Bachoon Ki Bejaa Khawahishaat Poori Karna Waldeen K Liye Bais E Nidamat Ban Jata Hai - Article No. 2177

Bachoon Ki Bejaa Khawahishaat Poori Karna Waldeen K Liye Bais E Nidamat Ban Jata Hai

بچوں کی بے جا خواہشات پوری کرنا والدین کیلئے باعث ندامت بن جاتاہے - تحریر نمبر 2177

وقت ضرورت سختی سے پیش آنا بھی تربیت کا حصہ

جمعرات 10 اکتوبر 2019

عنبرین ستار
اولاد کی خواہش ہر والدین کو ہوتی ہے۔اولاد کی آرزو یا تمنا کرنا زندگی کی پر اثر حقیقت ہے جس کی بدولت گھر میں خوشی اور چہل پہل میں اضافہ ہوتاہے۔بچوں کی شرارتیں ،کھیل کود اور پھر بچوں کا رونا والدین کے لیے خوشی کا با عث بن جاتاہے۔بچوں کی بدولت گھر میں رونق لگی رہتی ہے ۔بچوں کی پرورش کرتے ہوئے والدین ہزاروں تکلیفیں اٹھاتے ہوئے کٹھن مرحلے سے گزرتے ہیں لیکن ایسے بے شمار دکھ اُٹھا کر والدین کو خوشی اور اطمینان محسوس ہوتاہے۔

بچوں کی بہترین تربیت کرنا ایک مشکل مرحلہ ہے۔والدین کی بروقت اصلاح بچوں کی زندگی میں نکھار پیدا کرتی ہے۔اچھی عادات کامیاب زندگی کا راز بن جاتی ہیں۔بچوں کو عمارت سے تشبیہ دی جائے تو غلط نہ ہو گا ۔اگر کسی عمارت کی بنیاد صبح نہ رکھی جائے تو عمارت کی تعمیر آخر تک خراب رہتی ہے۔

(جاری ہے)


آجکل والدین اپنے بچوں کو زندگی کی ہر آسائش مہیا کرتے ہیں۔

لیکن اخلاقیات کا سبق دینا بھول جاتے ہیں۔شاید اب والدین بچوں کو اخلاقیات کا درس دینا اپنی توہین سمجھتے ہیں اور کہتے ہیں کہ بچے جو کر رہے ہیں انہیں کرنے دو۔عموماً کہا جاتاہے اب وہ وقت نہیں جب بچوں کو روک ٹوک کی جائے ۔بچوں کے بگاڑ میں سب سے بڑا ہاتھ والدین کا ہے۔جب والدین بچے کو روک ٹوک کرتے ہیں تو دادا ،دادی ،نانا ،نانی آڑے آجاتے ہیں،جس سے بچوں کو اور چھوٹ ملتی ہے۔
بچے جو کام کرتے اپنے بڑوں کو دیکھتے ہیں اسی راستے پر چل پڑتے ہیں۔جو گھر کا ماحول ہو گا بچہ سب سے پہلے اس سے متاثر ہوتا ہے۔بچوں کے مزاج کا حصہ ہے کہ وہ چیزوں کو اپنی ملکیت سمجھنا شروع کر دیتے ہیں ۔
خود پر ہونے والی روک ٹوک کسی صورت بر داشت نہیں کرتے۔والدین بچوں کے لاڈپیار میں اس حد تک اندھے ہو جاتے ہیں۔اپنے بچوں کے سواکچھ دکھائی نہیں دیتا۔
اسی انجانے پن میں بھول جاتے ہیں کہ بچے کی تربیت زیادہ ضروری ہے ۔والدین کے اس پیار کی بدولت بچے خود غرض ہوجاتے ہیں۔بچوں کی پر ورش میں والدین کی تربیت کی جھلک نظر آتی ہے ۔پھر ان سارے معاملات میں ماں کاا پنے بچے کو دوسرے پر فوقیت دینا ۔جس سے بچے میں اپنی ذات کو لے کر دوسروں سے برتر ہونے کے اثرات جنم لینا شروع ہو جاتے ہیں۔ہر ایک کی پہچان اور شناخت ہوتی ہے۔

