورڈزکی زینت بنا کر بھی خطیر منافع حاصل کیا جاتاہے۔
اکثر ماڈلز کے فو ٹو شوٹ کو اخبارات یا میگزینز کے ساتھ ساتھ انٹر نیٹ اور آوٴٹ ڈور ایڈور ٹائز نگ کے لئے بھی ان کی مرضی کے بغیر استعمال میں لایا جاتاہے جبکہ نئی ماڈ ل کی ویب سائٹ بنوانے اور سو شل میڈیا اکاوٴنٹس کو ہینڈل کرنے اور ویب سائٹ کی سالانہ تجدید فیس کی مد میں بھی ان کی کمائی سے کٹو تی کر لی جاتی ہے ۔بعض ماڈل مینجمنٹ کمپنیاں اس قدر سفارکہ ہیں کہ ماڈلز کی سالگرہ اور دیگر اہم مواقعوں پر انہیں تحفے تحائف دے کر بعد میں ان کے معاوضے سے کٹو تی بھی کر لیتی ہیں ۔
امریکہ میں عدالت میں دائرکئے گئے ایک کیس میں ایک ماڈل نے الزام لگایا کہ اس کی سالگرہ پر دےئے گئے پھو لوں کی تصویر کو نہ صرف ویلنٹائن ڈے کی تشہیر ی مہم کے لئے استعمال کرکے پیسہ کمایا گیا بلکہ بعد میں ماڈل سے ان پھولوں کے پیسے بھی وصول کر لئے گئے ۔ماڈلز سے ایک خطیر رقم کو رئیر اخراجات کی مد میں بھی وصول کی جاتی ہے ۔
ماڈل ،اینکر اور ایکٹرس عفت رحیم کے مطابق پا کستان جیسے معاشر ے میں ایک فیشن ماڈل کی زندگی انتہائی مشکل ہے کیو نکہ یہاں خوا تین ماڈ لز کو پیشہ کر نے والیوں کے طو ر پر دیکھا جاتاہے ، انہیں وہ عزت نہیں ملتی جو ان کا حق ہے ۔
عفت کا ما ننا ہے کہ عام طو ر پر لوگ ماڈلز کے بارے میں بہت جلد منفی رائے قا ئم کر لیتے ہیں بلکہ لو گو ں کی ایک بڑی تعداد کے نز دیک ماڈ لنگ حرام پیشہ ہے ۔عفت کہتی ہیں ’ ’ میں نے شادی کے بعد 24سال کی عمر میں ماڈلنگ کو خیر باد کہہ دیا تھا کیو نکہ میں لو گوں کے سامنے کیٹ واک کرنے میں بے سکونی محسو س کر نے لگی تھی یہی وجہ ہے کہ میں ریمپ پر واک کرنے سے زیادہ فو ٹو شوٹ کو تر جیح دیتی ہوں۔
‘‘
ماڈلز کی ٹریڈ یو نین نہ ہو نے کی وجہ سے امریکہ جیسے ملک میں بھی خوا تین ماڈلز کو بیس فیصد کمیشن کے علاوہ کم و بیش نصف رقم ایجنسیوں اور پر و مو ٹر ز کو دینا پڑ تی ہے جبکہ اداکار اور گلو کار اپنے کل معاوضے کا محض دس فیصد دینے کے پا بند ہو تے ہیں اور انہیں کھانے پینے سے لے کر ،اوور ٹائم ،کا م میں وقفہ ،مفت سفری سہو لیات سمیت دیگر فو ائد بھی ملتے ہیں ۔
مغربی حکو متوں نے صرف ماڈلنگ ایجنسیوں کی رجسٹر یشن اور بعض ممالک میں کم از کم اٹھارہ برس عمر کی حد مقرر کرنے کے سوا نو آموز ماڈلز کے معا شی اور جسمانی تحفظ کے لئے کوئی بڑا قدم نہیں اُٹھا یا ۔ دوسری طرف ماڈل مینجمنٹ کمپنیوں کی جا نب سے انہیں بلیک لسٹ کئے جا نے کا خوف بھی نئی ماڈلز کو یو نین سازی سے روکے ہوئے ہے ۔زیا دہ تر ماڈل مینجمنٹ کمپنیاں نئی ماڈلز کے کھانے پینے اور آنے جا نے تک کے معا ملات کو خودکنٹرول کر تی ہیں لیکن دوسری طرف انہیں کام کے مطابق اُجر ت اور دیگر سہو لیت دینے کا رواج ابھی تک نہیں پڑسکا ۔
