Episode 21 - Mann Kay Muhallay Mein By Shakeel Ahmed Chohan

قسط نمبر21 - من کے محلے میں - شکیل احمد چوہان

دیکھتے ہی دیکھتے ایک ہفتہ بھی گزر گیا۔ بارات سے ایک دن پہلے مزمل نماز پڑھ کر نکلا۔ وہ کھڑکی میں کھڑی تھی مرجھائے ہوئے سرخ گلاب کی طرح۔ اُس دن اُس کی آنکھوں میں اُداسی تھی۔ خاموشی تھی۔ اُس کی آنکھوں میں کوئی عبارت نہیں تھی جسے مزمل پڑھتا۔ صرف ہجر کے سندیسے تھے۔ مزمل نے ایک نظر دیکھا اور چل دیا۔
وہ ماسٹر محمود کے دروازے کے آگے سے گزر رہا تھا ایک آواز نے اُس کے قدم روک لیے :
”بیٹا اندر آجاؤ…!“ مریم بی بی نے ارد گرد کا جائزہ لیتے ہوئے مختصر بات کی اور دروازے سے اندر ہوگئی۔
گلی میں کوئی نہیں تھا۔ مزمل شش و پنج میں مبتلا تھا۔ لمحہ بھر اُس نے سوچا پھر وہ بھی دروازے سے گھر کے اندر چلا گیا۔
”بیٹھو بیٹا…! مریم بی بی نے ڈرائنگ روم میں مزمل کو بٹھایا۔

(جاری ہے)

مزمل جھجکتے جھجکتے بیٹھ گیا۔
”کل رات کو ماہم کی بارات ہے۔ آج پچھلے ٹائم مہمان آنا شروع ہو جائیں گے۔ کچھ مہمان رات کے آچکے ہیں۔ اُنھیں میں نے گاؤں والی حویلی میں ٹھہرایا ہوا ہے۔

کل سے تم یہاں نہیں آؤ گے۔” مریم بی بی نے تفصیل بتانے کے بعد فرمان جاری کیا۔
”کیوں؟“ مزمل نے اعتماد سے نظریں ملا کر پوچھا۔
”اس لیے کہ کل سے وہ کھڑکی ہمیشہ ہمیشہ کے لیے بند ہو جائے گی۔“ مریم بی بی نے سخت لہجے میں جواب دیا۔
”حاضری میں دیدار کی شرط نہیں ہوتی۔“مزمل نے موٴدب ہو کر کہا ۔
”ادب والے حکم عدولی نہیں کرتے۔“ مریم بی بی نے کرخت لہجے میں بتایا۔

”بے وفائی کے علاوہ سب حکم مانوں گا۔“ مزمل نے عاجزی سے اپنی بات کی۔
”وفا کا دم بھرنے والے محبوب کو بدنام نہیں کرتے۔“مریم بی بی نے دانت پیستے ہوئے اپنی سنائی۔
”اُس کی بدنامی نہ ہوئی ہے…نہ ہوگی…یہ میرا وعدہ ہے۔“ مزمل نے یقین دلانے کی کوشش کی۔
”کب تک یہاں آتے رہو گے؟“ مریم بی بی نے روکھے لہجے میں پوچھا۔
”اب تو میں یہاں سے جانا ہی نہیں چاہتا۔
سوچ رہا ہوں یہیں شفٹ ہو جاؤں۔“ مزمل نے لرزتی آواز میں اپنے دل کا حال سنایا۔
”کس لیے؟“مریم بی بی نے برہمی سے کہا۔
”تاکہ اُس کھڑکی کو دیکھتا رہوں۔ مزمل نے دھیمی آواز میں عرض کی۔
”بند کھڑکی کو دیکھنے کا فائدہ؟“مریم بی بی نے طنز کیا۔
”محبت میں فائدہ نقصان نہیں دیکھا جاتا۔“ مزمل نے دُکھی آواز میں کہا۔
”اب تو ہر چیز میں فائدہ نقصان دیکھا جاتا ہے“ مریم بی بی نے طنزیہ مسکراہٹ کے ساتھ بتایا۔

