Last Episode - Darde Judai By Shafaq Kazmi

آخری قسط - درد جدائی - شفق کاظمی

ﻋﺪﻥ ﻏﺎﺯﺍﻥ ﺳﮯ ﺳﺐ ﮐﮩﮧ ﺗﻮ ﭼﮑﯽ ﺗﮭﯽ ۔۔۔۔ﻟﯿﮑﻦ ﭘﺮﺳﮑﻮﻥ ﮨﻮﻧﮯ ﮐﮯ بجائے ﻋﺠﯿﺐ ﺑﮯ ﭼﯿﻨﯽ ہورہی تھی ۔۔ﺟﺐ کچھ ﺳﻤجھ ﻧﮧ ﺁﯾﺎ ﺗﻮ ﮔﮭﭩﻨﻮﮞ ﭘﺮ ﺳﺮ ﺭکھ ﮐﺮ ﺭﻭﻧﮯ ﻟﮕﯽ ۔۔۔ ﺍﭼﺎﻧﮏ ﺳﯿﻞ ﻓﻮﻥ وائی بریٹ ﮐﺮﻧﮯ ﻟﮕﺎ ۔۔۔۔ﻏﺎﺯﺍﻥ ﮐﯽ ﮐﺎﻝ ﮨﻮﮔﯽ ۔۔۔ﯾﮧ ﺳﻮﭺ ﮐﺮ ﺟﻠﺪﯼ ﺳﮯ ﺍﭨﯿﻨڈ ﮐﯿﺎ ۔۔۔ﻏﺎﺯﺍﻥ۔۔۔ﻏﺎﺯﺍﻥ ۔۔۔۔۔۔۔
ﺭﻭﺗﮯ ﮨﻮئے ﻭﮦ ﺑﮯ ﺍﺧﺘﯿﺎﺭ ﺑﻮﻟﯽ ﺗﮭﯽ ۔۔۔۔۔ﻣﯿﮟ ﺳﻌﺪ ﺑﻮﻝ ﺭﮨﺎ ﮨﻮﮞ ﻋﺪﻥ ۔۔۔ﮨﻮ ﺳﮑﮯ ﺗﻮ ﺟﻠﺪﯼ ﺳﮯ ہاسپیٹل ﭘﮩﻨﭻ ﺟﺎٶ۔۔۔۔۔
ﺳﺐ ﺧﯿﺮﯾﺖ ﺗﻮ ہے ڈﺍﮐﭩﺮ ۔۔۔۔۔؟؟ﻏﺎﺯﺍﻥ ﭨﮭﯿﮏ ﮨﮯ ﻧﺎﮞ ۔۔۔۔
ﮨﻤﻤﻢ ﺧﯿﺮﯾﺖ ﮨﯽ ﮨﮯ ۔۔۔ﺗﻢ ﺟﻠﺪﯼ ﺳﮯ ﭘﮩﻨﭻ ﺟﺎٶ ۔۔۔ﺳﻌﺪ ﻧﮯ ﻋﺪﻥ ﮐﺎ ﺟﻮﺍﺏ ﺳﻨﮯ ﺑﻐﯿﺮ ﮐﺎﻝ ﮐﺎﭦ ﺩﯼ ﺗﮭﯽ۔

(جاری ہے)

