Episode 22 - Mann Kay Muhallay Mein By Shakeel Ahmed Chohan

قسط نمبر22 - من کے محلے میں - شکیل احمد چوہان

تیل مہندی کی رسم ماہم کے اسکول کے گراؤنڈ میں انجام پائی۔ بارات کا انتظام ملن میرج ہال میں کیا جانا تھا۔ مہندی کی تقریب کے دوران ماہم کی طرح عشال بھی بجھی بجھی سی رہی۔ بارات والے دن صبح مزمل مسجد کے زینے اُتر رہا تھا۔ ہزار کوشش کے باوجود وہ اپنی نظر نہیں روک سکا۔ نظر اُٹھی۔ وہ ہمیشہ کی طرح کھڑکی میں کھڑی تھی۔ اُس کی آنکھوں میں نور کی بجائے ظلمت تھی۔
اداسی کے ساتھ ساتھ ویرانی بھی تھی۔ ماہم ہاتھوں میں مہندی رچائے، کلائیوں میں گجرے پہنے، گلے میں مالا ڈالے ، مہندی کے پیلے جوڑے میں ملبوس تھی۔ وہ من موہنی سی لڑکی ماہ پارہ لگ رہی تھی۔ یہ تو اُس کا ظاہر تھا۔
اصل میں مہندی کی ٹھنڈک کے بجائے اُسے تپش محسوس ہو رہی تھی۔ کلائیوں کے گجرے ہتھ کڑیاں لگ رہیں تھیں۔

(جاری ہے)