”میں تاجر ہوں صرف تجارت میں فائدہ نقصان دیکھتا ہوں محبت میں نہیں۔“ مزمل نے اپنی صفائی دی۔
”کرتے تجارت ہو اور باتیں محبت کی“مریم بی بی نے طنز کیا۔
”محبت کے ساتھ تجارت کرتا ہوں…تجارت سے محبت نہیں کرتا…“مزمل نے آنکھیں ملاتے ہوئے اطلاع دی۔
”باتیں اچھی کر لیتے ہو…“ مریم بی بی نے طنز کے ساتھ تعریف کی۔
”محبت نے سکھا دی ہیں۔
“ مزمل نے دل پر پتھر رکھ کے مسکراتے ہوئے کہا ۔مریم بی بی کو مزمل کی مسکراہٹ پر تھوڑا سا غصہ آگیا وہ غصے میں بولی:
”دیکھو مزمل صاحب !!ہم نے محبت محبت کافی کھیل لی۔ اب حقیقت کی دنیا میں واپس آجاؤ۔ میں نے کہانا کل سے تم یہاں نہیں آؤ گے…بس!“مریم بی بی نے گھن گرج کے ساتھ اپنا فیصلہ سنا دیا۔
”آپ ماں بن کر حکم دیں گی تو میں مان لوں گا۔
اگر چودھرائن بن کر کہیں گی تو …“مزمل نے شائستگی سے کہہ دیا۔
”تو کیا…؟!“ مریم بی بی نے تیور دکھاتے ہوئے پوچھا۔
”تو کچھ نہیں…“ مزمل پھر اُسی طرح مسکرا دیا۔
”تم مجھے سمجھتے کیا ہو…؟“ مریم بی بی نے گھوری ڈالتے ہوئے پوچھا۔
”اُس کی ماں…اور اپنی ماں جیسی …نہیں نہیں…آپ کو اپنی ماں مانتا ہوں“مزمل کو نمل حیدر کی بات یاد آگئی تھی۔
اُس نے مریم بی بی کا اقبال بلند کرتے ہوئے اَدب سے کہا تھا۔
” یہ اُس…!اُس…کیا لگا رکھی ہے…اُس کا ایک نام بھی ہے…وہ کیوں نہیں لیتے…؟“مریم بی بی نے ٹٹولتی نظروں سے دیکھتے ہوئے پوچھا۔
”اُس کا نام صرف دعا میں لیتا ہوں۔۔”مزمل نے اُلفت کے ساتھ بتایا۔
”دعا میں کیوں… لیتے ہو اُس کا نام“ مریم بی بی نے حق جتاتے ہوئے پوچھا۔
”اِس کے لیے کہ دعا کرنے کے لیے آپ کی اجازت نہیں د رکار“مزمل نے صاف گوئی سے کہہ دیا۔

”کیا دعا کرتے ہو اُس کے لیے…؟“ مریم بی بی نے کچھ نرمی سے پوچھا۔
”یا اللہ !ماہم کو وہ صحت عطا فرما جس کے بعد بیماری نہ ہو“مزمل نے عقیدت سے بتایا۔
”عشال ٹھیک کہتی ہے۔ تم دونوں واقعی پاگل ہو۔“ مریم بی بی نے فوراً اپنا لہجہ اور رویہ بدل لیا۔
”دیکھو مزمل بیٹا…! میں کچھ نہیں کر سکتی۔ میری بیٹی کے لیے تم سے اچھالڑکا کوئی ہو ہی نہیں سکتا۔
میری خواہش کے باوجود اُس کی شادی تم سے نہیں ہو سکتی۔ شادی کے بعد پتا نہیں کیا ہوگا۔“ مریم بی بی نے فکر مندی سے کہا تھا۔
”اور کسی بات کا تو مجھے بھی پتا نہیں۔ ایک بات کنفرم ہے۔ میں اپنی نظر پر پردہ ضرور ڈال دو ں گا۔“یہ کہہ کر مزمل چپ چاپ گردن جھکائے وہاں سے چلا گیا۔
#…#
”تمھاری شمعون سے شادی ہونے کے بعد بھی یہ ونڈو اوپن رکھو گی؟“ عشال نے ماہم کو جھنجھوڑ کر پوچھا تھا۔
ماہم اب بھی گم سم تھی۔ عشال نے دوبارہ اُسے ہلایا۔
”ٹیل می۔“
”نہیں…کبھی نہیں۔ میں مزمل کی طرف کھلنے والی ساری کھڑکیاں بند کردوں گی۔ چاہے وہ دل کی ہوں یا لکڑی کی۔“ ماہم نے بائیں ہاتھ کی پشت سے اپنے آنسوصاف کیے تھے۔
ماہم چوہدری! چلو مان لیا تم مزمل کی طرف کھلنے والی کھڑکی بند کر بھی لو…کیا اُسے شمعون کے لیے کھول سکو گی…؟“ عشال نے کھنکتی آواز میں پوچھا۔