۔۔
ماسی جو دودھ کا گلاس عدن کو دینے آئی تھی۔۔۔۔عدن کو عجلت میں گاڑی کی چابی اٹھاتے اور جاتا دیکھ کر پوچھنے لگی۔۔۔۔چھوٹی بی بی کہاں جا رہی ہیں۔۔۔؟ اس وقت سب خیریت ہے ناں۔۔۔۔؟سب خیریت ہے۔۔بس ایمرجنسی ہے ہاسپٹل جانا ہے۔۔ماما کو بتا دینا۔۔۔شاید واپسی میں دیر ہو جائے۔۔۔۔۔عجلت میں جواب دے کر عدن بھاگتے ہوئے روم سے نکل گئی۔
۔۔۔
یہ عدن بی بی بھی عجیب سی ہے۔۔۔ابھی آئی ہے اب ماں کو بتائے بغیر پھر چلی گئی۔۔۔۔خیر ہمیں کیا۔۔۔جو بھی کرے۔۔۔جب ماں کو اعتراض نہیں تو ہمیں کیا۔۔۔۔ماسی بڑبڑاتے ہوئے عفاف عاید کو بتانے چل دی۔۔۔
########
عدن جیسے ہی آئی سی یو کے پاس پہنچی۔۔۔نرس نے اسے اندر جانے سے روک دیا۔۔۔۔بی بی آپ باہر رکیں اندر نہیں جاسکتی آپ۔۔۔
کیوں نہیں جاسکتی۔۔راستہ دو مجھے ہٹو۔۔۔دور ہٹو۔۔۔۔۔کیا ہوا کیوں کیسا شور ہے۔۔۔؟سعد شور سن کر باہر نکل آیا۔۔۔عدن کو دیکھتے ہی خاموش ہو گیا۔۔اور نرس کو جانے کا اشارہ کیا۔۔۔کیوں بلایا آپ نے۔۔۔؟کک۔۔۔کیا ہوا غازان کو۔۔۔عدن کا دل سوکھے پتے کی طرح لرز رہا تھا۔
آپ نے غازان کو کچھ کہا عدن۔۔۔؟؟۔۔۔عدن جواب دینے کے بجائے۔۔رونے لگی تھی۔
۔
ہم کوشش کر رہے ہیں انہیں بچانے کی۔۔۔ان کی طبیعت اچانک بگڑ گئی تھی۔۔۔اور وہ مسلسل آپ کا نام لے رہے تھے۔۔۔طبیعت نہ سنبھلی تو کچھ بھی ہو سکتا ہے۔۔۔شدید کمزوری اور سر پر لگی گہری چوٹ انہیں قومہ میں بھی لے جاسکتی ہے۔۔وہ اگر خود چاہیں تو زندگی کی طرف واپس آسکتے ہیں۔۔لیکن وہ خود زرا بھی کوشش نہیں کر رہے۔۔۔۔پلیز آپ اندر چلیں۔۔عدن بھاگتے ہوئے۔
۔۔غازان کے پاس آئی تھی۔۔۔۔غازان اُٹھو۔۔۔آنکھیں کھولو۔۔۔دیکھو۔۔۔تمہاری عدن کہیں نہیں جارہی۔۔۔تمہارے پاس ہے۔۔۔۔پلیز۔۔۔۔غازان۔۔۔۔۔عدن کو کسی کی پروا نہیں تھی۔۔اس کی وجہ سے اس کا غازان دوبارہ موت کے منہ میں جا رہا تھا۔۔۔سعد نے سب کو روم سے باہر جانے کا کہا۔۔
لیکن سر ڈاکٹر اسد کچھ کہنے لگا۔۔۔۔بس اب ٹھیک ہو جائے گا غازان۔
۔۔آپ چلے جائیں۔۔۔۔ڈاکٹر اسد کندھے اچکا کر باہر کی جانب چل دیئے۔۔۔۔
سچ کہتے ہیں۔۔ سانپ کے ڈسے کا علاج بھی ممکن ہے۔۔۔لیکن عشق کے ڈسے کا علاج نہیں ہوتا ہے۔۔۔عشق ہی کائنات کا وہ واحد مرض ہے۔۔۔جو جان نکال لیتا ہے۔۔۔زندگیاں اُجاڑ دیتا ہے۔میدان جنگ میں دشمنوں کو مات دینے والے اور جن کی للکار سے دشمن کی روح تک لرز جاتی ہو۔۔۔عشق کے سامنے ان کی حالت ایک ہارے ہوئے جواری کی سی ہو جاتی ہے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔
########
غازان بھی کچھ ایسے ہی حالات سے گزر رہا تھا۔۔۔پانچ سالوں کی لمبی جدائی۔۔۔اس نے ایک زنداں میں رہنے والے لاچار قیدی کی طرح گزاری تھی۔۔۔اب اس میں مزید ہمت نہیں تھی۔۔۔وہ عدن سے دور جاسکتا۔۔۔۔اس نے پانچ سال عدن اور اس کے اہلخانہ کا ہر طرح خیال رکھا تھا۔۔۔۔وہ چاہتا تو کب کا عدن سے نکاح کر لیتا۔۔۔لیکن عدن کی زندگی اذیت میں گزرتی۔
