Yeh Hai Changa Manga - Article No. 1967

Yeh Hai Changa Manga

یہ ہے چھانگا مانگا - تحریر نمبر 1967

دنیا کا قدیم اور مصنوعی جنگل چھا نگا مانگا کا نام کیسے پڑا

پیر 18 مارچ 2019

راحت شہناز
یہ دراصل دو بھائیوں کی کہانی ہے ۔جن میں سے ایک کا نام چھا نگا دوسرے کا مانگا تھا ۔یہ دونوں چور تھے اور انگریز حکام سے بچنے کے لئے رات کو ان جنگلوں میں چھپ جایا کرتے تھے۔یہ اپنے انداز کے Fobin Hoodتھے امیروں سے سامان لوٹتے اور غریبوں میں تقسیم کیا کرتے تھے ۔مقامی افراد انہیں ہیروپکارتے تھے۔ان بھائیوں کے نام پر اس جنگل کا نام چھانگا مانگا پڑا جو آج بھی ان ہی کے نام سے معروف ہے اور یہی نام سر کاری ریکارڈ کا حصہ بھی ہے ۔


ابتدا میں یہ جنگل ایک بے نام سا جنگل تھا جہاں قدرتی طور پر چند یر ،بیری اور ون کے درخت اگتے تھے۔پھر1865ء میں لاہور کے نواح میں لکڑی کی سپلائی کے لئے مصنوعی جنگل کے کامیاب تجربے کے بعد 780ایکڑ رقبے پر اس عظیم الشان جنگل کی بنیاد رکھی گئی۔

(جاری ہے)

چھانگا مانگا میں شجر کاری کا باقاعدہ آغاز 1866ء میں کیا گیا اور درختوں کی کٹائی1887ء میں شروع ہوئی بعدازاں نہری پانی کی سہولت مہیا ہونے پر 1886میں یہاں باقاعدہ نہری نظام بنانے کے پروگرام پر عمل شروع کیا گیا۔


یہاں کا شیشم پورے پاکستان میں مشہور ہے کہ اس کی لکڑی بہت مضبوط اور قیمتی تصور کی جاتی ہے ۔
12510ایکڑ رقبے پر پھیلے اس جنگل میں کئی قسم کے درخت موجود ہیں جن میں سمبل ،توت،بکائن،پاپلر،پیپر ،ملری،پھلا ہی،سرس ،تن ،پیپلز ،کیکر گل نشتر ،سلور اوک ،آم اور بانس کے علاوہ چاروں طرف شہتوت کے درخت بھی ہیں۔
سائبیر یا کی یخ فضاؤں سے عارضی طور پر یہاں ہجرت کرنے والے پرندے جو شہتوت کھا کر آتے تھے ان کی بیٹوں سے یہاں چاروں جانب شہتوت کے درخت پھیلتے چلے گئے۔
سیالکوٹ میں آج بھی کھیلوں کے سامان میں استعمال ہونے والی بیشتر لکڑی چھانگا مانگا کے شہتوت کے درختوں سے حاصل کی جاتی ہے ۔
یہاں موجودسفید ے کے درختوں سے ماچس فیکٹری کو لکڑی فراہم کی جاتی ہے ،جبکہ پاپلر اور سنبل کے درختوں کی لکڑی سے دیا سلائی ،پلائی وڈ اور کاغذ تیار ہوتا ہے۔نیز سنبل کے درختوں سے روئی بھی حاصل کی جاتی ہے ۔ملا زمین کے لئے جنگل کے احاطے میں ایک ڈسنپسری ،مکانات اور بچوں کے لئے پرائمری اسکول موجود ہے۔

جنگل نہ صرف لکڑی کی فراہمی کا ذریعہ ہے بلکہ یہ ایک بہترین سیر گاہ بھی ہے ۔1960ء میں یہاں قومی پارک بنایاگیا۔سیاحوں کی بڑی تعداد یہاں آتی رہی لہٰذا ان کی تفریح طبع کے لئے مہتابی جھیل ،چڑیا گھر ،سوئمنگ پول، کشتیاں ،جھولا پل ،مینار پاکستان کا ماڈل ،گراسی پلاٹ ،کرکٹ لان ،بچوں کا پارک ،
اوپن شیڈز اور نشست گا ہیں تعمیر کی گئیں ۔
اس کے علاوہ کئی ریسٹ ہاؤسز بھی بنائے گئے۔بھاپ سے چلنے والی ٹرین آج بھی یہاں چلتی ہے اور نہر کے ساتھ ساتھ سفر کرتی ہوئی گزرتی ہے ۔یہ نہر پورے جنگل کو سیراب کرتی ہے۔
جھولا پل پربیک وقت آٹھ سے زائد افراد کو گزرنے کی اجازت نہیں کچھ آگے بڑھئے تو جھیل کے بیچ پانی میں کھڑے دو منزلہ مہتاب محل کے کناروں پر سدا بہار درختوں کا جھک کر جھیل کے پانی کو چھونا حسین منظر پیش کرتا ہے ۔

جنگلی حیات ایک دلکش خزانہ
جنگلی حیات کی افزائش کے لئے جھیل سے متصل ایک بریڈنگ سینٹر بنایا گیا ہے ۔جس میں نیل گائے ،
ہرن ،اڑیال اور گدھ کے علاوہ مرغے،خرگوش ،تیتر ،بٹیر اور مور بھی دیکھے جا سکتے ہیں ۔مہمان پر ندے تلور یہاں مارچ اور اپریل میں ایشیائی کو چک سے بڑی تعداد میں یہاں آتے ہیں غرضیکہ چھا نگا مانگا پاکستان کی چند اچھی سیر گاہوں میں سے ایک ہے ۔
اور تو اور اگر آپ ریشم کو اصلی حالت میں دیکھنا چاہتے ہیں تو ریشم کے کیڑوں کی افزائش ہوتا بھی دیکھئے ۔کہتے ہیں کہ قرب وجوار کے رہائشی ریشم کے کیڑے پالنے کے شوقین ہیں چونکہ جنگل میں شہتوت کے لا تعداد درخت ہیں جن کے پتوں پر یہ کیڑے پائے جاتے ہیں۔ایک انداز کے مطابق یہاں سے تقریباً چار ہزار من خام ریشم حاصل ہوتا ہے ۔واقعی اس مصنوعی جنگل کے شیشم اور شہتوت کا کوئی مول نہیں ہے ۔

Browse More Urdu Literature Articles