Episode 10 - Mann Kay Muhallay Mein By Shakeel Ahmed Chohan

قسط نمبر10 - من کے محلے میں - شکیل احمد چوہان

”چوہدری جی! بیٹی کے ہاتھ پیلے کر دو اِس کے لچھن ٹھیک نہیں ہیں“ شاہدہ بی بی چوہدری شمشاد سے فکر مندی کے ساتھ مخاطب ہوئی۔
”نا ہوا کیا ہے شاہدہ !!“ چوہدری شمشاد نے حقے کا کش لگاتے ہوئے دھوئیں کے غبارے ناک اور منہ سے نکالتے ہوئے پوچھا۔
”جب دیکھو اُس خصماں نو خانے پوٹے والے موبائل پر ٹھونگے مارتی رہتی ہے“
”دھی نمانی ہے کھیڈن دے چار دیہاڑے … مجھے بھی فکر ہے۔
میں نے ملکوال میں ایک لڑکا دیکھا ہے اپنی شمائل کے لیے۔ لڑکے کا شیلر ہے“ چوہدری شمشاد نے حقے کی نلی رکھی اور اپنی وہیل چیئر چلاتا ہوا، اپنے پلنگ کے پاس پہنچا۔ شاہدہ بی بی نے دیکھا تو فوراً اپنے پلنگ سے اُتری اور چوہدری شمشاد کو پلنگ پر لٹانے میں مدد کی۔
”چوہدری جی! ایسے ہی ہاں مت کر دینا میں نے لڑکا دیکھنا ہے۔

(جاری ہے)

شمعون کا رشتہ بھی خود ہی طے کر دیا تھا“
”مقدر والا ہے تیرا بیٹا جو ماہم جیسی لڑکی اُس کی زندگی میں آئے گی“
”ہاں جی بڑے مقدر ہیں ! کہیں سے لگتا ہے زمینداروں کی دھی ہے۔

ذات ملوک نہیں ریت ملوک ہوتی ہے۔ چوہدری جی! آپ کے بھائی اور بھابھی نے کڑیوں کو پڑھائی ہی کی طرف لگائے رکھا۔ دس بندوں کا کھانا پکانا پڑ جائے تو دونوں بہنوں کو موت پڑجاتی ہے“
”شاہدہ سمجھا کر ماہم کے ساتھ 5مربعے زمین بھی تو آئے گی پتر ہی ایک تھا ورنہ میں تو چھوٹی کو بھی باہر نا جانے دیتا“
”شوکی بتا رہا تھا مہر سعید کی بہن ہے سمبل ! میاں چنوں میں نانکوں کے گھر رہتی تھی۔
پورے چھ مربعے ہین اُس کے نام پر مجھے تو اپنے شمعون کے لیے وہ پسند ہے“
”شاہدہ بی بی ! تیری تو ماری گئی ہے مت۔ میں نے سنا ہے وہاں کسی لڑکے کے ساتھ پکڑی گئی تھی۔نانی نے ہاتھ جوڑ کر واپس بھیجی ہے۔“
”چوہدری جی! ایسے ہی آوائی ہے۔ کوئی ایسی ویسی بات نہیں۔ میاں چنوں میں اپنی مجیدہ رہتی ہے، اُس سے میں نے سب پتہ کروایا ہے“
”بلّے وئی بلّے شاہدہ بی بی ! تیریاں پھرتیاں ،ایک بات کان کھول کے سُن لے تو … شمعون کی شادی صرف اور صرف ماہم ہی سے ہوگی۔

