Chunt Daar Ghere Wala Frock - Article No. 2994

Chunt Daar Ghere Wala Frock

چنٹ دار گھیرے والا فراک - تحریر نمبر 2994

اب تو خیبر پختونخوا کے دیہاتی علاقوں میں شادی بیاہ کے موقعوں پر اکثر خواتین چنٹوں والے گھیر دار فراک اور جیولری پہننے میں فخر محسوس کرتی ہیں

منگل 25 اکتوبر 2022

راحیلہ مغل
آج پوری دنیا کے فیشن میں وقت کے ساتھ ساتھ نمایاں تبدیلی آ گئی ہے تاہم اس کے باوجود پشتون خواتین میں ان کے روایتی ملبوسات آج بھی بہت مقبول ہیں۔اس بے مثال ثقافت نے دنیا کو خیرہ کرکے رکھ دیا ہے،پشتون قوم کی خواتین میں کئی دہائیوں سے اسی لباس کو زیب تن کرنے کی روایت چلی آ رہی ہے۔ان ملبوسات میں تلہ،اون اور ریشم کے دھاگوں کی کڑھائی کی جاتی ہے۔
ان ملبوسات کی تیاری میں موسم کے حساب سے کپڑوں کا انتخاب کیا جاتا ہے جس میں لان،ریشم،سوتی،شیفون اور جارجٹ کے کپڑوں پر کڑھائی کی جاتی ہے۔بلکہ اب تو خیبر پختونخوا کے دیہاتی علاقوں میں شادی بیاہ کے موقعوں پر اکثر خواتین چنٹوں والے گھیر دار فراک اور جیولری پہننے میں فخر محسوس کرتی ہیں۔

(جاری ہے)

پاکستانی پشتونوں میں مردانہ لباس پھیکے رنگ کے اور سادہ ہوتے تھے،لیکن اب یہاں بھی اکثر نوجوان شوخ رنگ کے کپڑے،کشیدہ کاری اور بڑی بڑی شلواریں پہننا پسند کرتے ہیں۔

خواتین کی فراکوں میں سب سے زیادہ رنگ دار فراکیں کوچی قبیلے کی ہوتی ہیں۔پرانے زمانے میں دیہاتی علاقوں کی خواتین شلوار کے پائنچے نہایت تنگ رکھتی تھیں۔جب کہ شہروں کے فیشن ایبل طبقے کی خواتین کھلے پائنچے بناتی تھیں۔یہی فیشن دیگر تمام پشتونوں میں آج بھی عام ہے۔پشاور اور اس کے گرد و نواح میں مردوں اور عورتوں کا روایتی لباس چنٹوں والا گھیر دار فراک ہی ہے لیکن اب شادیوں کی تقریبات میں لہنگا اسٹائل ساڑھیاں گھاگرا چولی اور پشوازیں بھی پہنی جا رہی ہیں۔

عام حالات میں پشتون خواتین فراک کی جو قسم پہنتی ہیں وہ بہت زیادہ چنٹوں والا اور گھیر دار ہوتا ہے اسے Partug کہا جاتا ہے۔کیلاش میں بھی ایسے ہی گھیر دار فراکس ہر عمر کی خواتین پہننا پسند کرتی ہیں۔مرد شلوار قمیضوں کو زیب تن کرتے ہیں اور سر پر پگڑی بھی باندھتے ہیں۔کہتے ہیں کہ جنوبی ایشیا میں مسلمانوں کی آمد سے شلوار قمیضوں کا رواج پڑا یہ 13 ویں صدی کی بات ہے،بے شک دو چار برسوں کا قصہ نہیں۔

ہمارے ہر صوبے کی عوام اس پہناوے کو اپنی ضرورتوں،رسم و ریت اور تقاضوں کے ساتھ پہنتے چلے آ رہے ہیں۔خواتین فراک کے ساتھ چادر،دوپٹے اور شال کے ساتھ پردہ بھی کرتی ہیں اب حجاب اور پردے کی ماڈرن شکلیں بھی نظر آ رہی ہیں اور روایتی لباس دیکھیں تو ہر خطے اور صوبے کی فراکس کے اسٹائل بھی منفرد ہیں مثلاً پنجاب میں انار کلی اور فلورل فراکس بھی بے حد مقبول ہیں۔