گلے کی مالا پھانسی والی رسی جیسی تھی۔

پیلا لباس اُس کے نزدیک اُسے ماتمی لباس کی کیفیت میں مبتلا کیے ہوئے تھا۔ چندر مکھی کی طرح نظر آنے والی ماہم اُس وقت اندر سے پارو نہیں بلکہ پارہ پارہ ہو چکی تھی۔
مزمل اور ماہم کے مابین کوئی میثاق، کوئی معاہدہ طے نہیں تھا۔ اس کے باوجود وہ دونوں اپنے اپنے محاذ پر مجرم بنے کھڑے تھے۔ کس نے کس کو مجروح کیا یہ معمہ تھا۔ پھر بھی وہ دونوں مضطرب تھے۔
ملاقات کے بغیر صرف محبت کی معرفت سے اُن دونوں کے جسم معطر ہو چکے تھے۔ اُس مسافت کے دوران اُنھیں محبت کی مہک تومیسر آئی پر محبت کی منزل نہیں ملی۔ اُن کے ملن کی کوئی صورت نظر نہیں آرہی تھی۔
مہندی کی تقریب کے بعد سے ماہم کھڑکی میں مجسمہ بنی کھڑی تھی۔ رات بھر وہ صبح کا انتظار کرتی رہی۔
جس کے انتظار میں وہ کھڑی تھی۔ وہ اس کے سامنے تھا۔
وہ اپنے نکاح سے پہلے شاید آخری بار اُسے دیکھ رہی تھی۔ مزمل نے بھی اُس لمحوں کے اندر اندر صدیوں جیسا دیکھ لیا۔ اُس کے دل میں پتا نہیں کیا بات آئی وہ واپس مسجد کے اندر چلا گیا۔ چند منٹوں کے بعد واپس آیا ماہم وہیں کھڑی تھی۔ مزمل نے اُسے ہمیشہ کی طرح ایک نظر دیکھا اور نظریں جھکائے اپنی گاڑی میں بیٹھ کر لاہور چلا گیا۔
#…#
اب جاگنے کی باری مزمل بیگ کی تھی۔
وہ رات بھر اپنے ٹیرس پر صبح کا انتظار کرتا رہا۔ کھلی کھڑکی کو دیکھنے والی مشتاق آنکھیں اس بار مزمل بیگ کی تھیں۔ اُس کے ذہن میں کچھ نہیں تھا سوائے اُس کھڑکی کے کہ وہ جلد از جلد اُس کھڑکی کو دیکھنا چاہتا تھا۔ نماز سے پہلے دیکھنے کی اجازت اُس کو نہیں تھی۔
مزمل گردن جھکائے گلی سے گزر گیا۔ اُس کے دل میں کھڑکی کا کوئی خیال نہیں آیا۔ اُس نے خشوع خضوع سے نماز ادا کی۔
سب نمازیوں کے جانے کے ساتھ ہی آج پہلی بار حکیم صاحب بھی چلے گئے۔ حکیم صاحب کے جانے کے کچھ دیر بعد وہ حسب معمول اُٹھا اور مسجد کے بیرونی دروازے کی طرف قدم بڑھائے ۔ اُسے کبھی بھی مسجد کی حدود میں کھڑکی یا کھڑکی والی کا خیال نہیں گزرا۔ اس دن بھی ایسا ہی ہوا تھا۔ مزمل نے سیڑھیاں اُترنی شروع کیں۔ نظر اُٹھائی کھڑکی کھلی تھی۔ ماہم دُلہن بنی کھڑکی میں کھڑی تھی۔
مزمل نے ہمیشہ کی طرح ایک نظر دیکھنے کے بعد اپنی نظریں جھکا لیں۔ مزمل کی آنکھوں میں بجھے دیپ جل اُٹھے۔ ہونٹوں پر مسکراہٹ لوٹ آئی۔ دل سے دھک دھک کی آواز آنے لگی۔ دل کی دھک دھک دماغ سے برداشت نہیں ہوئی۔ دماغ کہنے لگا :
”بیگ صاحب …! کھلی کھڑکی کے پیچھے دُلہن کھڑی ہے۔خوش ہونے کی بجائے پتا تو کر لو وہ کس کی دُلہن ہے؟“
”دل نے حکم دیا :
”مزمل صاحب…! نظریں اُٹھاؤ اور دوبارہ دیکھ لو میرا دھڑکنا بے وجہ نہیں ہوتا۔
میری دھڑکن زندگی کی علامت ہے۔“
”نظریں اُٹھاؤ گے تو بے ادبی ہو جائے گی۔“ دماغ نے جلدی سے میسج دیا۔ اُسی لمحے دل نے بھی صدا لگا دی۔
”مسٹر برین…! آپ عقل والوں کے ساتھ کھڑے ہوتے ہیں اور میں عشق والوں کا ساتھی ہوں۔ مزمل صاحب !تم نظریں اٹھا دو۔“
مزمل نے نظریں اُٹھا کر دیکھا۔ ماہم کے چہرے پر عجیب طرح کی مسرت تھی۔ وہ تھوڑی دیر اُسے دیکھتا رہا۔
آنکھوں کی گفتگو سے دلوں کوسکون مل گیا۔ مزمل کو گلی میں کھڑے ہو کر مزید اس طرح دیکھنا غیر مناسب لگا۔ وہ نظریں جھکا کر اپنی گاڑی کی طرف چل دیا۔
”بیٹا اندر آجاؤ…!“ مریم بی بی نے بڑے اعتماد سے کہا جو اپنے دروازے پر کھڑی تھیں۔
مزمل گھر کے اندر داخل ہوگیا۔ ڈرائنگ روم میں ایک آدمی وہیل چیئر پر بیٹھا ہوا تھا۔ اس کے سامنے حکیم عاقل انصاری ، گلاب خان اورشمائل کا شوہر شرافت بیٹھے ہوئے تھے ۔
دوسرے صوفے پر چند عورتیں تھی جن میں ، مومنہ ، عشال،شمائل، شاہدہ بی بی اور ایک طرف عروسہ وہیل چیئر پر بیٹھی تھی۔
”جوان…! میری بیٹی سے شادی کرو گے؟“ چوہدری شمشاد نے گرجتی ہوئی آواز میں پوچھا۔
اس سے پہلے مزمل کچھ کہتا ڈرائنگ روم میں ماہم دُلہن کے لباس میں ملبوس داخل ہوئی۔ مزمل نے حیرانی سے چوہدری شمشاد کی طرف دیکھا۔
”جوان…! میری بیٹی ماہم سے شادی کرو گے؟“ چوہدری شمشاد اُسی انداز میں دوبارہ بولا۔