اور ہر بچہ توجہ کا طالب ہوتاہے۔لیکن والدین کا یہ پیار خاص طور پہ ماں کا حد سے زیادہ پیار بچوں کی تخلیقی صلاحیتوں میں رکاوٹ کا باعث بنتاہے۔جیسے جیسے عمر پختہ ہوتی ہے بچوں میں ضد کے ساتھ بد تمیزی بھی نظر آنے لگتی ہے ۔اور اسی بے جالا ڈ کی بدولت والدین کو بچوں کے ضدی پن کی وجہ سے ندامت اُٹھانی پڑتی ہے۔عام طور پر بچوں میں ضد کے اثرات نمایاں نظر آتے ہیں۔
اپنی مرضی کرنا بچوں کی فطرت میں شامل ہوتاہے۔جب بچوں کو شروع سے اپنی مرضی کرنے کی عادت پڑجائے تو اسے یہ احساس ہوتا ہے میری بات کو اہمیت حاصل ہے جو چاہے منوا سکتا ہوں لیکن جب بچے کی مرضی کے برعکس کام ہوتو اس میں ضد کا عنصر نمایاں نظر آنا شروع ہو جاتا ہے ۔کہ اب دھونس سے اپنی بات منواؤں کیونکہ اپنی آزادی کی راہ میں کوئی بھی رکاوٹ نا قابل برداشت بن جاتی ہے۔
من پسند چیزوں کو ہر حال میں حاصل کرنا پسندیدہ مشغلہ بن جاتاہے۔
دیکھتے ہی دیکھتے یہی ضد مزاج کا حصہ بن جاتی ہے ۔وقت گزرنے کے ساتھ جب کسی بات پر روکا جاتاہے تو چڑ چڑ ا پن آجاتا ہے۔کبھی کبھار والدین کو بچوں کے ضدی پن کی وجہ سے ندامت اُٹھانی پڑتی ہے ۔کئی موقعوں پر والدین بچوں کی سرگرمیوں سے لا پرواہ ہوجاتے ہیں۔بچے اگر کچھ غلط کام کرتے دکھائی دیں تو ان کاموں سے چشم پوشی کرتے ہیں ۔
ان باتوں کا یا ایسی منفی عادتوں کا خمیازہ بچوں کو بھگتنا پڑتا ہے۔جب بچہ کسی خواہش کا اظہار کرے تو یہ دیکھنا زیادہ ضروری ہے کہ کی جانے والی خواہش جائز بھی ہے یا نہیں۔ بچوں کی فرمائش پر فوری عمل نہ کریں۔بچے میں انکار سننے کا حوصلہ بھی پیدا کریں۔ بلاوجہ ضد اور ہٹ دھرمی بچوں کی اصلاح کے راستے میں رکاوٹ بنتی ہے۔بچوں کی ضرورت سے زیادہ فرمائشیں پوری کرنا خود سر بناتا ہے۔
بچے کی جائز فرمائش بھی فوری پوری نہ کریں۔اگر ہر چیز فرمائش کرنے پر میسر ہونے لگے تو اسے چیزوں کی قدر نہیں ہو گی ۔
ایسے میں چیزوں کو سنبھال کر رکھنے کی عادت ہو جائے گی۔اس سے بچے میں صبر پیدا ہوتاہے۔جب والدین بچوں کی فرمائش کو فوراً پورا کرنے لگیں تو گھر سے باہر کوئی بھی چیز دیکھ کر ضد کرنا شروع کر دیتے ہیں۔اکثر اوقات بچے اپنی خواہشات کو منوانے کے لیے رونا شروع کر دیتے ہیں۔
ایسے میں کسی صورت بات نہیں ماننی چاہئے کیونکہ بچے اس حربے سے فائدہ اٹھاتے ہیں۔معاشرے کے بگاڑ کی بڑی وجہ بچوں میں اصلاح کی کمی ہے۔بچوں کی جائز اور بنیادی ضروریات پوری کرنا والدین کی ذمہ داری ہے۔بچے کی صلاحیتوں کو اجاگر کرنے کے لیے صحیح سمت کا تعین بہت ضروری ہے۔
بچے کسی بات پر ضد کریں تو ڈانٹ ڈپٹ کرنے کی بجائے توجہ دوسری جانب توجہ مبذول کروائیں۔
اصلاح سے دور فنی ڈرامے یافلمیں بچوں کے ننھے دماغ پر اثر انداز ہوتے ہیں۔کچھ بچے بلا وجہ جھگڑا کرکے اپنی بات منوانا جانتے ہیں۔ ہر جائز وناجائز بات پر جھگڑا کرنے کا وتیرہ اپناتے ہیں۔بچے کی تربیت میں مرکزی کردار ماں ادا کرتی ہے۔بچے کی سیرت اور اخلاق بنانے میں ماں کو خاص اہمیت حاصل ہے ۔اس لیے ماں کی جگہ کوئی دوسرا سمجھا ئے تو بات نا گوار گزرتی ہے۔
