Noor Mahal Bahawalpur Ki Seer - Article No. 2242

Noor Mahal Bahawalpur Ki Seer

نور محل بہاولپور کی سیر - تحریر نمبر 2242

نور محل کی عمارت تقریباً150سال قبل بہاولپور کے نواب صادق محمد خان عباسی چہارم نے سن 1872 میں تعمیر کرنے کا آغاز کیا جو 1875 میں مکمل ہوا۔ نور محل کی تعمیر کے حوالے سے بہت ساری باتیں گردش کرتی ہیں

سید مصعب غزنوی پیر 20 جنوری 2020

بہاولپور کا نور محل انتہائی دلفریب اور پرکشش تاریخی عمارت ہے۔ نور محل کی عمارت تقریباً150سال قبل بہاولپور کے نواب صادق محمد خان عباسی چہارم نے سن 1872 میں تعمیر کرنے کا آغاز کیا جو 1875 میں مکمل ہوا۔ نور محل کی تعمیر کے حوالے سے بہت ساری باتیں گردش کرتی ہیں، جیسا کہ کچھ لوگوں کا کہنا ہے کہ نور محل کی تعمیر نواب نے اپنی بیگم کے لئے کروائی جس کا نام نورجہان تھا۔
اس باعث اس محل کا نام نورمحل رکھا گیا۔ مگر یہ بات کس حد تک صحیح ہے اس کے بارے کچھ نہیں کہا جاسکتا ،بہرحال جس کی وجہ سے بھی بنا کمال بنا۔ اسے دیکھتے ہی آنکھیں ٹھہر جاتی ہیں اور دل اس کی سیر کے لیے بے قرار ہو جاتا ہے۔ نورمحل موجودہ دور میں آرمی کے زیر انتظام ہے جسے ٹکٹ لے کر دیکھا جا سکتا ہے۔

(جاری ہے)


نورمحل وسیع سبزہ زاروں میں کھڑی انتہائی پر کشش عمارت ہے ،جو کہ اسلامی اور مغربی طرز تعمیر کا انتہائی حسین امتزاج ہے ۔

نور محل کے اردگرد سبزہ کی چادریں بچھی ہوئی ہیں، جبکہ اس کے بلکل سامنے دائرے کی شکل کا ایک وسیع لان ہے جہاں کرسی پر بیٹھ کر یہ محل اور بھی حسین لگتا ہے۔ بہاولپور میں موجود دیگر تاریخی عمارتوں میں نورمحل الگ ہی خاصیت اور اہمیت کا حامل ہے اور خود کو ان سب سے منفرد کرتا ہے۔ بہاولپور کا یہ نورمحل پہلے مہمان خانہ کے طور پر استعمال ہوا کرتا تھا جس میں دوسری ریاستوں کے نواب جب بہاولپور کا رخ کرتے تو قیام کیا کرتے تھے۔
دور حاضر کی معروف شخصیات میں سے محترمہ فاطمہ جناح اور ذوالفقار علی بھٹو نے بھی وہاں قیام کیا۔ پاکستان بننے کے بعد نورمحل کچھ عرصہ محکمہ اوقاف کے زیر انتظام رہا جسے بعدازاں آرمی کے حوالے کردیا گیا، اور اب موجودہ آرمی ہی اس کی منتظم ہے۔
محل کی تعمیر اس قدر زبردست انداز میں کی گئی ہے کہ اس میں سورج کی روشنی کے لئے خصوصی راستہ رکھا گیا ہے جہاں سے سورج کی روشنی محل میں داخل ہوتی ہے۔
محل کے مرکزی ہال کے عین اوپری حصہ میں شیشے کی دیوار بنائی گئی ہے جس میں سے سورج کی روشنی محل میں داخل ہوتی ہے۔ اور پھر اس دیوار میں شیشوں کا استعمال انتہائی مہارت سے کیا گیا ہے ،جہاں سے روشنی محل کے ہر کونے تک پہنچ سکتی ہے۔ نور محل کی تعمیر اس قدر خوبصورتی سے کی گئی ہے کہ اس کی سیر کے دوران جی چاہتا ہے کہ بندہ دیکھتا ہی رہے اور اسے محسوس کرتا رہے۔
ایک انتہائی خوبصورت احساس اور تاثر اجاگر ہوتا ہے۔ محل میں موجود فرنیچر مختلف مغربی ممالک سے منگوایا گیا ہے، جن میں برطانیہ ،اٹلی اور فرانس وغیرہ شامل ہیں۔ محل میں مختلف دیواروں پر دیدہ زیب نقش و نگار کے حامل پورٹریٹ اور نواب خاندان کی تصاویر آویزاں ہیں۔ نور محل میں ایک پیانو موجود ہے جو نواب صادق محمد خان پنجم کا ہے، جسے وہ خود بجایا کرتے تھے۔
انہیں پیانو کا شوق تھا جس باعث انہوں نے یہ پیانو جرمنی سے منگوایا اور پھر اسے محل میں رکھا گیا ۔محل کے باہر والے حصے میں ایک کار کھڑی ہے جو کہ اس حوالے سے بھی تاریخی اہمیت کی حامل ہے کہ نوابزادہ صادق خان پنجم اس کار پر ہی حج کے لیے گئے تھے۔
نور محل میں موجود زیادہ تر کمروں کو تالا لگا ہوا ہے بس کچھ کمروں کو سیاحوں کے لیے کھولا گیا ہے، جس میں ترتیب سے فرنیچر لگایا گیا ہے۔
نور محل میں ایک بلیئرڈ روم بھی موجود ہے جس میں بلیئرڈ اور کچھ دوسرا سامان پڑا ہوا ہے۔یوں یہ محل اس بات کو واضح کرتا ہے کہ یہ محل واقعتاً مہمان خانہ ہی تھا نہ کہ کسی نوربیگم کے واسطے بنایا گیا کوئی محل۔
نورمحل اسلامی اور مغربی طرز تعمیر کے باعث نہایت دلکش اور اہمیت کا حامل ہے۔ اس محل کی ہر چیز انتہائی سلیقہ سے تعمیر کی گئی ہے جو محل کی خوبصورتی میں چار چاند لگاتی ہے۔
اور ہاں چاند سے یاد آیا کہ اس کی تعمیر میں رکھے گئے شیشوں کی دیواروں میں سے چاندنی کی روشنی بھی محل میں داخل ہوتی ہے، جو محل کی خوبصورتی اور تعمیر کے فن میں مزید خوبصورتی پیدا کرتی ہے۔ نور محل کے فرش اور چھت کو غور سے دیکھیں تو مشرقی اور مغربی طرز تعمیر عیاں ہوتے ہیں۔ نور محل اپنی طرز تعمیر میں اپنی مثال آپ ہے اگر آپ کا کبھی بہاولپور جانا ہو تو نور محل کی سیر ضرور کیجئے اور اس خوبصورتی کو خود دیکھئے جو کہ دل موہ لینے والی نہایت دلفریب ہے۔

Browse More Urdu Literature Articles