Episode 17 - Mann Kay Muhallay Mein By Shakeel Ahmed Chohan

قسط نمبر17 - من کے محلے میں - شکیل احمد چوہان

”یہ غلط ہے… غلط ہے…غلط ہے…“مزمل گاڑی ڈرائیو کر رہا تھا۔ اُس کا دماغ اُسے مسلسل کہہ رہا تھا : ”بیگ صاحب آپ غلط کر رہے ہو… مت جاؤ…معراج کے… میں پھر کہہ رہا ہوں۔“
”مسٹربرین! عجیب باتیں کر رہے ہو…اُن کا آپریشن ہوا ہے … مزمل صاحب کو جانا چاہیے۔ بیماری میں دوائی وہ کام نہیں کرتی جو اِک نظر کر جاتی ہے۔ مزمل صاحب کی اِک نظر مرہم کا کام کرے گی ۔
محترمہ ماہم جی فوراً ٹھیک ہوجائیں گی۔“ دل نے اپنے دلائل پیش کرتے ہوئے ماہم کا نام انتہائی عقیدت و احترام سے پکارا تھا۔
دل اور دماغ کی باتوں میں ماڈل ٹاؤن سے معراج کے کا سفر تمام ہوا۔ مزمل نے گاڑی اپنی فیکٹری کے ساتھ پارک کی اور نظریں جھکائے مسجد میں داخل ہوگیا۔ نماز کے بعد اجتماعی دُعا کے بعد اُس نے ماہم کی صحت یابی کے لیے پھر سے ہاتھ اُٹھائے۔

(جاری ہے)


”یا اللہ ! ماہم کو وہ صحت عطا فرما جس کے بعد بیماری نہ ہو۔“ مزمل نے مختصر سی دُعا کی حکیم صاحب اُسے دیکھ رہے تھے۔ مزمل نے منہ پر ہاتھ پھیرے اور اُٹھ کر چل دیا۔
مسجد کی سیڑھیوں پر پہنچ کر نگاہ اُٹھائی۔ وہ سامنے کھڑکی میں کھڑی تھی۔ پورے چاند کی چاندنی کی طرح۔ جس طرح پورے چاند کی چاندنی کھڑکی سے اندر جھانکتی ہے، بالکل ویسے ہی وہ کھڑکی سے باہر جھانک رہی تھی۔
اُس کا مکھڑا چاند ہی کی طرح سفید تھا، اُجلا دھلا ہوا۔
آنکھوں کے نیچے سیاہ حلقے ایسے محسوس ہو رہے تھے۔ جیسے چاند کے اوپر ہلکے ہلکے داغ لگے ہوں۔
اُس کے ہونٹوں پر پھول کی پتیوں جیسا تبسم تھا۔
مزمل کی اک نگاہ یہ سب کچھ دیکھ کر لوٹی تھی۔ مزمل نے نظروں کو جھکایا اور چلتا ہوا گاڑی میں جا کر بیٹھ گیا۔ آج اُس کا دل چاہ رہا تھا۔ کہ وہ واپس جا کر پھر سے اُس ماہ رُخ کو دیکھے۔
دل کی چاہت اُس کے اصولوں کے خلاف تھی۔
اُس نے گاڑی سٹارٹ کی اور واپسی کی راہ پکڑی۔
اُسی دن دوپہر میں چوہدری شمشاداور شاہدہ بی بی ماہم کی خبر لینے اُس کے گھر پہنچے انہوں نے 5ہفتے بعد کی تاریخ طے کی تھی۔ شاہدہ بی بی کچھ خاص خوش نہیں تھی۔ شمعون کی ماہم کے ساتھ شادی پر۔ ماہم کی زندگی کا اتنا بڑا فیصلہ اُس کی منشا کے مطابق ہوا تھا۔ اُس کی زندگی تو مزمل تھا پر زندگی گزارنے کا فیصلہ اُس نے شمعون کے ساتھ کیا تھا۔
شائد یہی زندگی ہے۔
#…#
”شوکی تو زندگی بھر عیش کرے گا… اگر تو نے یہ رشتہ کروا دیا …“ مہر سعید نے شوکی کو جاتے ہوئے تھپکی دی۔
”مہرجی! اِس رشتے پر کیوں اتنا زور دے رہے ہو“ مہر سعید کی بیوی نے شوکی کے جانے کے بعد پوچھا۔
”چودھرائن ہے تو۔ چودھرائن کی طرح سوچا کر۔ پورے چھ مربعے ابّا جی نے سمبل کے نام کر دیے تھے۔
میں نے تو میاں چنوں اِسی لیے بھیج دی تھی۔ کہ خود مزے کریں گے اُس کی زمین پر۔ وہاں بھی چن چڑھا کے آئی ہے۔ اب تو ہی بتا باہر شادی کروں گا تو چھ مربعے تو گئے۔ چوہدری شمشاد اور ہمارا رقبہ ساتھ لگتا ہے۔ شمعون سے کہوں گا جو زمین تیری زمینوں کے ساتھ لگتی ہے وہ تیری اور جو میری زمینوں کے ساتھ لگتی ہے وہ بھی تیری پر بیجائی مجھے کرنے دے۔“ مہر سعید اپنی بیوی سے مخاطب تھا وہ سمبل کا سوتیلا بھائی تھا ۔
اُن کے باپ کو ڈر تھا، کہ میرے مرنے کے بعد میرا بیٹا میری بیٹی کو کچھ نہیں دے گا۔ اس لیے وہ اپنی زندگی میں ہی سمبل کے نام اُس کا حصہ لگا گیا تھا۔
#…#
”میں شادی کروں گا تو صرف سمبل سے… امّا ں تو نے مجھ سے وعدہ کیا تھا۔ میرا ساتھ دے گی۔ اب ابّے کے ساتھ جا کر دن بھی رکھ آئی ہے“ شمعون اپنی ماں شاہدہ بی بی پر لال پیلا ہو رہا تھا۔

