Ahmed Aqeel Rubi

Ahmed Aqeel Rubi

احمد عقیل روبی

ان کی تصانیف علم و ادب کے شائقین کی تسکین کا باعث بنتی رہیں گی

بدھ 24 نومبر 2021

وقار اشرف
معروف نغمہ نگار اور شاعر پروفیسر احمد عقیل روبی کو راہی ملک عدم ہوئے 7 برس بیت گئے،وہ 24 نومبر 2014ء کو پھیپھڑوں کے سرطان میں مبتلا ہونے کے باعث انتقال کر گئے تھے لیکن شعر و ادب اور تحقیق کے میدان میں ان کی تصانیف علم و ادب کے شائقین کی تسکین کا باعث بنتی رہیں گی۔6 اکتوبر 1940ء کو لدھیانہ میں پیدا ہونے والے احمد عقیل روبی شاعری‘ناول نگاری‘ترجمہ‘سوانح نگاری‘تنقید اور ڈرامہ نویسی میں منفرد شناخت کے حامل تھے،انہوں نے 30 کے لگ بھگ کتابیں لکھیں۔

جن میں سوکھے پتے،بکھرے پھول‘ملی جلی آوازیں‘آخری شام‘سورج قید سے چھوٹ گیا‘کہانی ایک شہر کی‘بلائی ٹس‘دوسرا جنم‘چوتھی دنیا‘ بنجر دریا‘جنگل کِتھا‘فاہیان‘ساڑھے تین دن کی زندگی‘کھرے کھوٹے‘جناور کتھا‘نصرت فتح علی خان‘کرنیں تارے پھول‘علم و دانش کے معمار‘ایڈی پس ریکس‘میڈیا‘تیسواں پارہ‘نماز‘یونان کا ادبی ورثہ‘دو یونانی کلاسک ڈرامے‘باقر صاحب‘مجھے تو حیران کر گیا وہ‘بولڈ اینڈ بیوٹی فل‘قتیل کہانی‘علی پور کا مفتی اور معزز فاحشہ شامل ہیں۔

(جاری ہے)


ان کی شخصیت اور فن پر ایم فل اور ایم اے کے تھیسز بھی ہو چکے تھے،ان کی وسیع خدمات کے اعتراف میں انہیں 14 اگست 2012ء کو تمغہ امتیاز سے نوازا گیا تھا۔انہوں نے گیت نگاری کے شعبہ میں بھی متعدد سپر ہٹ فلمی نغمے تخلیق کئے۔وہ 2001ء میں ایف سی کالج سے بطور سربراہ اردو ڈیپارٹمنٹ ریٹائر ہوئے تھے ،اُردو کے علاوہ روسی‘فرانسیسی‘ یونانی‘امریکی اور انگریزی ادب پر گہری نظر رکھتے تھے۔

Browse More Articles of Other