Episode 9 - Mann Kay Muhallay Mein By Shakeel Ahmed Chohan

قسط نمبر9 - من کے محلے میں - شکیل احمد چوہان

مکلاوے کے تقریباً دو ماہ بعد بینش اور باسط پہلی بار گاؤں آئے تھے۔ اُسی دن عشال بھی کافی عرصے بعد ماہم سے ملنے اُن کے گھر گئی۔ وہ سیدھی ماہم کے کمرے ہی میں چلی گئی تھی۔ اِس دوران ماہم اور عشال کی چند ملاقاتیں ہوئی، مگر مزمل کے متعلق ماہم نے کبھی کوئی بات نہیں کی تھی۔ اِسی بات کا غصہ عشال کو تھا۔
ماہم نے عشال کو کمرے میں داخل ہوتے دیکھا تو بول اُٹھی:
”تم کیسے آگئی…“ ماہم نے خوش اخلاقی سے پوچھا۔

”جیسے وہ ہر روز آتا ہے “ عشال کے ایک ہی جملے نے ماہم کو چپ لگا دی۔ وہ نظریں جھکائے اِدھر اُدھر دیکھنے لگی۔
” ایسی خراشیں گھاؤ بن جاتی ہیں“میں نے کہا تھا نا۔“ عشال نے یاد دہانی کرواتے ہوئے کہا۔
ماہم نے اپنی کلائی کی طرف دیکھتے ہوئے جواب دیا:
”کوئی گھاؤ…نہیں ہے“ عشال نے دیکھا تو مسکراتے ہوئے کہنے لگی:
”ماہم چوہدری! محبت کے گھاؤ نشان تھوڑی چھوڑتے ہیں…“
”ایسی ویسی کوئی بات نہیں تم غلط سمجھ رہی ہو“ماہم نے سنجیدگی کے ساتھ اپنی صفائی دی۔

(جاری ہے)


”ویری فنی…روزانہ اُسے کھڑکی سے دیکھتی ہو…پر ایسی ویسی کوئی بات نہیں…“عشال نے ہلکا سا طنز کیا تھا۔
”میرا یقین کرو…عشال!!“ ماہم نے زور دے کر کہا۔
”اوکے…فائن…کر لیا تمھارا یقین……Can you explain this to meکیوں دیکھتی ہو اُسے …؟“ عشال نے بغیر کسی لحاظ کے ماہم کو کہہ دیا۔ ماہم گردن جھکائے بیٹھی تھی۔ اُس کی آنکھوں میں نمی آ چکی تھی۔

”ماہم چوہدری!! مجھے تم پر پورا یقین ہے… تم صرف اپنے دل کو یقین دلا دو کہ ایسی ویسی کوئی بات نہیں!!“
”زندگی کے فیصلے دماغ سے کیے جاتے ہیں…دل سے نہیں…“ ماہم نے اپنی طرف سے مدلّل دلیل پیش کی تھی۔
”شٹ اپ…! کسے دھوکا دے رہی ہو… خود کو…یا مجھے…جو تم کہہ رہی ہو…اگر یہ سچ ہے تو …محبت کی اِس کھڑکی کو ہمیشہ ہمیشہ کے لیے بند کردو اور شمعون سے شادی کرلو“ ماہم نے عشال کی باتیں سُنی تو اُس کے آنسو بغیر آواز کے ٹپکنا شروع ہوگئے۔

”زیادہ ایموشنل مت ہو…بی پریکٹیکل…میں سمجھتی ہوں…تمھاری یہ ڈف اینڈ ڈم سی محبت … یہ سوسائٹی نہیں سمجھے گی۔ کوئی دیکھے گا تو کہے گا، لڑکی کی شادی کی عمر ہو گئی ہے اِس کی فوراً شادی کردو ۔وہ بھی پاگلوں کی طرح دو ماہ سے آرہا ہے ۔یہ لو موبائل اور اُسے حقیقت بتا دو“
”کیسی حقیقت…؟“ماہم نے جلدی سے اپنے آنسو صاف کرتے ہوئے پوچھا۔