”میں کیا کرتی تو جانتا تو ہے۔ اپنے ابّے کو وہ بھلا کسی کی سُنتا ہے“ شاہدہ بی بی نے اپنی بے اختیاری کا ذکر معصومیت سے کیا۔
”امّاں ! میں سمبل سے شادی کا وعدہ کر چکا ہوں“
”سمجھا کر شمعون سمجھا کر…پہلے تو اپنے ابّے کی مرضی سے شادی کر لے بعد میں اپنی مرضی سے کر لینا“
”سمبل کہتی ہے شادی تب کروں گی چوہدری شمعون! جب اُس اُستانی سے منگنی توڑے گا۔
وہ منگنی پر نہیں مانتی…تو سوتن پر کیسے مانے گی۔ امّاں تو نے میری زندگی مصیبت میں ڈال دی ہے“ شمعون یہ کہتا ہوا گھر سے نکل گیا۔ شاہدہ بی بی کچھ دیر منہ پر ہاتھ رکھے سوچتی رہی پھر بولی :
”دسو…! اِس کی زندگی بھی مصیبت ہے“
#…#
”زندگی جینے کے لیے جدو جہد کرنی پڑتی ہے اور موت ہمیشہ بغیر مشقت کے آپ کے سامنے کھڑی ہوتی ہے۔
“ ماہم نے عشال کو جواب دیا۔ وہ اُس کی تیمار داری کے لیے آئی تھی۔
”یعنی تم یہ کہہ رہی ہو۔ لائف اِس ونڈو کے دوسری طرف ہے اور ڈیتھ روم کے اندر ہمارے سامنے۔“ عشال نے کھڑکی کی طرف دیکھ کر کہا۔
”نہیں…میری زندگی تو کھڑکی سے نیچے مسجد کے زینوں پر کھڑی ہوتی ہے۔ مجھے جینے کی اُمید دلاتی ہے اور چوبیس گھنٹوں کے لیے غائب ہو جاتی ہے۔ میں اگلے چوبیس گھنٹے اُس لمحے کے انتظار میں گزار دیتی ہوں۔
“ ماہم وال کلاک کی طرف دیکھ کر اپنے دل کا حال بتا رہی تھی۔
”عشال…! میری زندگی آٹھ گھنٹے بعد مسجد کے زینوں پر کھڑی ملے گی۔ پھر مجھے اگلے چوبیس گھنٹوں کے لیے آکسیجن مہیا کرکے چلی جائے گی۔“ ماہم نے ٹھندی سانس بھری جو اپنے بیڈ پر لیٹی ہوئی تھی۔ عشال اُس کے سامنے کرسی پر بیٹھی ہوئی۔
”عشال…! تمھیں یاد ہوگا جب تم نے مجھے گاڑی سے اُترتے ہوئے مزمل بیگ کے متعلق بتایا تھا۔