بعض اوقات اپنے ہم عمر بچوں میں ناجائز فرمائش کا اظہار کرکے اپنی بڑائی جتلانے کا شوق ہوتا ہے خوامخواہ کی ضد کو تکمیل پر پہنچتا دیکھ کے خوشی محسوس کرتے ہیں۔
بے جا خواہشات شدید نوعیت کی ہوتی ہیں۔جو بچوں کو بے راہ روی کی طرف لے جاتی ہیں۔اخلاق سے عاری بچے جلد بہکنے کا سبب بنتے ہیں ۔ان پر بروقت قابو پانا چاہئے۔ایسے میں بچوں کو کڑی نگرانی کی ضرورت ہوتی ہے بڑھتی عمر کے ساتھ بچے بہت سی غلطیاں کرتے ہیں ۔
انہیں ساتھ ساتھ سمجھانا ضروری ہے ۔اس کا مقصد یہ نہیں والدین بچوں کے لیے مشتعل ہو جائیں یا ایسی سزائیں دیں جس سے بچوں کی شخصیت مجروح ہو ۔زیادہ تر بچوں کاوقت ماں کے ساتھ گزرتا ہے۔بچوں کی خواہش ہوتی ہے کہ باپ کے ساتھ بھی وقت گزاریں ۔
موبائل یا ٹی وی دیکھنے کی بجائے بچوں کو اپنا قیمتی وقت د یں تاکہ بچوں میں خود اعتمادی پیدا ہو سکے۔
بچوں کے ساتھ مختلف سر گرمیوں میں حصہ لیں۔گھرمیں یاگھر سے باہر کھیلوں میں دلچسپی پیدا کریں ۔کمپیوٹر یا موبائل پر حد سے بڑھتی دلچسپی بچوں کے ذہنوں کو زنگ آلود کر دیتی ہے۔بچے موبائل اور لیپ ٹاپ کے لیے والدین سے ضد کرتے ہیں۔کبھی زچ ہو کر بچے کی ضد سے تنگ آکے موبائل تھما دیتے ہیں۔بچوں کی ایسی ضد پوری کرنا والدین کی خود غرضی کو ظاہر کرتا ہے۔
بروقت رہنمائی نہ ملنے پر بچوں پر منفی اثرات پڑتے ہیں ۔نو سے سولہ سال کے عرصہ تک بچوں کو کڑی نگرانی کی ضرورت ہوتی ہے۔بچے کے بننے اور بگڑنے کی یہی عمر ہے۔اس عمر میں والدین اپنی مرضی سے بچوں کو لے کے چلیں تاکہ بچوں میں بات سننے اور کہنا ماننے کا احساس بیدار ہو۔بچے کی تعلیم وتربیت سے متعلق حکمت اور سوچ بچار سے کام لینا چاہئے۔
کتابوں سے دلچسپی بچوں کے تعمیر ی کردار میں مثبت کردار ادا کرتی ہے۔
تفریحی یا اصلاحی پروگرام جو بچوں کی تربیت کے منافی نہ ہو۔بچوں کی ذہنی استعداد کو سمجھتے ہوئے ٹی وی، کمپیوٹر یا موبائل پر تعلیمی مواد کی ویڈیوز دکھائی جائیں بعض اوقات گھر کا ناخوشگوار ماحول بچوں کی مثبت تربیت میں رکاوٹ بن جاتا ہے۔ایسے ماحول میں رہنے والے بچے چڑ چڑے پن کا شکار رہتے ہیں۔بچوں کو اخلاقی درس دینے کےساتھ والدین کی توجہ اور محبت بھی ضروری ہے۔اچھائی اور برائی کی تمیز ضرور سکھائیں۔ بچوں کے ساتھ ضرورت کے تحت سختی سے پیش آنا بھی تربیت کے زمرے میں آتا ہے۔درست روش اپنانے کی ضرورت ہے جو بچوں کی کامیاب زندگی کو بنانے میں مشعل راہ کا کردار ادا کرے گی۔

Browse More Myths About Parenthood - Bachon Ki Parwarish Aur Ghalat Nazriat

Special Myths About Parenthood - Bachon Ki Parwarish Aur Ghalat Nazriat article for women, read "Bachoon Ki Bejaa Khawahishaat Poori Karna Waldeen K Liye Bais E Nidamat Ban Jata Hai" and dozens of other articles for women in Urdu to change the way they live life. Read interesting tips & Suggestions in UrduPoint women section.