”کوشش کروں گی…!“ ماہم نے زخمی آواز میں جواب دیا۔
”حارث کہتا ہے عشال یاد رکھنا! دل کے دوار ہردستک پر نہیں کھُلتے…“
”شوہر کے لیے کھُل جاتے ہیں“ ماہم نے حتمی انداز میں کہا۔
”میری ماں کے تو نہیں کھُلے تھے…“ عشال نے کرب سے بتایا۔
”بیوی کا فرض ہے کہ وہ اپنے شوہر سے محبت کرے کوئی فرض ادا کر لیتا ہے اور کوئی قضاء…“
”ابّا کہتے ہیں، ہر عورت کا حق ہے کہ اُس کی شادی میں اُس کی مرضی شامل ہو“ عشال نے حکیم صاحب کی کہی ہوئی بات کا سہارا لیا۔

”میں نے اپنا یہی حق شمعون کے لیے ا ستعمال کیا ہے“
”ماہم! فار گاڈ سیک… حق تلفی کو حق کا نام مت دو“عشال نے سمجھانے کے انداز میں کہا۔ ماہم گردن جھکائے خاموش تھی۔ ضبط کے باوجود اُس کی آنکھوں سے اشک چھلک پڑے۔ عشال اُسے غور سے دیکھ رہی تھی۔وہ پاس گئی اور اُسے گلے لگا لیا۔ عشال نے ماہم کے آنسو صاف کیے اور اُس کا ہاتھ تھام کر کہنے لگی :
”تمھیں یاد تو ہوگا ،اِس برسات جس رات بڑی طوفانی بارش ہوئی تھی۔
میری برتھ ڈے کے ایک دن بعد میں نے سوچا صبح وہ نہیں آئے گا۔ ہر طرف پانی ہی پانی تھا۔ لائٹ بند تھی۔ تین چار گھنٹے بعد UPSبھی جواب دے گیا۔ مجھے نیند نہیں آرہی تھی۔ ابّا اپنی ٹارچ لیے مجھے دیکھنے میرے روم میں آئے۔ مجھے دیکھا اور کہنے لگے : ”اب تک جاگ رہی ہو۔“ میں نے کہا نیند نہیں آرہی۔ ابّا بولے:
”ایمرجنسی لائٹ جلا لو“ میں ایمرجنسی لائٹ جلانے لگی تو میری نظر موم بتیوں اور ماچس پر پڑی جو پچھلی رات کیک کاٹنے سے پہلے بجھا دی گئی تھیں۔
میں نے اُن سب موم بتیوں کو اُٹھایا اُن میں سے ایک کو آگ دی اور اپنے سامنے شیلف پر لگا دیا۔
ایک کے بعد ایک موم بتی جل کر اپنے ہی موم میں غرق ہونے لگی۔ وہ موم بتیاں فجر کی اذان تک روشنی کرتی رہیں۔ بارش تھم چکی تھی۔ ابّا مسجد کے لیے نکلے تو میں نے آخری جلتی ہوئی موم بتی کو چھوڑا اور چھت پر چلی گئی۔ چھت پر ٹھنڈی ہوا چل رہی تھی۔ دور نزدیک سے مینڈکوں کی آوازیں آرہی تھیں۔

