Libas Saqafat Ka Aaina Dar - Article No. 2125

Libas Saqafat Ka Aaina Dar

لباس ثقافت کا آئینہ دار - تحریر نمبر 2125

ہمارے فیشن روایت سے دور جارہے ہیں

پیر 22 جولائی 2019

ثناء طارق
انسان اور لباس کا بہت پرانا تعلق ہے لباس جسے انسان نے اپنے آپ کو محفوظ کرنے کے لئے بنایا تھا آپ کے تہذیب اور وقار کے علامت ہوتا ہے یہ آپ کی شخصیت اور مزاج کو ظاہر کرتا ہے موزوں لباس کا انتخاب جہاں آپ کی شخصیت کو نکھارتا ہے وہا ں نا مناسب لباس کا انتخاب آپ کی شخصیت کا منفی تاثر قائم ہوتا ہا لباس کے انتخاب میں مختلف عوامل اثر انداز ہوتے ہیں۔

ایک وقت تھا جن انسان کی پہچان اس کے لباس سے ہوتی تھی کیونکہ اس کا لباس اس کے علاقے کو نمایاں کرتا تھا اس کی شدید وجہ شایدیہ بھی ہو سکتی ہے کہ لباس کو ہر علاقے کی ضرورت کے مطابق بنایا جاتا تھا جیسے گرم سرد علاقے کے ملبوسات میں کافی فرق ہوتا ہے اس لحاظ سے پاکستان میں کچھ ملبوسات کو بہت اہمیت حاصل تھی مختلف تہواروں پر مخصوص لباس پہنے جاتے شلوار قمیض پہنی جاتی ہے۔

(جاری ہے)


لیکن اب ایک نیا رواج پروان چڑھ رہا ہے جس کا شکار خاص طور پر ہماری نوجوان نسل ہورہی ہے خاص طور پر تعلیمی اداروں میں جہاں پر یونیفارم کی پابندی نہیں ہے طالب علم وہاں پر ایک نئے ہی کلچر کے رنگ میں رنگے جارہے ہیں درس گاہ جو کہ کبھی درس تدریس کا مرکز ہوا کرتی تھی اب ایک فیشن شو کی طرح نظر آتی ہیں تعلیم کو جہاں اہمیت دینی چاہیے تھی وہاں لباس کو ملحوظ رکھا جاتا ہے جامعات جہاں پرکسی دور میں تعلیمی اور ادبی مقابلے ہوا کرتے تھے ۔

وہاں مہنگے ملبوسات کے مقابلوں نے ان کی جگہ لے لی ہے طالب علم مہنگے لباس پہنتے ہیں اور غور طلب بات تو یہ ہے کہ برینڈز کو بہت اہمیت دی جاتی ہے ان میں مہنگے ملبوسات برینڈز کو ترجیح دی جاتی ہے لباس کے انتخاب میں پہلے مذہبی اور ثقافتی پہلوؤں کو پیش نظر رکھا جاتا ہے اس کے علاوہ بھی بہت سے پہلو لباس کو خریدتے وقت اور پہنتے وقت مد نظر رکھے جاتے ہیں لیکن آج اس دور میں ان سب باتوں کے برعکس ہورہا ہے تو جوان لڑکے اور لڑکیاں ایسے لباس پہننا پسند کرتے ہیں جو کہ کسی لحاظ سے موزوں نہ ہوں لڑکوں میں پھٹے ہوئے کپڑے پہننا فیشن سمجھا جاتا ہے اور لڑکیوں میں لڑکوں جیسے کپڑے پہننا فیشن ہے جو کلچر ہماری یونیورسٹیوں میں نظر آتا ہے وہ ہمارے اسلامی معاشرے اور تہذیب سے بالکل مختلف ہے۔

ہماری ثقافت ہم سے دور ہوتی نظر آتی ہے ہمارے قومی لباس اور ثقافتی ملبوسات کا نام تو اب تک محدود نظر آتا ہے ہو سکتا ہے کچھ عرصہ تک جب کسی بچے سے پوچھا جائے کہ ہمارا قومی لباس کو نسا ہے تو عین ممکن ہے کہ اُس نے وہ لباس دیکھا بھی نہ ہو ہمارے اداروں میں مقامی کلچر اور ایسے ناموں سے وابستہ بہت سے دن منائے جاتے ہیں بہت سی تقاریب منعقد کی جاتی ہیں لیکن طالب علموں کے لئے وہ صرف غیر نصابی سر گرمیوں میں شامل ہے وہ ان سرگرمیوں میں شامل ہوتے ہیں لیکن انہیں ان کی اہمیت سے کوئی غرض نہیں ۔

انہیں اپنی ثقافتی اقتدار اور ان کی اہمیت سے روشنا س نہیں کرایا اور نہ ہی یہ بتایا جاتا ہے کہ اس دور میں جب یہ سب چیزیں ختم ہورہی ہیں تو ہمیں ان کی بقاء کے لئے کیا کرنا چاہئے جس سے ان کا اچھا تاثر قائم ہو اور مذہبی اقدار بھی مجروح نہ ہوں ۔تعلیمی اداروں کو بھی ان غیر صحت مندانہ اور نا مناسب رجحانات کی حوصلہ شکنی کرنی چاہیے یا نہیں؟اس سوال پر طالب علموں کے مختلف خیالات سامنے آتے ہیں اور پتا لگتا ہے کہ بیشتر لوگ یونیفارم نہ ہونے کے حق میں ہیں لیکن اس کے باوجود کچھ طلباء وطالبات ایسے بھی ہیں جو اس بات کو کچھ حد تک سمجھتے ہیں کہ یونیفارم نہ ہونے کی وجہ سے کیا نقصانات ہورہے ہیں اور ہمیں اور ہماری تہذیب کوکون ست مسائل سرپیش ہیں برینڈز ہمارے معاشرے میں عام ہونے کی وجہ سے یونیورسٹیوں میں ایک فرق دیکھنے میں آرہا ہے ۔

کہا جا سکتا ہے کہ یونیورسٹیوں میں دو طرح کے طالب علم ہوتے ہیں جن میں ایک کو ہم برینڈڈ طالب علم کہہ سکتے ہیں ان وجوہات کی بنا پر بہت سے نفسیاتی مسائل بھی سامنے آتے ہیں ۔اچھے طالب علموں کو نمبروں یا ذہانت کی ضرورت نہیں پڑتی ہے جیب کی حالت دیکھنی پڑتی ہے اور دیکھنا پڑتا ہے کہ کیا اس ماحول میں جاکر ان اخراجات کو برداشت کرسکتے ہیں کہ نہیں؟ہمیں اپنے قومی اور علاقائی ملبوسات کو بھی اپنا نا چاہئے اور اس کی حوصلہ افزائی کرنی چاہئے تاکہ یہ ملبوسات ہمارے کلچر کا حصہ بنے رہے ہیں اور ہماری الگ شناخت قائم رہے ان سب باتوں پر سنجیدگی ست غور کی ضرورت ہے تاکہ ہم ایک ایسے معاشرے کوتشکیل دے سکیں جو کہ اپنی تہذیب وثقافت سے گہرا تعلق رکھتا ہو۔

Browse More Clothing Tips for Women

Special Clothing Tips for Women article for women, read "Libas Saqafat Ka Aaina Dar" and dozens of other articles for women in Urdu to change the way they live life. Read interesting tips & Suggestions in UrduPoint women section.