Bhalwal Se Wakhnangan Episode 1 ..... Dekhnay Hum Bhi Gaey Thay Pe Tamasha Na Hoa - Article No. 1363

Bhalwal Se Wakhnangan Episode 1 ..... Dekhnay Hum Bhi Gaey Thay Pe Tamasha Na Hoa

بھلوال سے واخننگن قسط 1 ۔۔۔۔ دیکھنے ہم بھی گئے تھے پہ تماشا نہ ہوا - تحریر نمبر 1363

وہ لاہور ایئرپورٹ سے ہی ہمیں اکسا رہا تھا کہ اتوار کو ( Den Haag) ہیگ کے ساحل کی شوریدہ سری اور ولندیزی حشر سامانیوں کی سینہ زوری کا نظارہ کرنے جائیں گے ورنہ بعد میں صرف زور ہی رہ جائے گا اور وہ بھی سرد ہواوٴں کا، باقی سب کچھ مستور ہو جائے گا

Zaheer Paracha ظہیر پراچہ منگل 11 جولائی 2017

ایک ہفتہ دیر سے واخننگن پہنچنے پر ہماری تشویش تو بس اتنی تھی کہ کم از کم ایک ہفتہ زیادہ مصروف گزرے گا مگر انجم کا مسئلہ نصابی سے زیادہ موسمیاتی تھا۔ اس نے شروع سے ہی ایک ہفتے کی دیری کو حرزِ جاں بنا رکھا تھا۔ وہ ایک ماہر سیلزمین کی طرح ہمیں دی ہیگ کے ساحل کی تپتی ریت کی بے لباس رونقیں، بیچ اور ماہر موسمیات کی طرح آنے والے دنوں کی تند خو ہواوٴں سے ڈرا رہا تھا۔
وہ لاہور ایئرپورٹ سے ہی ہمیں اکسا رہا تھا کہ اتوار کو ( Den Haag) ہیگ کے ساحل کی شوریدہ سری اور ولندیزی حشر سامانیوں کی سینہ زوری کا نظارہ کرنے جائیں گے ورنہ بعد میں صرف زور ہی رہ جائے گا اور وہ بھی سرد ہواوٴں کا، باقی سب کچھ مستور ہو جائے گا۔ ہماری آمادگی مشروط تھی نیند اور تھکن کے ساتھ۔ پہلا ولندیزی کھانا زہر مار کر کے رات گیارہ بجے لوٹے تو انجم کہیں سے خبر لایا کہ صبح سات بجے ایک گروپ ساحل سمندر کے جلوے دیکھنے جا رہا ہے۔

(جاری ہے)