ابّا نے مسجد کے صحن میں کھڑے ہو کر اذان دینا شروع کی“ ماہم بُت بنی عشال کو دیکھ رہی تھی۔ جیسے وہ کسی اور کی داستان سن رہی ہو۔
”تم اپنی ونڈو میں ماسٹر صاحب کی لالٹین لیے کھڑی تھی۔ میں نے سوچا ہے نا بیوقوف اِس کے پاس بھی تو ایمرجنسی لائٹ ہے وہ کیوں نہیں ONکی اِس نے۔ پھر میری نگاہوں نے تمھاری نظروں کا تعاقب کیا۔ فیکٹری کے موڑ سے روشنی کی کرن نمودار ہوئی مزمل بیگ تھا۔
گلی میں پنڈلی پنڈلی پانی تھا۔ اُس کے بائیں ہاتھ میں اُس کے سلیپر اور دائیں ہاتھ میں موبائل کی لائٹ جل رہی تھی۔ وہ پانی میں سے گزرتا ہوا۔ تمھاری ونڈو کے نیچے اور مسجد کی سیڑھیوں کے پاس پہنچا، میرا خیال تھا وہ تمھیں گردن اُٹھا کر دیکھے گا۔
مزمل نے مجھے غلط ثابت کر دیا۔ تمھاری لالٹین پھڑپھڑا رہی تھی۔ جس کی تمھیں کوئی خبر نہیں تھی۔
تم مزمل کو فوکس کیے ہوئے تھی۔
مزمل نے مسجد کی پہلی سیڑھی پر قدم رکھا ہی تھا کہ اُس کا پیر پھسل گیا۔ تمھارے ہاتھ میں پھڑکتی ہوئی لالٹین بجھ گئی۔ تم نے تڑپتے ہوئے بائیں ہاتھ سے ونڈو کے راڈ کو پکڑا۔ اُس وقت تم ایسے تڑپ اُٹھی تھی جیسے مچھلی پانی سے باہر تڑپتی ہے۔
تھینک گاڈ مزمل گرنے سے بچ گیا تھا۔ وہ مسجد میں داخل ہوگیا تم بجھی ہوئی لالٹین ہاتھ میں اُٹھائے وہیں کھڑی رہی۔
چند منٹ بعد تم اُلٹے پاؤں پیچھے ہٹ گئی۔ مزمل کے بعد تین چار اور نمازی مسجد میں داخل ہوئے۔ تم پھر سے ونڈو کے پاس چلی گئی ۔ جماعت کے بعد جب نمازیوں کے باہر نکلنے کا وقت ہوا۔ تم دوبارہ اُلٹے پاؤں دو قدم پیچھے ہٹ گئی۔ تب بھی بجھی ہوئی لالٹین تمھارے ہاتھ میں ہی تھی۔ مزمل جب مسجد سے نکلا اُس نے مسکراتے ہوئے تمھیں اِک نظر دیکھا اور گردن جھکائے گلی میں کھڑے ہوئے پانی میں سے چلتا ہوا فیکٹری کے موڑ تک چلا گیا۔
جیسے ہی اُس نے موڑ مڑا تم ونڈو کے ساتھ پڑی ہوئی اُس ایزی چیئر پر بیٹھ گئی۔ میں تمھیں چھت سے مسلسل دیکھ رہی تھی۔“ عشال نے کھڑکی کے پاس پڑی ہوئی ایزی چیئر کی طرف اشارہ کرتے پھر سے کہا :
”اُس چیئر پر بیٹھنے کے بعد تمھیں پتہ چلا تمھارے ہاتھ میں جلتی ہوئی لالٹین تو بجھ چکی ہے۔ تم نے لالٹین کو ہلا کے دیکھا اُس میں مٹی کا تیل ختم ہو چکا تھا۔
پھر بھی اُس کی بتی جلنے سے بچ گئی تھی۔
میں جب اپنے روم میں آئی تو سای موم بتیوں کا ڈھیر ایک جگہ ہی تھا۔ وہ رات بھر جلتی رہیں اورصبح جلے ہوئے موم کے قبرستان میں دفن ہوگئیں۔
ایک بات بتاؤں۔ ماہم چوہدری!بیوی لالٹین کی طرح ہوتی ہے۔ جس میں تعریف کا تیل ڈالوں تو وہ پھر سے جل اُٹھتی ہے۔ جبکہ محبوبہ موم بتی کی طرح …جو اپنے ہی موم میں جل جل کر موم کا ڈھیر بن جاتی ہے۔

تم بھی مزمل بیگ کی محبت میں اپنے ہی موم میں جل رہی ہو۔ تمھیں میں نے تمھاری ہی لو اسٹوری سے ایک سین …پوچھو کیوں سنایا…؟“ عشال نے ماہم کا ہاتھ تھامتے ہوئے سوالیہ نگاہوں سے اُس کی طرف دیکھا۔
”کیوں…؟“ ماہم نے ایسے کہا جیسے اُس کی آواز کسی گہری کھائی سے آئی ہو۔
”اس لیے کہ میں تمھیں بتا سکوں…! جو کچھ میں نے اُس دن دیکھا وہ دیوانگی کی حد تھی۔
ماہم چوہدری! شمعون جیسا ایک ڈھونڈ نے جاؤ تو لاکھوں ملیں گے اور تم جیسی لاکھوں میں سے ایک بھی ملنا مشکل ہے۔
تم شادی کے بعد شمعون کے بچے ضرور پیدا کرو گی۔ اُس کی طرف محبت کی کھڑکی کبھی نہیں کھول سکو گی۔ یہ میری پریڈیکشن ہے۔ کل تمھاری تیل مہندی ہے، میں سوچ رہی ہوں پیلے سوٹ کی جگہ ماتمی لباس پہنوں ۔مزمل کے ساتھ کوئی تو ہو جو تمھاری شادی کا ماتم منائے۔“ عشال نے ماہم کا ہاتھ چھوڑا اور غصے سے ماہم کے کمرے سے چلی گئی۔ ماہم رنجیدگی سے گردن جھکائے وہیں بیٹھی رہی۔ تھوڑی دیر بعد اُس نے اپنے نازک اور سفید ہاتھوں کی طرف دیکھتے ہوئے خود کلامی کی :
”کل میری تیل مہندی ہے“

Chapters / Baab of Mann Kay Muhallay Mein By Shakeel Ahmed Chohan