”جی…!“ مزمل نے ماہم کی طرف دیکھ کر کہا۔
”حق مہر میں کیا لکھواؤ گے۔“ چوہدری شمشاد نے بے دھڑک ہو کر کہہ دیا۔
”یہ والی فیکٹری لکھ لیں۔“ مزمل بیگ نے حتمی انداز میں جواب دیا۔
ماہم نے مزمل کی طرف د یکھا۔ ڈرائنگ روم میں موجود سب لوگوں نے باری باری ایک دوسرے کی طرف نگاہ ڈالی ۔ اُن کے چہروں پر ملی جُلی کیفیات تھیں۔ خوشی کے ساتھ ساتھ حیرت بھی نمایاں تھی۔

”حکیم صاحب! بسم اللہ کریں۔“ چوہدری شمشاد نے نکاح پڑھانے کا فرمان جاری کر دیا۔
#…#
”حکیم صاحب…! بسم اللہ کریں“ پچھلی رات بھی چوہدری شمشاد نے ایسے ہی کہا تھا۔
”چوہدری شمشاد ! یہ نکاح نہیں ہو سکتا“ ایک آدمی گھن گرج کے ساتھ بولا۔
”کیوں نہیں ہو سکتا یہ نکاح؟“ چوہدری شمشاد نے للکار کر پوچھا۔
”اس لیے کہ تیرے بیٹے نے میری بہن سمبل سے شادی کر رکھی ہے۔
اب وہ دوسری شادی نہیں کر نا چاہتا۔“ مہر سعید نے وضاحت پیش کی۔
”کیوں اوئے شمعون…؟“ چوہدری شمشاد نے قہرو غضب سے پوچھا۔
”جی ابّا جی…!“ شمعون نے گردن جھکائے فوراً اقرار کرلیا۔
”اوئے کھوتے دے پتر…! پھر یہ تماشا لگانے کی کیا ضرورت تھی۔“ چوہدری شمشاد وہیل چیئر پر بیٹھے بیٹھے ہی آپے سے باہر ہوگیا تھا۔
”تو مجھے پہلے بتا دیتا…بے غیرتا…بے شرما…اب میں سارے شریکے کو کیا جواب دوں گا۔
کون کرے گا میرے مرحوم بھائی کی بیٹی سے شادی؟“ چوہدری شمشاد نے واہ ویلا ڈالا ہوا تھا۔
”کھانا کھول دو“ حکیم صاحب نے موقع کی نزاکت دیکھتے ہوئے میرج ہال کی انتظامّیہ کو کہہ دیا۔ حکیم صاحب خود چوہدری شمشاد کی وہیل چیئر کو دھکا لگاتے ہوئے دُلہن کے کمرے میں لے گئے تھے۔ چند منٹوں بعد ہی سارا ہجوم تتر بتر ہوگیا۔ شادی ہو یا نہ ہو لوگوں کو کھانا ملنا چاہیے۔
لوگوں نے کھانا کھایا، اپنے اپنے ہاتھ صاف کیے اور اپنے اپنے گھروں کی راہ پکڑی۔
”کون کرے گا میرے بھائی کی بیٹی سے شادی؟“ چوہدری شمشاد نے مگر مچھ والے آنسو گراتے ہوئے پھر سے پوچھا۔
”ایک لڑکا ہے …میرے رشتے میں بھی لگتا ہے۔“ چوہدری شمشاد نے سوالیہ نظروں سے حکیم صاحب کو دیکھا۔
”وہی جس نے سیٹھ کی فیکٹری خریدی ہے۔“ حکیم صاحب نے تسلی دیتے ہوئے بتایا۔