ہمیں جانے پر کیا اعتراض ہو سکتا تھا اگر خبر اگلے اتوار کی ہوتی۔ نیند سے بوجھل آںکھوں اور ٹوٹے بدن سے پلنگ تو سینکا جا سکتا تھا آنکھیں نہیں۔ سو کمرے کے باہر لکھ کر لگا دیا "سوئے ہوئے شیر اور تھکے ہوئے پاکستانی کو جگانا خالی از علت نہیں ہوتا اس لئے احتیاط لازم ہے"۔ اب جو سوئے تو جاگ تب آئی جب انجم کی ہُوک سنائی دی۔ باہر نکل کر دیکھا تو انجم گیلری میں ہیگ یاترا سے لوٹنے والے کیوبن کامریڈوں البرٹو، سنتیاگو اور محمود مصری سے ساحل کی تپتی سنہری ریت پر بے نقاب جلد کو وٹامن ڈی کھلاتی اور اسی عالم سرفروشی میں والی بال کھیلتی حشر سامانیوں کا آنکھوں دیکھا حال سن رہا تھا اور اس کا دل بھی عالمِ خیال میں ان کے ساتھ ساتھ اچھل رہا تھا۔
حیران کن بات یہ تھی کہ سب کی نظریں ایک دروازے پر لگی تھیں جیسے انتظار کر رہے ہوں کھل جا سم سم کا۔ دیکھتے ہی دیکھتے دروازہ کھلا اور ایک سُلفے دی لاٹ ورگی بلانڈ مسکراتی باہر نکلی۔ ہُوک تو سب کی نکلی مگر محمود یلا کی ہُوک سب سے بلند تھی، اہرامِ مصر سے بھی بلند۔ یہ علینا تھی، روسی حسینہ، جسے دیکھ کر پہلا خیال یہی آیا کہ مقابلہ سخت ہے۔
اب دیکھتے ہیں کلاس میں جیت کس کی ہوتی ہے، نیند کی یا علینا کی (کلاس کا پرسکون ماحول ہمیشہ سے میرے لئے نیند آور گولی کا کام کرتا رہا ہے) اور یہاں میں اپنے ایک پروفیسر ارشد علی کو یاد کئے بغیر نہیں رہ سکتا جو ایسے مواقع پر کہا کرتے تھے "یار پیاچہ سویا نہ کرو مجھے لیکچر بھول جاتا ہے"۔ اس کے پیچھے وِیرا تھی، ہماری ہم عمر مگر اب بھی ڈُلہے بیروں کا کچھ نہیں بگڑا تھا۔
محمود یلا نے روسی حسیناوٴں سے ہمارا تعارف یوں کروایا جیسے خبردار کر رہا ہو کہ اس کوچے میں قدم رکھنا خالی از خطر نہیں۔ یہ سب ہمارے کورس میٹ تھے۔ محمود مصری تھا اور جوانی کی شوخی اس کی اٹکی اٹکی انگریزی سے ٹپک رہی تھی۔ جلد ہی کھل گیا کہ باقیوں کے ساتھ ہماری بات چیت انگریزی سے زیادہ اشاروں کی بین الاقوامی زبان میں ہوگی۔ سات بجنے والے تھے، سورج ابھی سوا نیزے پر تھا اور یہ سب رات کے کھانے کے لئے جا رہے تھے۔
یہ ہمارے لئے خطرے کی گھنٹی تھی جو ہمارے اگلے چار ماہ کی بے بسی واضح کر رہی تھی۔ ہم تینوں FOBsبھی ان کے ساتھ ہو لئے کیونکہ پہلے ہی ہمارا ناشتہ نیند اور لنچ تھکن کی نظر ہو چکے تھے۔ ٹرے اٹھا کر ہم بھی بھوکوں کی لائن میں لگ گئے۔ ابھی کھانے کا تنقیدی جائزہ لے ہی رہے تھے کہ آواز آئی "کوپن پلیز" گردن گھما کر دیکھا تو ایک لال سُوہی لپ سٹک سے شرابور اور غازے کی تہوں میں مستور ستری بہتری چڑیل ہم سے مخاطب تھی۔
"کیسا کوپن؟" "لگتا ہے نئے آئے ہو۔ چلو آج کھا لو مگر کل کوپن ساتھ لانا ورنہ برت رکھنا پڑے گا"۔ میرے منہ سے بے اختیار نکلا "چنگی لگی ایں سوہنئے"۔ میری بات سمجھنے والوں نے زوردار قہقہہ لگایا تو ماسی نے گھُوری ڈال کر پوچھا "وہاٹ"۔ میرے پاس تو اس کا خاموشی کے علاوہ کوئی جواب نہیں تھا البتہ انجم نے اس کا سلیس ترجمہ کر دیا۔ اب تو ماسی کی خوشی دیکھنے کے قابل تھی۔