پشاور کے بورڈ بازار کو چھوٹا کابل بھی کہا جاتا ہے کیونکہ اس بازار میں زیادہ تر دوکانیں افغانیوں کی ہیں،بورڈ بازار افغانی ملبوسات کا مرکز ہے جہاں پر پختونوں کے روایتی لباس تیار کیے جاتے ہیں۔یہاں مختلف ڈیزائن کے کپڑوں پر کام کیا جاتا ہے،شیفون،لیلن،کاٹن،شہنیل اور ریشم کے لباس پر بھی کام ہوتا ہے۔2 ہزار روپے سے لے کر 80 ہزار روپے تک کے کپڑے یہاں دستیاب ہیں۔
اس کے علاوہ پختون خواتین صدیوں سے کڑھائی شدہ لباس پہنتی آ رہی ہیں۔یہ کشیدہ کاری دنیا میں سب سے مہنگی اور سب سے زیادہ وقت طلب کشیدہ کاری ہوتی ہے۔پختونخوا میں تو اس کی قیمت ہزاروں میں ہے لیکن دوسرے شہروں میں اس کی مالیت لاکھوں روپے میں ہوتی ہے۔پختونخوا میں آج بھی لڑکیاں کشیدہ کاری والی قمیضیں بڑے شوق سے پہنتی ہیں،خاص طور پر شادی بیاہ پر ہر خاتون کی خواہش ہوتی ہے کہ اچھی کڑھائی والے کپڑے زیب تن کرے۔
پختون خواتین ہاتھ کی کڑھائی کے ملبوسات گھر پر ہی تیار کرکے پہنتی ہیں،مگر ہاتھ کی کڑھائی ایک بہت وقت طلب کام ہوتا ہے جس کی تیاری میں تین سے چار مہینے تک لگ جاتے ہیں اس لئے پورے ملک کے بڑے شہروں کی خواتین مشین کی کڑھائی کے ڈیزائن کے کپڑوں کے سیمپل پسند کرکے آرڈر دیتی ہیں۔جو خاصی سستی بھی ہوتی ہے اور کم وقت میں تیار کی جاتی ہے۔کشیدہ کاری ایک مہنگا اور مشکل ہنر ضرور ہے جہاں عام سی باریک سوئی سے کپڑوں پر خوبصورت نقش و نگار بنائے جاتے ہیں اسی وجہ سے پورے پختونخوا سے ہاتھ کی کڑھائی والے ملبوسات پوری دنیا میں فروخت کے لئے بھیجے جاتے ہیں۔

وقت کے ساتھ ساتھ کپڑوں کے ڈیزائن بھی تبدیل ہوتے رہتے ہیں اور زیادہ تر خواتین موسم بدلنے کے ساتھ ساتھ اپنے کپڑے پہننے کے انداز کو بھی بدلنا پسند کرتی ہیں تاکہ وہ بھی وقت کے ساتھ الگ نظر آئیں۔آج کل چنٹوں والی لمبی فراک کا فیشن ہر جگہ چل رہا ہے جس میں پرنٹڈ اور سادی فراک دونوں ہی فیشن میں ان ہیں۔چونکہ اسلامی ملک میں اس طرح کے لباس کو زیادہ پسند کیا جاتا ہے جس کی وجہ سے یہ اسٹائل خواتین کو اتنا متاثر کر رہا ہے کہ بڑے فیشن ڈیزائنر بھی اس قسم کے فراک متعارف کروا رہے ہیں۔
ان فراکس کو سادہ اور کڑھائی کے ساتھ بھی تیار کیا جاتا ہے۔جن میں شیشہ ورک آج کل زیادہ عام ہے۔دراصل شیشہ ورک کے فراک جب مارکیٹ میں آئے تو خواتین کو بہت پسند آئے جس کے بعد ان کپڑوں کا رجحان خواتین میں زیادہ ہونے کی وجہ سے اب مختلف قسم کے نئے ڈیزائن مارکیٹ میں دستیاب ہیں۔آج کل کپڑوں کے گلے دامن میں کڑھائی کا فیشن زیادہ دیکھا جا رہا ہے کیونکہ ان کی خاص بات یہ ہوتی ہے کہ ان کو کسی چھوٹی تقریب میں بھی پہنا جا سکتا ہے اور ان میں بھی کئی قسم کی ورائٹی موجود ہوتی ہیں۔
اب آرگنزا اور لینن کا فیشن بھی بہت مقبول ہے کیونکہ یہ شادی بیاہ اور دیگر تقریبات کے علاوہ بھی پہنا جا رہا ہے۔
دراصل دنیا بھر کی عوام اپنے وطن کی مختلف ثقافتوں کے مطابق طرز زندگی اختیار کرتے ہیں۔ان کے لباس،رہن سہن کے طریقے،رسمیں،ریتیں،تہوار اور عوام روزمرہ کے چلن ان کے خطوں اور ملکوں سے پہچانے جاتے ہیں۔گوکہ دنیا گلوبل ویلج بن چکی ہے اور ہم اپنے روایتی ملبوسات میں بھی قدرے مغربیت کے رنگ اجاگر کرکے جدت طرازی کرنے لگے ہیں۔
مگر اب بھی ہمارے روایتی فراکس،قمیض،لہنگے،غرارے،کرتے،پاجامے،ساڑھیاں،انگرکھے اور پشوازیں پاکستان کی پہچان ہیں۔لیکن یہ پہناوے اب نئے فیشن کے تحت سلوائے جاتے ہیں اور دنیا میں جہاں جہاں پاکستانی آباد ہیں انہیں ذوق و شوق سے پہنتے ہیں۔پاکستان کے چار صوبے ہیں اور آپ جانتے ہی ہیں کہ سندھ،پنجاب،خیبر پختونخوا اور بلوچستان میں علاقائی ثقافتوں کے مطابق لباس پہنے جاتے ہیں۔

Browse More Clothing Tips for Women

Special Clothing Tips for Women article for women, read "Chunt Daar Ghere Wala Frock" and dozens of other articles for women in Urdu to change the way they live life. Read interesting tips & Suggestions in UrduPoint women section.