”وہ اتنا بڑا آدمی ہے، وہ کیوں کرے گا شادی؟“ چوہدری شمشاد کے آنسو فوراً غائب ہوگئے تھے۔ ساتھ ہی اُس نے تفتیش بھی شروع کردی۔
”اُس نے مجھ سے کہا تھا کہ آپ سے رشتہ مانگوں۔ جب میں نے بتایا کہ ماہم کی منگنی ہو چکی ہے پھر وہ کہنے لگا :
حکیم صاحب…! آپ ہی میرے بڑے ہیں۔ آپ جہاں کہیں گے میں شادی کر لوں گا۔“
”مگر …پھربھی …حکیم صاحب…مجھے نہیں لگتا…وہ لڑکامانے گا۔
“ چوہدری شمشاد نے رُک رُک کر اپنے خدشے ظاہر کیے۔
”انکل جی…! آپ کیوں فکر کرتے ہیں۔ اُس کی کیا مجال وہ ابّا کی بات ٹالے۔ ہماری ماہم راج کرے گی۔ اُس کے پاس ایسی دو فیکٹریاں اور بھی ہیں۔ دو بنگلے چار گاڑیاں اور کروڑوں کا بنک بیلنس الگ سے ہے۔“ عشال نے ماہم کا ہاتھ دباتے ہوئے کہا۔
چوہدری شمشاد کی آنکھیں کھلی کی کھلی رہ گئیں۔ اُس وقت برائیڈل روم میں صرف پانچ افراد تھے۔
پانچویں مریم بی بی تھی جو کچھ دیر بعد آئی تھی۔
”کچھ بھی ہو۔ میں ماہم کی رضا مندی کے بغیر ہاں نہیں کرسکتا“ چوہدری شمشاد نے اپنا لالچ چھپاتے ہوئے سنبھل کرکہا۔
”لالہ جی…! ماہم اور مجھے آپ کے کسی فیصلے پر کوئی اعتراض نہ پہلے تھا اور نہ ہی آئندہ ہوگا۔ آپ جو بھی فیصلہ کریں ہمیں قبول ہوگا۔ “ مریم بی بی نے تابع داری کے ساتھ ساتھ اپنے حصے کی ڈیوٹی پوری کر دی۔

”تو پھر حکیم صاحب…! ابھی اُس لڑکے کو بلائیں۔ ابھی کلمے پڑھا دیتے ہیں۔ اللہ اللہ خیر سلہ۔“ چوہدری شمشاد نے اپنی عزت بچانے کے لیے فوراً رضا مندی ظاہر کر دی تھی۔
”چوہدری صاحب…! اس وقت غیر مناسب ہے۔ میں اُس سے فون پر بات کر لیتا ہوں۔ انشاء اللہ کل صبح فجر کے بعد میں نکاح پڑوا دوں گا۔ یہ میرا وعدہ ہے۔ آپ آج رات یہیں رُک جائیں۔ گاؤں مت جائیں۔
کل نکاح کے بعد ہی گاؤں جائیے گا۔ اس طرح آپ کی عزت بھی رہ جائے گی اور شریکے برادری کوباتیں بنانے کا موقع بھی نہیں ملے گا۔“ حکیم صاحب کی بات چوہدری شمشاد کے دل پر جا کرلگی تھی۔ وہ فوراً مان گیا۔
#…#
ماہم اپنے کمرے میں آئی۔ اُس نے جنوری کی سخت سردی کے باوجود اپنی کھڑکی بند نہیں کی۔ وہ دُلہن بنی ہوئی مسجد کی سیڑھیوں کو دیکھنے لگی۔
جہاں آج صبح مزمل کھڑا تھا۔ اُس نے ماہم کو دیکھا نظریں جھکائیں اور واپس مسجد میں چلا گیا۔
”وہ واپس مسجد میں کیا لینے گیا ہے؟“ اُس وقت ماہم کھڑکی میں کھڑی ہوئی یہ سوچ رہی تھی۔
”ہر شے من جانب اللہ ہے۔ یا للہ…! اے میرے مالک…! میں نے تجھ سے مانگنا چھوڑ دیا تھا۔ آج پھر مانگتا ہوں اپنی محبت کو۔ مالک…!تو مسبب الاسباب ہے، میں نہیں جانتا تو کیسے کرے گا بس تو ہی کر سکتا ہے۔
مجھے ماہم عطا کر دے پورے مرتبے اور مقام کے ساتھ۔“ مزمل مسجد میں آنے کے بعد سجدے میں گڑ گڑا رہا تھا۔ اُس کے اشکوں سے مصلیٰ بھیگ گیا تھا۔ اُس نے دعا مانگی۔ رومال سے اپنی بھیگی پلکیں صاف کیں۔ سیڑھیاں اُترتے ہوئے ایک نظر اپنے محبوب پر ڈالی اور لاہور چلا گیا۔
وہ ٹیرس پر کھڑا ہوا رات بھر کھڑکی کے متعلق سوچتا رہا اور ماہم رات بھر کھڑکی سے باہر سیڑھیوں کو دیکھتی رہی۔

Chapters / Baab of Mann Kay Muhallay Mein By Shakeel Ahmed Chohan