”ہے تو ڈف اینڈ ڈم پر ہے خوبصورت“ میں نے اُسے دیکھا اُسی لمحے اُسے دل دے بیٹھی۔ پتا نہیں اُس میں کیا خاص بات تھی۔شادی کی تقریب کے دوران میں اُسے ہی دیکھتی رہی۔“
”کل صبح وہ ہمارے گھر آیا تھا ابّاکے ساتھ۔ میری اُس سے مختصر سی بات بھی ہوئی تھی۔ اُس نے ہماری طرف چائے بھی پی تھی۔”عشال نے یہ بتایا ہی تھا۔ ماہم کے جسم میں بجلی دوڑ گئی۔
وہ درد کے باوجود اُٹھ کر بیٹھ گئی۔
”کیا بات ہوئی تھی؟“ ماہم نے بے تابی سے پوچھا۔
”نتھنگ اسپیشل…! دراصل ہم دونوں کا ایک پرانا رشتہ ہے۔“
”کیسا رشتہ؟“ اِس بار ماہم نے تشویش سے پوچھا۔
”وہ پھر کبھی بتاؤں گی۔ میرے پاس اُس کا نمبر ہے … بات کروگی…ملاؤں نمبر؟“
”نہیں…“ ماہم نے دو ٹوک کہہ دیا۔
”ماہم…! بات کرنے سے ریلشن مضبوط ہوتے ہیں۔
“ عشال نے جانچتی نگاہوں سے دیکھتے ہوئے بتایا۔ ماہم کے ہونٹوں پر مسکراہٹ اُبھری۔
”تو کیا گونگے بہروں میں رشتے مضبوط نہیں ہوتے؟”عشال…! میری جان…! خاموشی کی بھی ایک زبان ہوتی ہے۔“
”ماہم…! مائی ڈیئر…! تم زبان رکھتی ہو پھر یہ ڈف اینڈ ڈم سی محبت کیوں ؟ میں نمبر ملاتی ہوں اُسے سب کچھ کہہ دو جو تمھارے دل میں ہے۔“
”جب میں اُسے دیکھتی ہوں تو نظروں ہی نظروں میں میرے دل کی ہر بات اُس کے دل میں اُتر جاتی ہے۔
“ ماہم نے یقینِ کامل سے جواب دیا تھا۔ عشال نے سُنا تو ہلکا سا قہقہہ لگایا۔
”مجھے تو تم جولیٹ جیسی لگ رہی ہو۔ مزمل کی خبر لیتی ہوں وہ رومیو ہے کہ نہیں؟“ عشال نے یہ کہا اور مزمل کا نمبر ملا دیا۔ بیپ ہو رہی تھی۔ عشال نے موبائل کا اسپیکر اوپن کردیا۔
”ہیلو …! مزمل نے کال ریسیو کی۔
”مزمل…! میں عشال بات کر رہی ہوں۔“
”عشال کون؟“
”عشال انصاری۔
“ عشال نے ”انصاری“ پر زور دے کر کہا۔
”جی عشال…فرمائیں…!“مزمل نے بے تاثر لہجے میں پوچھا۔
”میں ماہم کے پاس گئی تھی۔ اُس کی طبیعت کا پوچھنے کے لیے۔“ عشال نے اتنا کہا اور خاموش ہو گئی۔ دوسری طرف سے بھی خاموشی تھی۔
”مزمل…! ہیلو مزمل…! آپ سن رہے ہیں؟میں ماہم کے پاس گئی تھی۔“
”میں جان چکا ہوں، آپ ماہم کے پاس گئی تھیں۔“مزمل نے سرد لہجے میں دھیرے سے کہہ دیا۔

