ایک کمپنی ڈی این اے ٹسٹ سے فضلہ پھیلانے والے کتوں کے مالک کو پکڑ رہی ہے

Ameen Akbar امین اکبر منگل 22 جنوری 2019 23:53

ایک کمپنی  ڈی این اے ٹسٹ سے فضلہ پھیلانے والے کتوں کے مالک کو پکڑ رہی ہے

دنیا بھر میں عوامی مقامات پر پالتو جانوروں کی پھیلائی گئی گندگی تعفن کا باعث بنتی ہے۔دلچسپ بات یہ ہے کہ پالتو جانوروں کے بہت سے مالکان  اپنے جانوروں کے فضلہ پھیلانے کے الزام کو قبول ہی نہیں کرتے لیکن اب ایک کمپنی سائنسی طریقے سے فضلہ پھیلانے والے کتوں کے  مالکان کا پتا چلا رہی ہے۔ یہ کمپنی اپنے ڈیٹا بیس میں کمیونٹی کے تمام پالتو جانوروں کے ڈی این اے محفوظ رکھتی ہے۔

اگر کسی جگہ پر ٹھکانے نہ لگایا گیا فضلہ ملتا ہے  تو کمپنی ڈی این اے ٹسٹ سے  پالتو جانور اور اس کے مالک کا پتا چلاتی ہے۔
بائیو ویٹ لیبارٹریز (BioVet Laboratories) نے ایک پو پرنٹس (PooPrints) سروس کا اغاز کیا ہے۔ اس سروس کے تحت کمپنی رہائشی علاقوں کے پالتو جانوروں کے ڈی این اے کا ڈیٹا بیس بناتی ہے اور اس کے بعد ٹھکانے نہ لگائے گئے فضلے کو ٹسٹ کر کے پالتو جانور کے مالک کا پتا چلاتی ہے۔

(جاری ہے)

پکڑےئ جانے پر فضلہ ٹھکانے نہ لگانے والے پالتو جانور کے مالک کو 250 ڈالر تک کا جرمانہ کیا جاتا ہے۔ بائیو ویٹ لیبارٹریز اس وقت امریکا، کینیڈا اور برطانیہ میں 3 ہزار سے زیادہ ہاؤسنگ کمپلیکس کے ساتھ کام کر رہی ہے۔
کمپنی کے ساتھ کام کرنے والے ہاؤسنگ کمپلیکس میں جب بھی کوئی نیا رہائشی آتا ہے تو سب سے پہلے ان کےپالتو جانور کا ڈی این اے کا نمونہ لیا جاتا ہے۔

اس کے بعد اگر علاقے میں کہیں پر پالتو جانور کا فضلہ ٹھکانے نہ لگائےجانے کی شکایت ملے تو پراپرٹی منیجر فضلہ کا نمونہ بائیو ویٹ لیبارٹریز کو بھیج دیتا ہے، جہاں سے ڈی این اے کو ڈیٹا بیس سے ملایا جاتا ہے۔ اگر یہ نمونہ علاقے کے پالتو جانور کا ہو تو اس کے مالک کو سینکڑوں ڈالر جرمانہ کر دیا جاتا ہے۔
پو پرنٹس بزنس ڈویلپمنٹ ڈائریکٹر ایرک میئر نے واشنگٹن پوسٹ کو بتایا کہ پہلی بار تو خلاف ورزی کرنے والے ڈی این اے ٹسٹ سے پکڑنے جانے پر غصہ ہوتے ہیں لیکن اس کے بعد ایسا نہیں ہوتا۔

انہوں نے بتایا کہ جنوبی کینرولینا میں ایک کتے کے مالک کو 18 بار فضلہ ٹھکانے نہ لگانے پر جرمانہ کیا گیا ہے، جو اب تک ایک ریکارڈ ہے۔ انہوں نے بتایا کہ ڈی این اے کی درستی اتنی زیادہ ہوتی ہے کہ اب کوئی بھی پکڑے جانا نہیں چاہتا۔
ایرک نے بتایا کہ پوپرنٹس سروس نئی چیز نہیں۔ اس کا آغاز 9 سال پہلے ہوا تھا لیکن لوگ اس سے گھبراتے تھے۔ کچھ لوگ اسے کتوں کی پرائیویسی کی خلاف ورزی قرار دیتے تھے اور کچھ کا خیال تھا کہ کتوں کا ڈی این اے سیمپل دینے سے کمپنی اُن کے پالتو جانور کا کلون بنا لے گی۔

Browse Latest Weird News in Urdu