”یہی کہ تمھاری منگنی ہو چکی ہے“
”یہ تو مجھے بھی پتہ ہے کہ میری منگنی ہو چکی ہے “ماہم نے گھائل آواز کے ساتھ اقرار کیا تھا۔
”پھر مت بنو ایڈیٹ “عشال نے یہ کہا ہی تھا۔ ماہم نے کھُلی کھڑکی کا پردہ پیچھے ہٹایا اور کھڑکی کے پاس پڑی ہوئی ایزی چیئر پر گردن جھکا کر بیٹھ گئی۔ ماہم چند منٹ اُسی حالت میں بیٹھی رہی۔ عشال کی نظریں اُس پر مرکوز تھیں۔
ماہم کچھ کہنا چاہتی تھی پھر اُس نے اپنا ارادہ بدل دیا اور صرف شکایتی نظروں سے عشال کی طرف دیکھا۔عشال اُٹھ کر اُس کے پاس گئی اور معذرت خوانہ انداز میں بولی:
”ماہم…! سوری غصے میں پتہ نہیں کیا کیا کہہ گئی…یار مجھے تمھاری فکرہے۔
I hope you understand my concern “
بند دروازے پر دستک ہوئی ماہم ایزی چیئر سے اُٹھی ڈریسنگ ٹیبل کے شیشے میں خود کو دیکھا اپنے بال سیدھے کیے چہرہ ٹشو سے صاف کیا۔

”کھول دو دروازہ…“ مومنہ نے دروازہ پیٹتے ہوئے آواز لگائی۔ ماہم نے عشال کو اشارہ کیا اُس نے جلدی سے دروازہ کھول دیا۔
”اتنی دیر لگا دی دروازے کھولنے میں“ مومنہ نے اندر داخل ہوتے ہی کہہ دیا۔
”بس کچھ بات کر رہے تھے“ عشال نے جلدی سے جواب دیا۔
”باتیں سننی ہیں تو نیچے آجاؤ… بینش باجی لاہور سے آئی ہوئی ہیں نیچے امّی کے پاس بیٹھی ہیں۔
جب سے آئی ہیں اپنے سسرال کے قصے سنائے جا رہی ہیں۔امّی نے بلایا ہے جلدی آجائیں چائے بنا رہی ہوں۔“ مومنہ نے جاتے جاتے ایک ساتھ کافی ساری باتیں کہہ دیں۔
#…#
”کیا… کیا بتاؤں… مامی جی! بیگم صاحبہ بڑی اچھی ہیں۔ ابھی دس دن پہلے کی بات ہے۔ جو کام والی ماسی تھی نا… اُس نے کام چھوڑ دیا۔ باذلہ کے پرچے ہونے والے ہیں۔
مزمل صاحب اُسے کام نہیں کرنے دیتے۔ خالہ بلقیس سے اتنا کام ہوتا نہیں مجھ سے دیکھ کر رہا نہیں گیا۔ پھر میں شروع ہوئی اور چٹ پٹ سارے کام ختم کر دیئے۔ بیگم صاحبہ نے دیکھا تو ہزار کا نوٹ اور ایک سوٹ اُسی ٹائم انعام میں دیا پھر کہنے لگی :
”بینش اچھا نہیں لگتا کہ تو بیٹھی رہے اور تیری ساس کام میں لگی رہے “
”بینش! یہ بتا…؟ مزمل صاحب کو کیا تکلیف ہے جو باذلہ کو کام نہیں کرنے دیتے۔
عشال نے بینش کی باتوں کے نا تھمنے والے سلسلے کو روکا اور اُسی کے انداز میں اُس سے پوچھا۔
”مزمل صاحب! تو بہت اچھے ہیں جی۔ باذلہ سے چھوٹی بہنوں کی طرح پیار کرتے ہیں۔ کہتے ہیں تمھیں ڈاکٹر بناؤں گا“
”چائے…!“ مومنہ چائے کی ٹرے اُٹھائے کھڑی تھی ۔
”بینش اِسے بتاؤ کہ باذلہ کتنا پڑھتی ہے“ ماہم نے مومنہ کی طرف دیکھتے ہوئے کہا۔ مومنہ نے میز پر چائے کی ٹرے رکھی اور باری باری سب کو چائے پیش کی۔
چائے کے دوران بھی بینش کی باتوں کا نا ختم ہونے والا سلسلہ جاری رہا۔ مریم بی بی نے چائی پی اور نماز پڑھنے چلی گئی مومنہ کو ماہم نے پڑھنے بھیج دیا۔
”تمھارے مزمل صاحب کیسے ہیں…؟“ عشال نے ماہم کی طرف دیکھتے ہوئے بینش کی پھر سے چابی گھما دی۔
”مزمل صاحب تو بڑے اچھے ہیں۔ کام سے سیدھا دوسری منزل پر اپنے کمرے میں…“
”تم گئی ہو اُس کے کمرے میں“ عشال نے بات کاٹتے ہوئے جلدی سے پوچھا۔