”اُس کی خیریت نہیں پوچھیں گے؟“ عشال نے سوالیہ انداز میں پوچھا۔
”آپ تو ایسے ریلکس ہیں جیسے کچھ ہوا ہی نا ہو۔ یونو، ماہم کا آپریشن ہوا ہے“
”عشال…! آئی نو، ماہم کا آپریشن ہوا ہے“ مزمل نے بے فکری سے جواب دیا۔
”میں کنفیوژ ہوں یہ کیسی محبت ہے؟“ عشال نے حیرانی کے ساتھ ہلکا طنز بھی کیا۔
”عشال…! سوری ٹو سے، میں نے آپ سے کب کہا کہ میں ماہم سے محبت کرتا ہوں اور جہاں تک اُس کی طبیعت کے پوچھنے کا سوال ہے مجھے پتا ہے وہ اب بالکل ٹھیک ہیں۔
آپ کو پریشان ہونے کی کوئی ضرورت نہیں ہے۔“
”آپ کو کس نے بتایا؟“ عشال نے جلدی سے پوچھا۔ ماہم کی طرف دیکھتے ہوئے۔
”بتایا تو کسی نے نہیں۔ بس میرا دل مطمئن ہے۔ عشال بی بی میں کچھ مصروف ہوں مزید بات نہیں کر سکتا۔“
”ماہم کی نیکسٹ منتھ شادی ہے۔“ عشال نے جلدی سے بڑی خبری دی۔
”بریکنگ نیوز کاشکریہ …میں جانتا ہوں۔“ مزمل نے سنجیدگی سے کہا اور فون بند کر دیا ۔
عشال نے ماہم کی طرف دیکھاجس کے چہرے پر بھی اطمینان تھا ۔
”Engagementرنگ تم نے شمعون کی پہنی ہے کمٹمنٹ مزمل سے۔“ عشال نے قدرے خفگی سے کہا۔ اُتنی ہی نرمی سے ماہم نے جواب دیا:
”عشال…! نہ تو میں نے اپنی مرضی سے منگنی کی انگوٹھی پہنی ہے اور نہ ہی کسی سے محبت کے وعدے کیے ہیں۔ یہ بھی سچ ہے کہ مجھے مزمل سے محبت ہوگئی ہے۔ نہ تو میں شادی سے انکار کروں گی اور نہ ہی اپنی محبت کا اظہار۔
جو قسمت میں لکھا ہوگا ہوجائے گا۔“ماہم نے کھلے لفظوں میں مزمل بیگ کی محبت کا اقرار کر لیا تھا۔
”عشال باجی…! حکیم چاچا آپ کو لینے آئے ہیں۔“ مومنہ نے آکر اطلاع دی۔
#…#
عشال اپنے بستر پر لیٹی ہوئی مزمل اور ماہم کے بارے میں سوچ رہی تھی۔ وہ اُن دونوں کے تصور میں گم تھی۔ خیالوں ہی خیالوں میں خود سے باتیں کر رہی تھی :
”یہ دنیا Global Village بن گئی ہے۔
Twitter- Instagram- Whatsapp- Facebook نہ جانے کیا کیا … ؟ رابطوں کے لیے انسان نے ایجاد کر لیے ہیں۔ یہ دونوں کم بخت پھر بھی ایک دوسرے سے رابطہ نہیں کرتے۔
سال سوا سال سے بس ایک دوسرے کا Face ہی دیکھی جا رہے ہیں۔ “
عشال اپنے بستر سے اُٹھ کر بیٹھ گئی۔ کمرے کا دروازہ کھلا ہونے کے باوجود اس نے دانت پیستے ہوئے دھیمے سروں میں خود کلامی شروع کردی :
”پاگل ہیں دونوں پاگل… سال 2020ء شروع ہونے والا ہے اور یہ دونوں 1857ء والی محبت کر رہے ہیں… مانچسٹر جا کر اگر کسی کو یہ کہانی سناؤں …؟ تو لوگ کہیں گے چل جھوٹی ! میں ہزار کوشش کر لوں، مزمل کبھی بھی ماہم کانہیں ہوسکتا۔
شمعون یہ کبھی نہیں ہونے دے گا۔ ماہم میری فرینڈ ہے۔ میں اُسکے ساتھ تو ہوں مگر میں کیا کر سکتی ہوں …؟۔ میں مزمل کو بتا دیتی ہوں کہ شمعون کتنا خطر ناک آدمی ہے۔“
”عشال بیٹی …!دودھ پی لو۔“ عشال نے پلٹ کر دیکھا۔ حکیم صاحب دودھ کا گلاس تھامے اُس کے پیچھے کھڑے تھے۔ عشال نے تکیے کے پاس سے اپنا دوپٹہ اُٹھایا اور جلدی سے اُسے اوڑھتے ہوئے کھڑی ہو گئی۔

