Mahathir Ke Dais Main - Article No. 2108
مہاتیر کے دیس میں (قسط 3 ) - تحریر نمبر 2108
جنوبی ایشیا کی سیاست پر بات ہوئی تو پتہ چلا کہ ڈاکٹر جین اندرا گاندھی کے نام سے آگاہ ہے ۔ پوچھنے لگی کہ کیاپاکستانی سیاست میں بھی خواتین موجود ہیں؟ انتہائی فخر کیساتھ میں نے بتایاکہ ہمارے ہاں ایک خاتون دو مرتبہ وزیراعظم پاکستان منتخب ہوئی
ڈاکٹر لبنی ظہیر پیر 29 جولائی 2019
(جاری ہے)
جنوبی ایشیا کی سیاست پر بات ہوئی تو پتہ چلا کہ ڈاکٹر جین اندرا گاندھی کے نام سے آگاہ ہے ۔ پوچھنے لگی کہ کیاپاکستانی سیاست میں بھی خواتین موجود ہیں؟ انتہائی فخر کیساتھ میں نے بتایاکہ ہمارے ہاں ایک خاتون دو مرتبہ وزیراعظم پاکستان منتخب ہوئی۔ اگر وہ مزید زندہ رہتی، تو یقینا تیسری بار بھی وزیراعظم بن سکتی تھی ۔ بے نظیربھٹو کا نام سن کر ڈاکٹر جین کو جیسے کچھ یاد آ گیا۔ اپنی یاداشت کو کوستے ہوئے کہنے لگی۔۔ ارے ہاں۔ بے نظیر بھٹو کو میں کیسے بھول سکتی ہوں ۔ وہ بڑی شاندار عورت تھی۔ میں نے کہا۔۔ بلا شبہ انتہائی شاندار ۔ اور اسے بتایا کہ اب بے نظیر بھٹو کا بیٹا بلاول اپنی ماں کی سیاسی جماعت کا سربراہ ہے اور ملکی سیاست میں کافی متحرک ہے۔
ڈاکٹر جین اس موضوع پر مزید معلومات چاہتی تھی۔ ایسے موقعوں پر ہمیشہ میرادل چاہتا ہے کہ چودہ سو سال پہلے حضرت خدیجہ کی تجارت (business) سے بات شروع کی جائے اور آج کے دن پر ختم ہو۔ ہم چونکہ سیاست اور جمہوریت پر بات کر رہے تھے، میں نے ڈاکٹر جین کو بتایا کہ اگرچہ پاکستان ایک قدامت پرست ملک ہے۔ تاہم ہماری سیاسی تاریخ بہادر خواتین سے بھری پڑی ہے۔ پاکستان بننے سے پہلے بھی مسلمان خواتین تحریک آزادی کا حصہ تھیں۔ انہوں نے جدوجہد آزادی میں بھرپو ر حصہ ڈالا ۔ گرفتار ہوتی رہیں۔جیلوں میں ڈالی گئیں۔ مگراپنے مقصد سے پیچھے نہ ہٹیں۔۔۔اس زمانے میں بھی ان خواتین کے شٹل کاک برقعے ، چوغے، حجاب اور نقاب ان کی راہ میں حائل نہ ہو سکے تھے۔ میں نے بتایا کہ ہماری ستر سالہ سیاسی تاریخ آمرانہ حکومتوں سے بھری (بلکہ اٹی) ہوئی ہے۔لیکن جب بھی میرے ملک پر کسی غاصب کا قبضہ ہوا ۔ کوئی نہ کوئی بہادر خاتون خم ٹھوک کر میدان میں اتری۔ میں نے محترمہ فاطمہ جناح کا ذکر کیا، جنہوں نے ایوبی آمریت کو للکارا تھا۔ بیگم نصرت بھٹو کا تذکرہ کیا جو اپنے خاوند کی پھانسی (بلکہ عدالتی قتل) کے بعد ضیاء آمریت کے خلاف برسر پیکار رہیں۔ محترمہ بے نظیر بھٹو کی جدوجہد کا حوالہ دیا جو انہوں نے جمہوریت کی بحالی کے لئے کی تھی۔بیگم کلثوم نواز کے متعلق بتایا جنہوں نے آمر وقت پرویز مشرف کو ناکوں چنے چبوا ڈالے تھے۔ عاصمہ جہانگیرکاذکر کیا جو ہر زمانے میں آمریت کے سامنے ڈٹ کر کھڑی رہیں۔
میں نے ڈاکٹر جین کو بتایا (بلکہ جتایا) کہ امریکہ کی تاریخ میں پہلی بار کسی خاتون (ہیلری کلنٹن) نے محض چند سال پہلے صدارتی انتخاب لڑا ہے۔جبکہ پاکستان میں ہم برسوں پہلے اس مرحلے سے گزر چکے ہیں۔ میرے ملک میں ایک بہادر عورت نے 1965 میں صدارتی انتخاب لڑا تھا۔ وہ بھی ایک فوجی حکمران کے خلاف۔ یہ بات سن کر امریکی پروفیسر نے اپنے دونوں ہاتھ فضا میں بلند کیے اور ہنستے ہوئے کہنے لگی۔۔ OK. You win (ٹھیک ہے۔ تم جیت گئی)۔کچھ دیر بعد ڈاکٹر جین نے دریافت کیا کہ وہ کون عورت تھی جس نے پاکستان میں صدارتی انتخاب لڑا تھا اور اس آمر کا نام کیا تھا ؟ میں نے بتایا کہ محترمہ فاطمہ جناح اور فیلڈمارشل ایوب خان۔