”دیکھنا تو چاہتی تھی…پر باسط نے منع کیا ہے۔ صرف باذلہ کو جانے کی اجازت ہے اُن کے کمرے میں“
”ایسا کیا ہے وہاں“ عشال نے اشتیاق سے پوچھا
”پتہ نہیں…باذلہ بتا رہی تھی مزمل بھائی کو بالکل پسند نہیں کہ کوئی اُن کی چیزوں کو ہاتھ بھی لگائے باذلہ نے یہ بتایا تھا اُن کے کمرے کا سارا سامان باہر کے ملکوں کا ہے“
”اچھایہ تو بتاؤ…تمھارے صاحب کو کھانے میں کیا کیا پسند ہے“
”پھل فروٹ اورر ڈرائی فروٹ چاہ اور کوفی بڑی پیتے ہیں“ بینش نے سب کچھ ٹھیک ٹھیک بتایا مگر اس کا تلفظ غلط تھا۔
ماہم جو اب تک خاموش تھی۔ اطمینان سے بولی:
”بینش ! تم نے سب کے بارے میں بات کی، سوائے باسط بھائی کے…“ بینش کا چہرہ کھل گیا باسط کا نام سُن کے بینش چہکتے ہوئے بولی:
”ماہم باجی! باسط کی کیا بتاؤں…وہ تو اتنا اچھا کہ میں بتا ہی نہیں سکتی“
”تم سے محبت کرتا ہے“ عشال نے فوراً پوچھا۔
”بہت محبت کرتا ہے۔ بڑا خیال رکھتا ہے میرا“
”محبت کا اظہار کیسے کرتا ہے ۔
وہ تو بول نہیں سکتا۔“عشال نے دو ٹوک ہی پوچھ لیا۔
”عشال باجی! تم بھی ایوی ہو۔ تمھیں کس نے کہہ دیا محبت بتانے کے لیے بولنا ضروری ہے۔ محبت تو جیسے تختی پر لکھتے ہیں، ویسے ہی بندے کے منہ پہ لکھی ہوتی ہے۔ محبت میں نہ پوچھتے ہیں اور نہ بتاتے ہیں۔ بس اندرو اندر ہی پتہ چل جاتا ہے“
بینش تھوڑی دیر بیٹھی پھر معراج کے گاؤں اپنے میکے چلی گئی۔
ماہم تو ویسے ہی کم گو لڑکی تھی۔ بینش کے جانے کے بعد عشال کو بھی چُپ لگ گئی تھی۔
#…#
”آج تم چپ چپ سی ہو“ حارث نے Whatsapp پر ویڈیو کال کرتے ہوئے عشال سے پوچھا۔
”نہیں ایسی تو کوئی بات نہیں“ عشال نے اپنی دونوں ہتھیلیوں سے اپنے چہرہ صاف کیا۔
”جو محبت میں چہرہ نہ پڑھ سکے وہ محبت کی پرکھشا میں فیل ہو جاتا ہے“حارث نے موبائل پر عشال کے چہرے پر نظریں ٹکاتے ہوئے جواب دیا۔