”معاف کرنا بیٹی…! دروازہ کھلا تھا میں بغیر دستک دیے اندر آگیا“۔ حکیم صاحب نے عشال کی بوکھلاہٹ دیکھ کر کہا۔
”ابّا…! میں خود لے لیتی آپ نے کیوں تکلیف کی؟“ عشال نے خود کو نارمل ظاہر کرنے کی کوشش کی۔
”عشال بیٹی…! بڑوں کی بات ، آملہ اور ہڑیڑ کھانے کا اثر ہمیشہ بعد میں پتا چلتا ہے۔ میں نے کہا تھانا مزمل کا یہاں آنا ٹھیک نہیں ہے۔
ہڑیڑ کی طرح حقیقت بھی اکثر کڑوی ہوتی ہے۔ مجھے پتا ہے تم یہ چاہتی ہو کہ ماہم اور مزمل کی شادی جیسے بھی ہو بس ہوجائے۔ غلط تو غلط ہے۔ عشال…! تم نے ثابت کرنا ہے کہ تم حکیم عاقل انصاری کی بیٹی ہو۔ نعمان لغاری کی نہیں…پیٹ درد کی پھکی تو میرے پاس ہے۔ تم کھالو یا پھر تمھاری سہیلی۔ بیٹی دل کے درد کی پھکی میں لاکھ کوششوں کے باوجود نہیں بنا سکا۔
ماہم میرے مرحوم دوست ماسٹر محمود کی بیٹی ہے۔ دوسری طرف مزمل بھی اپنا ہی بچہ ہے۔
کچھ فیصلے وقت کرتا ہے، تم بھی انتظار کرو اگلے مہینے تک۔ اگلے مہینہ کی اکیس تاریخ طے پائی ہے۔“ حکیم صاحب نے عشال کو دودھ کا گلاس تھمایا اور وہاں سے چلے گئے۔
#…#
”کچھ سمجھ نہیں آرہا ہے۔ کیا کروں؟“ وہ اپنی دادی کے سامنے بے بسی کی تصویر بنا بیٹھا تھا۔
پچھلے ایک سال میں آج پہلی بار اُس نے اپنے دل کی بات اپنی دادی سے کی تھی۔
”محبت بڑے مہنگے داموں ملتی ہے۔ مزمل بیٹا! اور موت مفت میں…“ دادی نے افسردگی سے جواب دیا۔
”میں تو دام دینے کو بھی تیار ہوں۔ یہ سمجھ نہیں آرہا ہے دام دوں تو کس کو دوں…؟“ مزمل نے اضطراب کے عالم میں اپنی کنپٹیوں پر ہاتھ رکھے ہوئے تھے۔
”مزمل بیٹا! محبت کے دام ادا کرنا دولت کے بس کی بات نہیں…محبت تو زندگی سے خراج مانگتی ہے۔

دادی نے اپنی گالوں پر سے اشکوں کو صاف کیا۔
”تو بتائیں نا…؟ کیسے اپنی محبت حاصل کروں…؟ میں تو زندگی سے خراج دینے کے لیے بھی تیار ہوں۔“ یہ کہتے ہوئے مزمل کی آنکھیں بھر آئی تھیں۔ ممتاز بیگم نے دیکھا تو مزمل سے کہا:
”اِدھر آؤ میرے پاس۔“ مزمل اپنی داد ی کے پاس بیڈ پر بیٹھ گیا۔ دادی نے اُسے گلے لگایا اور شفقت سے چہرے پر ہاتھ پھیرا۔

”بیٹا تم نے آج بات کی ہے۔ میں تو کب سے یہ سب کچھ جانتی ہوں…“ دادی نے کہا۔ مزمل کے سنجیدہ چہرے پر حیرت بکھر گئی۔
”آپ کو کس نے بتایا۔؟“ مزمل نے فکر مندی سے عجلت میں پوچھا۔
”عشال نے…“ دادی نے خبر دینے والی کا نام بتایا۔ یہ سُن کر مزمل کے چہرے پر تاثرات ایک لمحے میں بدل گئے۔ اُس نے روکھے لہجے میں کہا :
”عشال…“
مزمل عشال کا نام لیتے ہی اپنی دادی کے پاس سے اُٹھ کھڑا ہوا۔
بغیر کچھ کہے وہ وہاں سے چلا گیا۔ اپنے بیڈ روم میں پہنچ کر اُس کی پریشانی اور بڑھ گئی۔
”عشال نے دادو کے علاوہ جانے کس کس کو بتایا ہوگا اس طرح تو ماہم بدنام ہو جائے گی۔“ یہ خیال آتے ہی اُسے ایسا لگا جیسے اُس کے دل میں کسی نے میخیں گاڑدی ہوں۔
”میں نے بھی تو اُس دن عشال سے تلخ لہجے میں بات کی تھی“ اُسے خود کے ضمیر نے یاد کروایا۔
”کہیں…عشال…؟ نہیں نہیں…بالکل بھی نہیں…وہ تو ماہم کی بیسٹ فرینڈ ہے…وہ ایسے تھوڑی کرے گی“ اُس کے دماغ کے اندر خیالوں کی جنگ چل رہی تھی۔
دل کو میخوں کے گھاؤ سے ہوش آیا تو، وہ کہنے لگا :
”مزمل صاحب! فکر نہ کرو…ایسا کچھ نہیں ہوگا۔“ دل کی تسلی سے اُسے کچھ راحت ملی تھی۔ پھر بھی اُس کی زبان پر شک کی وجہ سے ایک نام تھا۔
”عشال…“

Chapters / Baab of Mann Kay Muhallay Mein By Shakeel Ahmed Chohan