ماڈلز کو عام ملازمین کی طرح معاشی اور قا نو نی تحفظ بھی نہیں ملتا ۔ ماڈل مینجمنٹ کمپنیوں کے ما لکان عدالت میں بھی انہیں اپنا ملازم تسلیم کر نے سے انکار کر دیتے ہیں ۔بعض امر یکی کمپنیوں نے عدالت میں یہاں تک کہا کہ ماڈلز خود اپنا کیر ےئر بنانے کے لئے کمپنیوں کو ہا ئر کر تی ہیں ایسے میں کمپنی پر ماڈلز کو کم ازکم اُجرت دینے کا اُصول ہی لاگو نہیں ہو تا ،اسی طرح ان کے استحصال اور دیگر الزامات بے معنی ہو جاتے ہیں ۔
ماڈل مینجمنٹ کمپنیاں یہ دکھائی دیتی ہیں کہ اگر انہیں ماڈلز کو ’ ’ ایمپلائز بینیفٹ ‘ ‘ دینے کا پا بندکر نے کی کو شش کی گئی تو یہ کمپنیا ں ہی بند ہو جائیں گی اور یوں ماڈلز کے حالات مزید گر گوں ہو جائیں گے ۔
دنیا بھر سے امریکہ ، فرانس ، اٹلی اور یو رپ کے دیگر ممالک میں ماڈلنگ کے لئے آنے والی نو آموز ماڈلز کو اکثر انگر یزی زبان اورا میگر یشن قوانین سے مناسب واقفیت نہ ہو نے کی وجہ سے استحصال کا نشانہ بنایا جاتا ہے ۔
انہیں مہنگی رہائش ، لینگو ئج کورسز ، فٹنس پر وگرام ،کا سمیٹکس سر جری ، گر و منگ اور کام ملنے کی صورت میں بھاری کمیشن دینے پرمجبور کیاجاتاہے۔اپنے گھر سے ہزاروں میل دور ماڈلز کو نئے ماحول اور نئے شہر میں سب سے پہلے رہائش کا مسئلہ در پیش ہو تاہے ۔ایسے بھی یو رپ اور امریکہ کے بعض بڑے شہروں میں ماڈلز اپار ٹمنٹ کارواج عام ہے ۔تاہم یہاں نہ صرف ان سے زیادہ کرایہ وصول کیا جاتا ہے بلکہ ان کمروں میں خفیہ کیمرے نصب کرکے ان کے ’ ’ پرائیو یٹ ‘ ‘ لمحات کی فلم کو بھی بلیک میلنگ کے لئے استعمال میں لانے کی شکایات عام ہیں ۔
بعض اوقات ان اپار ٹمنٹس کے ما لکان کی جانب سے نئی ماڈلز کو زیادتی کے واقعات کاسامنا بھی کرناپڑتا ہے جبکہ لڑکیوں کی ایک بڑی تعداد کیر ےئر خراب ہونے یا بد نامی کے ڈر سے ان واقعات کو تقدیر کا لکھا سمجھ کر ہمیشہ کے لئے اپنے ہو نٹوں کو سی لیتی ہیں ۔ نہ جانے کتنی ہی لڑکیاں کسی سپر ماڈل کو اپنا آئیدیل مان کر فیشن ماڈلنگ کی طرف آتی ہیں لیکن حالات سے مجبور ہو کر عریاں ماڈلنگ اور پورن انڈسٹری تک پہنچ جاتی ہیں ۔