#…#
ابّے نے ملک وال میں میری شادی طے کر دی ہے“ شمائل نے منہ بناتے ہوئے ستارہ کو اطلاع دی۔
”یہ تو خوشی کی بات ہے… تیرے منہ پر یہ بارہ کیوں بجے ہیں“ ستارہ نے پوچھا۔
”میں تو مزمل بیگ سے محبت کرتی ہوں… وہ بھی مجھ سے شادی کرنا چاہتا ہے۔“ شمائل نے اپنی پریشانی بتائی۔
”ایسا مزمل نے خود کہا کہ وہ تم سے شادی کرنا چاہتا ہے۔
“ ستارہ کو تعجب ہوا تھا، شمائل کی بات سن کر۔
”فیس بک والے مزمل بیگ نے۔ میں اِس فیکٹری والے کی بات نہیں کر رہی…“
”اچھا اچھا … فیس بک والا مزمل…شکر کرو بیوقوفوں کے سر پر سینگ نہیں ہیں…“
”تم میرا مذاق اُڑا رہی ہو۔“ شمائل نے منہ پھلاتے ہوئے گلے کے انداز میں کہا۔
”میں دیکھنا چاہتی ہوں…تمھارا مزمل…“ ستارہ نے جلدی سے کہا۔
شمائل اُٹھی اپنے کمرے سے باہر جھانکا دروازہ بند کیا اور اپنے موبائل پر مزمل کی تصویر ستارہ کو دکھائی۔ ستارہ نے تصویر دیکھنے کے بعد پوچھا :
”جس سے تمھارا رشتہ ہوا ہے اُس کی بھی کوئی تصویر گھر والوں نے تمھیں دکھائی ہے۔“ شمائل نے اثبات میں سر کر ہلایا اور سامنے شوکیس سے ایک تصویر نکال کر ستارہ کے سامنے کر دی۔
اُدھر ستارہ کی نظر تصویر پر پڑی ساتھ ہی شمائل کی زبان چل پڑی:
”شرافت حسین نام ہے اِس کا۔
ملکوال میں شیلر ہے۔ دو بڑی بہنیں تھیں، اُن کی شادیاں کر دی ہیں۔ باپ مر چکا ہے۔ گھر میں ماں بیٹا دو ہی جی ہیں“
”میری بات مان اور جلدی سے شراف کو قبول کر لے…“
”اپنے مزمل کو دیکھا ہے نمونہ لگتا ہے شرافت کے سامنے فیس بُک کھول اور جلدی سے اپنے مزمل کو ان فرینڈ کر اور شرافت کو سرچ کرکے فرینڈ ریکوسٹ بھیج دے اور ساتھ ہی میسج بھی کردے تمھاری منگیتر شمائل !“
”مگر ستارہ میرا شروع سے خواب تھا۔
میرا منگیتر عشال کے منگیتر کی طرح ہو یا پھر فیکٹری والے کی طرح یہ تو عام سی شکل و صورت کا ہے۔ ابّے کو مجھ سے پوچھنا تو چاہیے تھا۔ میں تو شرافت سے بہت ہی خوبصورت ہوں جوڑ تو برابر کا ہونا چاہیے جیسے عشال اور حارث …“
”تو عشال اور حارث کو مت دیکھ ۔ اپنے بھائی شمعون اور ماہم کو دیکھ کیا وہ برابر کا جوڑ ہے…؟ تو ماہم سے زیادہ خوبصورت تو نہیں ہے۔
مقبول حسین تیرے بھائی سے کہیں زیادہ خوبصورت ہے۔ میرا تو مشورہ ہے شرافت سے شادی کر لے آگے تیری مرضی“
”مگر …وہ…“شمائل نے سوچتے ہوئے اتنا ہی کہا تھا ۔ستارہ نے جلدی سے اُس کی بات کاٹ دی اور کہنے لگی :
”اگر مگر چھوڑو… تو ابھی تک ڈگر سے ہٹی نہیں…ہاں کردے۔! میری بڑی ماسی ایک دن کہہ رہی تھی اپنے سے کم سوہنے بندے سے شادی ہو جائے تو بندہ ساری حیاتی تابعداری کرتا ہے۔

”ستارہ تو میری بات تو سُن…مقبول کی ماں اگلے مہینے کی تاریخ مانگ رہی ہے۔“ شمائل نے ستارہ کو جھنجوڑتے ہوئے اپنی بات سنائی۔
”میں تو کہتی ہوں … اگلے مہینے کی بجائے اگلے ہفتے شادی کا کہیں تو پھر بھی انکار مت کرنا۔ آج بڑھیا مر گئی…توکل تو گھر کی اکیلی مالکن۔ شمائل میں جا رہی ہوں۔ امّی نے بڑی مشکل سے آنے دیا تھا۔“ ستارہ وہاں سے چلی گئی۔
شمائل کسی گہری سوچ میں تھی اُس نے منہ میں کہا :
”اگلے مہینے کی بجائے…اگلے ہفتے…؟“
#…#
دن ہفتوں میں اور ہفتے مہینوں میں بدلنے لگے۔ مزمل کی روٹین میں کوئی فرق نہیں آیا۔ موسم بدلا مگر مزاج نہیں بدلا۔ سردی کے بعد خزاں پھر بہار بھی آکے چلی گئی۔ گرمی اپنے پورے جوبن پر تھی باذلہ اور مومنہ کے سیکنڈ ایئر کے امتحان ہو چکے تھے۔