۔۔وہ باپ کی لگائی ہوئی آگ میں جھلس کر مر جاتی۔۔۔لوگوں کے سامنے تو کیا۔۔۔غازان کے سامنے بھی سر اٹھا کر نہ جی سکتی۔۔۔غازان کو یہ سب گوارا نہیں تھا۔۔۔۔عدن کو پانا اس کی زندگی کی سب سے بڑی خواہش تھی۔۔۔لیکن عدن کی خوشیاں اس کی خواہش پر غالب آ گئیں تھی۔۔۔۔لیکن عدن کی بدگمانی نے اس کے وجود کو پارہ پارہ کر دیا تھا۔
غازان خدا کیلئے۔
۔۔۔آنکھیں کھولو۔۔۔تمہیں کچھ ہوا تو تمہاری عدن مر جائے گی۔۔۔آئی ایم سوری غازان۔۔۔۔آئی ایم سوری۔۔۔۔شدت سے رونے کی وجہ سے عدن کیلئے مزید بولنا مشکل ہو رہا تھا۔۔
عدن۔۔۔دیکھو۔۔۔ہارٹ بیٹ نارمل ہو رہی ہے۔۔۔پلکیں بھی لرز رہی ہیں۔۔۔غازان ٹھیک ہو رہا ہے۔۔۔حوصلہ کرو۔۔۔سعد خوشی سے چلاتے ہوئے کہنے لگا۔۔۔۔۔غازان نے اسی لمحے آنکھیں کھولیں تھی۔
۔۔عدن کو اپنے پاس دیکھ کر زیر لب مسکرایا تھا۔۔۔۔اور طمانیت سے دوبارہ آنکھیں بند کر لی تھیں۔۔۔۔اپنے ہاتھ کی گرفت عدن کے ہاتھ پر مضبوط کر لی تھیں۔۔۔اور زیر لب بولا تھا۔۔میری عدن۔۔۔۔۔بہت جلد درد جدائی۔۔۔ختم ہونے والا ہے۔۔۔۔بہت جلد۔۔۔۔
عدن نے دھیرے سے مسکراتے ہوئے۔۔۔اپنا سر غازان کے شانے پر رکھتے ہوئے آنکھیں موند لیں تھی۔
۔اور زیر لب بولی تھی۔۔۔۔ان شا ء اللہ۔۔۔
دور کہیں۔۔۔۔آسمان پر چمکتا چاند ان کے ملن پر مسکرایا تھا۔۔۔۔۔اور ان کو ہمیشہ ساتھ رہنے کی دعا دیتے ہوئے۔۔۔بادلوں میں چھپ گیا تھا۔۔۔۔۔
########
عدن رات گئے گھر لوٹی تھی۔۔۔جیسے ہی اپنے کمرے میں داخل ہوئی۔۔۔بیڈ پر ایک خاکی لفافہ موجود تھا۔۔۔عدن نے عجلت میں لفافہ کھولا۔۔۔۔اس میں موجود کال لیٹر کو دیکھ کر اس کے آنسو ٹپ ٹپ بہنے لگے تھے۔
۔۔۔اس کال لیٹر کے ساتھ ساتھ ایک اور خط بھی موجود تھا۔۔۔۔
عدن بیٹا۔۔۔تمہارے باپ نے جو کچھ کیا۔۔اس کی وجہ سے تم تو کیا تمہاری آنے والی نسلیں بھی آرمی جوائن نہیں کر سکتی تھیں۔۔۔لیکن تم نے اپنی جان پر کھیل کر جن ملک دشمنوں کے خلاف ثبوت اکٹھے کیے اور اپنے دیس کے بچوں کی جان بچائی۔۔۔۔ تمہارا یہ جذبہ اور عشق ہمیں اپنا فیصلہ تبدیل کرنے پر مجبور کر چکا ہے۔
۔۔۔میری بیٹی اب تمہیں افواج پاکستان کا حصہ بننے پر دنیا کی کوئی طاقت نہیں روک سکتی۔عدن اس سے آگے لکھا نہ پڑھ سکی۔۔۔اور سجدے میں گر گئی۔۔۔۔اللہ نے اس کی دعائیں سن لی تھیں۔۔۔۔۔اب وہ ہچکیوں سے رو رہی تھی۔۔۔۔یا اللہ یہ سچ ہے۔۔۔تو جسے چاہے عزت دیتا ہے اور جسے چاہتا ہے۔۔۔ذلت کی گہرائیوں میں ڈال دیتا ہے۔۔۔اے اللہ تیرا شکر ہے۔۔۔تو نے ہمیں ذلت کی گہرائیوں سے نکال کر عزت عطا کی۔
۔۔بیشک تو ہر چیز پر قادر ہے۔۔۔میرے مولا۔۔۔!!عدن کے یہ آنسو خوشی کے آنسو تھے۔۔۔۔اللہ نے اسے نواز دیا تھا۔۔۔۔عزت کے ساتھ ساتھ غازان بھی دے دیا تھا۔۔۔۔اب زیست کے کٹھن سفر میں من پسند ہمسفر کے ساتھ زیست کے باقی دن گزارنے تھے۔۔۔۔اپنے پاکستان کے کیلئے کچھ کرنے اور دشمن کو جلا کر راکھ کرنے میں غازان بھی اس کے ساتھ تھا۔۔۔۔۔اک نیا سفر اس کا منتظر تھا۔۔۔زندگی یکدم حسین ہو گئی تھی۔۔۔طمانیت سے مسکراتے ہوئے۔۔۔وہ دوبارہ رب کے حضور سجدہ ریز ہو گئی تھی۔۔۔۔

                                           ختم شد

Chapters / Baab of Darde Judai By Shafaq Kazmi