یوں لگتا تھا پچھلی نصف صدی سے یہ برطانوی نژاد حسینہٴ ماضیٴ بعید ایسے الفاظ سننے کو ترس رہی ہو۔۔ مارگریٹ کی سرخوشی کو نظر انداز کرتے ہوئے کھانے کی میز کی طرف لپکے تو ہر ڈش کے ساتھ اس کا حسب نسب اور ترکیب و مقدار کی تفصیل منہ چڑا رہے تھے۔ اول تو ہمارے لئے چوائس کم تھی اوپر سے "یہ" یا "وہ" اور مقدار کی حد کی پابندی۔ مٹھی بھر چاول، دو کم سن آلو، مچھلی کا ایک منحنی سا ٹکڑا اور حسبِ اجازت سلاد ڈال کر واپسی کا رخ کیا ہی تھا کہ ایک ماہ رخ نے ٹوٹی پھوٹی اردو میں کہا "اس سے تمہارا کیا بنے گا، ایک مچھلی کا پیس اور لے لو اور اوپر چاول ڈال کر چھپا لو"۔
غیب سے آنے والی اس ہدایت پر عمل کرنے سے پیشتر پیچھے مڑ کر دیکھا تو serverکے لباس میں ایک یونانی حسینہ زیر لب مسکرا دی۔ یە انا تھی جو اگلے چار ماہ سنڈی کے ساتھ مل کر اور مارگریٹ کی آنکھوں میں دھول جھونک کر ہم غریب الوطنوں کی پیٹ پوجا کا خیال رکھتی رہی۔ ہدایت کے مطابق عمل کر کے واپس لوٹے تو مارگریٹ کو کھانے کی سکیننگ کے لئے منتظر پایا۔
اس نے میری پلیٹ پر گہری نظر ڈال کر اور بائیں آںکھ دبا کر سرگوشی کی one piece of fish only but it's OK for you اور بآواز بلند لفظ کو کھینچ کر بولیEnjoy - اس ناز اس انداز پہ مر نہ جاتے اگر حسینہ نصف صدی پیچھے ہوتی یا ہم نصف صدی آگے ہوتے۔ اگلے چار مہینے انجم اور میں نے یہ نسخہ مارگریٹ پر فراخدلی سے استعمال کیا اور اپنی ٹرے سکیننگ کے لئے پیش کرنے سے پہلے بڈھی چڑیل کو باتوں میں لگا لیتے، کبھی اس کے پاوٴ بھر کے بُندوں، کبھی اس کے شوخ رنگ لباس اور کبھی اس کی اچھی صحت اور نظر کی چستی کے حق میں کلمہٴ خیر کہہ دیتے۔
انجم تو خیر کبھی کبھی ایک آدھ عشقیہ جملہ بھی جھاڑ دیتا مگر نتیجے کے خوف سے میں نے اس سے ہمیشہ پرہیز کی۔ ملک البتہ شریف ہی نہیں شریف النفس ثابت ہوا اور ہماری شہ کے باوجود سختی سے Go by the books پر کاربند رہا۔ باوجود اس کے کہ موسم کی خبریں حوصلہ افزا نہیں تھیں، ہم نے انجم کو مایوس کرنا مناسب نہ سمجھا جو پل پل گن کر ویک اینڈ کا انتظار کر رہا تھا۔
ماسی مارگریٹ کی آنکھوں میں دُھول جھونک کر بچائے ہوئے کوپن کے عوض دو دو ریڈی ٹو گو لنچ باکس پوٹلی میں باندھ کر ہفتے والے دن علی الصبح ساحل سمندر کا رخ کیا۔ ہماری توقعات کے عین مطابق ساحل لٹے ہوئے میلے کا منظر پیش کر رہا تھا۔ تند و تیز خنک ہوا میں دو چار پلپلی میموں کے سوا جو شاید اپنی ہڈیوں میں بچی حرارت کی آخری رمق تک نکالنے کی تگ و دو میں مصروف تھیں، پورے ساحل پر seagulls کا راج تھا۔
انجم کی مایوسی کا ازالہ تو ہمارے بس میں نہ تھا البتہ اس کے کوسنے نظر انداز کر کے اور کوئین بیٹرکس کے اورنج محل، قدرت الله شہاب کے پاکستانی سفارتخانہ اور سر ظفر الله کی عالمی عدالت انصاف کا باہر باہر سے نظارہ کر کے ہم نے اپنا رانجھا راضی کر لیا۔ شام سات بجے تین بدھو پھر سے مارگریٹ کے حضور سکیننگ کے لئے حاضر تھے۔

Browse More Urdu Literature Articles