شمائل کی ملکوال میں شادی ہوگئی تھی۔ باسط اور بینش ننھے مہمان کے آنے کی خوشی میں دن گِن گِن کر گزار رہے تھے۔
حارث مانچسٹر سے عشال کے ساتھ نکاح کے لیے آگیا تھا۔
حارث اور عشال کے نکاح سے ایک دن پہلے حکیم صاحب جمعہ پڑھنے کے لیے نکلنے ہی لگے تھے کہ اُنہیں اچانک عشال کا خیال آیا تو وہ گھر کے بیرونی دروازے سے پلٹ کے عشال کے کمرے میں گئے۔
عشال اُس وقت کپڑے استری کر رہی تھی کمرے کا دروازہ کھُلا ہی تھا، پھر بھی حکیم صاحب نے عشال سے کمرے میں داخل ہونے کی اجازت مانگی:
”عشال بیٹی! اندر آسکتا ہوں…“
”ابّا!! آپ بھی نا…آپ کیوں مجھ سے اجازت مانگتے ہیں … “ عشال نے شکایتی انداز میں کہا۔
”جہاں اجازت مانگی جائے… یا اجازت دے دی جائے وہاں بغاوت نہیں ہوتی…“ حکیم صاحب نے ٹھنڈی سانس بھرتے ہوئے بتایا۔

”بغاوت…! میں سمجھی نہیں…“ عشال نے حیرانی سے پوچھا۔ استری کرتے ہوئے اُس کے ہاتھ رُک گئے تھے۔ اُس نے سوالیہ نظروں سے حکیم صاحب کو دیکھا۔
”کبھی بتاؤں گا…بغاوت کے بارے میں بھی…ابھی تم یہ بتاؤ…کچھ اور تو نہیں منگوانا شہر سے…میں جمعہ پڑھنے جا رہا ہوں۔“حکیم صاحب نے حلیمی سے پوچھا۔
”ابّا! مجھے تو کچھ نہیں چاہیے…امّاں سے پوچھ کر آتی ہوں۔
“ عشال نے استری کا پلگ نکالتے ہوئے کہا تھا۔
”تمھاری امّاں سے میں پوچھ چُکا ہوں…“ حکیم صاحب یہ کہتے ہوئے عشال کے پاس آگئے، اُس کے سر پر شفقت سے ہاتھ رکھا پھر بولے:
”کوئی خواہش جو میرے بس میں ہو…“
”ایک خواہش ہے…میں اپنی ایک سہیلی کو نکاح پر بلانا چاہتی ہوں“
”مریم بہن کو میں نے کہہ دیا ہے۔“ حکیم صاحب نے اطمینان سے جواب دیا۔

”ابّا! میں دادی ممتاز کی بات کر رہی ہوں وہ بھی ہیں میری سہیلی…!!“ حکیم صاحب نے گہری نظروں سے عشال کو دیکھا۔ عشال کی آنکھوں میں سچائی تھی۔ اُس نے حکیم صاحب سے آنکھیں ملاتے ہوئے بڑے ادب سے عرض کی:
”ابّا! آپ نے خود مجھے ماڈل ٹاؤن بھیجا تھا، آپ کے کہنے پر ہی میں نے اُن سے ملاقات کی تھی۔ دو باتوں کا میں نے آپ سے ذکر نہیں کیا اُس کے لیے مجھے معاف کر دیں۔

حکیم صاحب نے آنکھوں کے اشارے ہی سے سوال پوچھ لیا۔
”میں اُن سے موبائل پر اکثر بات کرتی ہوں“ عشال نے یہ کہا اور گردن جھکا لی۔ حکیم صاحب اب بھی اُس کے چہرے کو دیکھ رہے تھے۔
”دوسری بات…؟“ حکیم صاحب نے تشویشی انداز سے پوچھا تھا۔ عشال نے یہ سُنا تو لوہے کی سیف الماری سے ممتاز بیگم کا دیا ہوا کنگن نکال لائی۔
”یہ دادی ممتاز نے مجھے دیا تھا میں نے امّاں کو اُسی دن اِس کنگن کے بارے میں بتا دیا تھا۔
آپ کو بتانے سے ڈرتی تھی۔ ابّا آپ کی قسم میں یہ نہیں لینا چاہتی تھی اُن کے خلوص اور محبت کے آگے میری ایک نہیں چلی“ عشال حکیم صاحب کویقین دلانے کی کوشش کر رہی تھی۔ حکیم صاحب نے عشال کو گلے لگا لیا اور جذباتی انداز میں بولے:
”عشال بیٹی! مجھے تم پر فخر ہے…تم اپنی سہیلی کو بلا لو مجھے کوئی اعتراض نہیں ہے۔“ حکیم صاحب نے یہ کہا اور چل دیئے، کمرے کے دروازے میں پہنچ کر وہ رُکے اور مڑ کر عشال کو دیکھا۔
”ابّا !! آپ میرے کمرے میں بغیر اجازت کے آئیں گے تو مجھے زیادہ خوشی ہوگی۔“ حکیم صاحب چمکتی آنکھوں کے ساتھ جذباتی مسکراہٹ کو دبائے وہاں سے چلے گئے۔

Chapters / Baab of Mann Kay Muhallay Mein By Shakeel Ahmed Chohan