”کیا تم مجھ سے محبت کرتے ہو…؟“ عشال نے موبائل کی طرف سے گردن موڑتے ہوئے پوچھا۔
”یہ سوال میں نے تم سے کبھی نہیں پوچھا… تم نے پوچھا ہے تو جواب یہ ہے! اپنے دل سے پوچھ لو… تم مجھے اصل بات بتاؤ جس کی وجہ سے تم ڈسٹرب ہو…کم آن عشال! ٹیل می…“
”ڈسٹرب تو ہوں۔ تمھیں کیسے پتہ چل جاتا ہے“ عشال نے شرمائے ہوئے سوال کیا۔
”انسان کا فیس اُس کے اندر کا مِرر ہوتاہے۔
جس میں سب کچھ کلیئر نظر آتا ہے۔ جس بات کی وجہ سے تم ڈسٹرب ہو وہ تم نے مجھے ابھی تک نہیں بتائی“
”بتاتی ہو…مزمل بیگ ہے نا“
”کون مزمل بیگ…؟“
”وہی ماڈل ٹاؤن والا ! بتایا تو تھا“
”یس…یس…آئی نو… کیا ہوا اُسے…کہیں پھر سے تو Exchangeوالا چکر نہیں ہوگیا“ حارث نے عشال کو تنگ کرنے کے لیے شرارت کی۔
”شٹ اپ حارث!“
”تمھاری انگلش تو بڑی بہتر ہو گئی ہے اب تو شٹ اپ کہہ کر چپ کرواتی ہو“ حارث نے بات لگائی ۔

”ارے کہاں… سپوکن انگلش والے ٹیچر کہتے ہیں گھر جا کر انگلش میں بات کرو۔ ابّا امّاں سے کیا بات کروں؟ ماہم سے بات کرتی ہوں تو انگلش کے لفظوں کا استعمال کرتی ہوں۔ آج بینش نے تو بالکل دیسی بنا دیا تھا۔ ایک نئی بوڑھی سہیلی بنی ہے اُن سے بھی اُردو میں ہی بات کرنی پڑھتی ہے“
”بوڑھی سہیلی کون…؟“ حارث کو تجسس پیدا ہوا۔
”مزمل بیگ کی دادی ممتاز بیگم…“
”تم نے مزمل بیگ کی بات شروع کی تھی“
”وہی تو… تم میری سُنتے کہاں ہو بیچ میں ہی ٹوک دیتے ہو بات کہاں سے کہاں نکل جاتی ہے۔
“ عشال نے اکتاہٹ سے کہا۔
”تم بات کرو میں بیچ میں نہیں بولوں گا… پرامس“
”دو ماہ پہلے مزمل بیگ بارات کے ساتھ آیا۔ اُسے ماہم سے محبت ہوگئی۔ ماہم کو بھی اُس سے محبت ہے پر وہ مانتی نہیں۔ وہ ماڈل ٹاؤن سے روزانہ معراج کے پچھلے دو ماہ سے آرہا ہے۔ فجر کی نماز کے بعد ایک نظر اُسے دیکھتا ہے اور چلا جاتا ہے۔ تمھیں پتہ تو ہے، ماہم کی منگنی شمعون سے طے ہے۔
جو وہ توڑنا نہیں چاہتی، کہتی ہے اپنے ابّو کی زبان کا پاس رکھوں گی۔ میں چاہتی ہوں کسی بھی طرح مزمل اور ماہم کی شادی ہو جائے جائز یا ناجائز کسی بھی طریقے سے“
”تم یہ کیوں چاہتی ہو…؟“
”ماہم کے لیے…شاید مزمل کے لیے۔ میں چاہتی ہوں میرے ماں باپ کی وجہ سے جس محرومی میں اُس نے زندگی گزاری ہے اُس کا ازالہ ہو سکے۔ میرے ماں باپ نے اُس کے ساتھ اچھا نہیں کیا“
”وہی کچھ اُس کے پیرنٹس نے تمھارے ساتھ بھی تو کیا تھا۔

”مجھے تو امّاں ابّا نے اتنا پیار دیا کہ اپنے ماں باپ سے نفرت سی ہو گئی ہے مجھے“
”میں کچھ کہوں…“
”کہو…!“
”عشال! دیکھو تم گلٹی فیل مت کرو تم نے مزمل کے ساتھ کوئی زیادتی نہیں کی ہے۔ جہاں تک ماہم ا ور اُس کی شادی کا سوال ہے اُسے وقت پر چھوڑ دو۔ تمھارے قصوں میں اپنی لو اسٹوری تو گم ہو گئی ہے۔ میں جون میں آرہا ہوں حکیم صاحب کو بتا دینا۔ نکاح کرکے ہی واپس جاؤں گا۔“

Chapters / Baab of Mann Kay Muhallay Mein By Shakeel Ahmed Chohan