اس نے اپنی ڈائری میں یہ دونوں نام لکھے اور کہنے لگی کہ مجھے پاکستانی خواتین کے متعلق تمہاری باتیں سن کر حیرت ہوئی ہے۔ میں ضرور اس موضوع پر کچھ تحقیق کروں گی۔یہ کہہ کر ڈاکٹر جین تو چلی گئی۔ مجھے مگر وہ تاریخ کے کٹہرے میں کھڑا کرگئی۔
میں نے سوچا کہ کاش ڈاکٹر جین کبھی نہ جان سکے کہ ان شاندار عورتوں کیساتھ ہم نے کیسا "شاندار" سلوک کیا ۔کاش اسے کبھی معلوم نہ ہو سکے کہ میرے ملک میں، بانی پاکستان قائد اعظم محمد علی جناح کی لاڈلی بہن محترمہ فاطمہ جناح کو امریکی اور بھارتی ایجنٹ کہا جاتا رہا۔ اسے "غدار" کا لقب دیا گیا۔ ۔۔ "چڑچڑی بڑھیا" کہہ کر پکارا گیا۔ یہ کہا گیا کہ مادر ملت (قوم کی ماں) ہے تو ماں بن کر رہے۔نصرت بھٹو کے ساتھ بھی یہی سلوک ہوا۔ نفاذ اسلام کی گردان کرتے آمرکے دور میں اس نہتی عورت پر ڈنڈے اور لاٹھیاں برستی رہیں۔اسے (بیٹی سمیت) اپنے خاوند کے جنازے میں شرکت اور آخری دیدار سے روک دیا گیا ۔نظربندی کے نام پر برسوں قید تنہائی میں رکھا گیا۔اسلامی دنیا کی پہلی خاتون اور کم عمر ترین وزیراعظم ، بینظیر بھٹو کو کبھی ٹک کر حکومت نہیں کرنے دی گئی۔ اسے سیکیورٹی رسک کہا جاتا رہا۔ اور آخرکار اسے مار ڈالا گیا۔ کلثوم نواز کے ساتھ بھی انتہائی غیر انسانی سلوک ہوا۔اس کے مرض کا مذاق اڑایاگیا۔ اس کی بیماری کو ڈھونگ اور ڈرامہ قرار دیا گیا۔ بستر مرگ پر پڑی اس کینسر زدہ مریضہ کے کمرہ ہسپتال میں خاص طور پر ایک آدمی کو بھیجا گیا تاکہ اس کی تصویریں لا کر اسکے ناٹک کا بھانڈہ پھوڑا جا سکے۔عاصمہ جہانگیر پر غداری کیساتھ ساتھ اسلام دشمنی کے آوازے کسے جاتے تھے۔ نا صرف اسکی زندگی میں بلکہ موت کے بعد بھی۔ اس کی تدفین کے بعد یہ بحث ہوتی رہی کہ اسکی نماز جنازہ پڑھنا جائز تھا بھی یا نہیں۔
اس وقت، میں نے صدق دل سے دعا کی کہ کاش ڈاکٹر جین تمہاری یہ ڈائری کہیں کھو جائے ، جس میں تم نے ان خواتین کے نام لکھے ہیں۔ تم کبھی ان عورتوں کے بارے میں تحقیق نہ کر سکو۔ کبھی وہ برہنہ حقائق نہ جان سکو ، جنہیں یاد کر کے ہم تاریخ سے اپنا منہ چھپاتے پھرتے ہیں۔(جاری ہے)
Browse More Urdu Literature Articles
جب مسجد نبوی کے مینار نظر آئے
Jab Masjid E Nabvi Ke Minar Nazar Aaye
وہ جو طُور ہے بہت دور ہے
Wo Ju Tor Hai Buhat Dour Hai
سفرِ کعبہ
Safr E Kabba
لاہور سے نتھیا گلی
Lahore Se NathiyaGali
کراچی سے کھٹمنڈو : دو دن کا ہوائی سفر
Karachi Se Khatmandu - 2 Din Ka Hawai Safar
قلعہ سِنگھنی، گوجر خان
Qilla Singhni - Gujjar Khan
یادیں سفر حجاز کی۔آخری قسط
Yaadain Safr E Hijaz Ki - Last Qist
کراچی کا سفر - پانچویں قسط
Karachi Ka Safar - 5th Episode
یادیں سفر حجاز کی۔ قسط نمبر 7
Yaadain Safr E Hijaz Ki - Qist 7
یادیں سفر حجاز کی۔قسط 6
Yaadain Safr E Hijaz Ki - Qist 6
سفر حجاز: ایک ہندو جو مدینہ یونیورسٹی اور مسجد نبوی کا معلم بن گیا۔(قسط نمبر 4 )
Safar E Hijaz - Qist 4
کُسک فورٹ، چکوال
Kusak Fort Chakwal