پاکستان کی مثال ہی لے لی جائے ۔۔۔ سیالکوٹ کی اریبہ کی کہانی کچھ زیادہ پرانی نہیں ۔وہ ماڈلنگ کرنا چاہتی تھی اور یہ شوق اُسے ماڈل ٹاوٴن ، لاہور کی طوبیٰ عرف عظمیٰ راوٴ تک لے آیا ۔ ایک یو نیورسٹی کی طالبہ ماڈلنگ کے ذریعے نام اور پیشہ کمانے کی خواہش میں منظم جرائم پیشہ گر وہ کو ساتھ لگ گئی ۔اُسے طوبیٰ کے ساتھیوں نے زیادتی کا نشانہ بنانے کے بعد قتل کر دیا اوراس کی لاش سوٹ کیس میں بند کرکے شیر اکوٹ لاہور کے علاقے میں ایک بس سٹینڈ پر پھینک دی ۔
ویسے اریبہ کاقتل اس حوالے سے کوئی پہلا قتل نہیں ۔۔۔ ماڈلنگ کی شوقین نہ جانے کتنی ہی لڑکیا ں اس شوق کی بھینٹ چڑھ چکی ہیں ۔ کوئی بھی اخبار اٹھا کرکلا سیفائیڈ اشتہارات میں نو جوان لڑکیوں کو فلم ،ٹی وی اور ماڈلنگ کے حوالے سے پر کشش پیشکش کی جاتی ہے ۔ شو بز کے اعنوانات سے ڈرامہ ،ماڈلنگ ،ٹی وی کمرشل اور فیشن کی دنیا میں سو فیصد کامیابی کا جھانسہ دیا جاتاہے۔
ٹی وی سکرینوں پہ آرائشی اشتہار کی بھر مار ،لپ اسٹک کے نت نئے رنگ ،نیل پالش لگے ناخن ،لہراتی زلفیں ،بلش آن کے لشکار ے ،جدید فیشن کے ملبوسات کی نمائش کرتی ماڈلز کو دیکھ کر لگتا ہے کہ اصل زندگی تو یہی ہے جو نظر آرہی ہے ۔ساتھ ساتھ ایک غریب ملک کے فائیوسٹار ہو ٹلوں میں ہونے والے فیشن شوز جن میں پیش کیے جانے والے ملبوسات کا تعلق کسی بھی طرح اس ملک کے 90فیصد عوام سے نہیں ۔
۔۔لیکن نہ جانے کیوں پھر بھی نئی نسل کی لڑکیاں صرف ماڈل بن کر ہی دولت اور شہر ت سمیٹنے کے خواب دیکھتی ہیں ؟؟؟ بہر حالاشتہارات میں کئے گئے دعووٴں کو سچ مان کرنا سمجھ لڑکیاں اپناسب کچھ لٹا کرنا مراد واپس گھروں کو لوٹ جاتی ہے اور بقیہ زندگی آرزووٴں کے ماتم میں گزار دیتی ہیں کہ گلیمر کی دنیا میں داخلے کے جو خواب جا گتی آنکھوں سے دیکھے تھے ،وہ سراب ثابت ہوئے ۔
اس شعبے میں قد م رکھنے والی ایسی لڑکیوں کی بھی کمی نہیں کہ جن کے لئے واپسی کی کوئی صورت نہ رہی تو کال گرل بن گئیں بلکہ پھر مجبور اََ اسی جرائم پیشہ گروہ کاحصہ بن کر اپنے جیسی مزید لڑکیوں کو اسی دلدل میں کھینچنے کے مشن کاحصہ بن جاتی ہیں ۔ زیادہ تر واقعات میں ان متاثر ہ لڑکیوں کی طرح اہل خانہ بھی گھر والے بد نامی کے ڈرسے کوئی شکایت ریکارڈ پر نہیں لاتے اور یوں اس گھناوٴ نے دھندے میں مصروف جرائم پیشہ افراد کی ہمت مزید بڑھ جاتی ہے ۔ہمارے ہاں بعض خوش قسمت لڑکیاں ور ندگی اوراستحصال کا شکار ہوئے بغیر بھی کامیاب ہو جاتی ہیں لیکن ان کی تعداد آٹے میں نمک کے برابر ہے ۔

Browse More Articles of Other