Episode 18 - Mann Kay Muhallay Mein By Shakeel Ahmed Chohan

قسط نمبر18 - من کے محلے میں - شکیل احمد چوہان

عشال…! ایک بات بتاؤ…! تمھیں کیوں اتنی فکر ہے میری اور اپنے رشتے دارکی؟“ ماہم نے جانچتی نظروں سے عشال کو کریدا تھا۔
”کیوں ہے فکر؟ ایک کفارہ ہے…اور دوسرا احسان۔“ عشال نے کھوئے ہوئے جواب دیا۔
”دوستی میں کوئی احسان نہیں ہوتا۔“ ماہم نے غور سے عشال کی طرف دیکھتے ہوئے بتایا۔
”ٹھیک کہا تم نے، میں تو صرف کوشش کر رہی ہوں، جو تم نے میرے لیے کی تھی۔
میں تو ابّا سے شاید بات بھی نہ کرسکتی۔ تم نے اُنہیں ایگری کر لیا تھا۔ مجھے تو خواب ہی لگتا ہے کہ میرا نکاح ہوگیا۔ وہ بھی اُس سے جسے میں نے چاہا۔“
”حارث بھائی سے بات ہوتی ہے؟“ ماہم نے پوچھا۔
”ابھی تھوڑی دیر پہلے اُن کا فون آیا تھا، کہہ رہے تھے جلدی جلدی انگریزی بولنا سیکھ لو۔ جلد ہی میں تمھیں بلا لوں گا۔

(جاری ہے)

“ عشال کے چہرے پر خوشیوں کا جھرنا بہنے لگا۔


”ماہم تمھاری شادی سے پہلے تو میں مانچسٹر و سٹر کہیں بھی نہیں جاؤ ں گی۔“
ماہم یہ سن کر خاموش ہی رہی۔ وہ اپنی جگہ سے اُٹھی اور سنگھار میز کے سامنے آکر بیٹھ گئی۔ ماہم کی بلی آنکھوں میں سرخ ڈورے تھے۔ ماہم نے آئینے میں اپنی آنکھوں کو دیکھا جن میں نیند کی بھوک تھی۔
”آرام سے بیٹھ جاؤ۔ ابھی تمھارے اسٹیچز بھی نہیں کھلے۔ کیا تمھیں درد نہیں ہو رہا ہے؟“ عشال نے حلیمی سے پوچھا تھا۔
اُتنی ہی بے فکری سے ماہم نے سنگھار میز کے سامنے بیٹھے ہوئے نفی میں گردن ہلا دی۔
”درپن (آئینہ) سامنے بیٹھے ہوئے شخص کی صورت ہی دکھا سکتا ہے، اُس کا درد نہیں…ایک دفعہ حارث نے کہا تھا۔“ عشال آئینے کے سامنے بیٹھی ہوئی۔ ماہم کے عکس کو دیکھ کر کہہ رہی تھی۔
”تم کس درد کی بات کر رہی ہو؟“ ماہم نے سنجیدگی سے پوچھا۔
”وہ درد جو تمھارے دل میں ہے اور اس وقت تمھاری آنکھوں میں خون بن کر اُتر آیا ہے۔
آئی سویئر تم ابھی رو دو تو خون کے آنسو ٹپکیں گے تمھاری ان خوب صورت آنکھوں سے۔“
”مسز حارث ملک …! احسان تو تم میرا چکا رہی ہو یہ کفارہ کس کا اداکر رہی ہو؟“ ماہم نے شعوری طور پر موضوع بدلا۔
”وہ پھر کبھی بتاؤں گی۔“ عشال نے بات کو ٹالنے کی کوشش کی۔
تم ہر بات کو پھر کبھی تک کیوں لے جاتی ہو…ابھی کیوں نہیں…“ ماہم کافی دیر عشال سے نظریں ملانے کی کوشش کرتی رہی، مگر عشال نے اُس کی طرف دیکھا ہی نہیں۔

”مجھے خوشی بھی ہے…اور گلہ بھی۔ خوشی اس بات کی کہ تم نے کبھی بھی اپنے والدین کو بُرا نہیں کہا۔ گلہ اس بات کا میں ساری زندگی یہی سمجھتی رہی کہ میں تمھارے بارے میں سب کچھ جانتی ہوں۔ عشال مجھے احسان کا بدلہ نہیں چاہیے اور جہاں تک اپنے والدین کے گناہوں کے کفارے کی بات ہے۔ وہ تم پر بنتا ہی نہیں ہے۔ جو تمھارے والدین نے مزمل کے ساتھ کیا وہی کچھ اُس کے والدین نے تمھارے ساتھ بھی تو کیا تھا پھر کفارہ کیسا؟ حکیم چاچا نے چند دن پہلے ہی مجھے یہ سب کچھ بتایا تھا۔
“عشال کے چہرے پر ایک لمحے کے لیے خوف نے دستک دی ۔ دوسرے لمحے ہی اُسے حکیم صاحب کا خیال آگیا وہ کہنے لگی :
”ماہم …! ابّا کہتے ہیں کہ اُنھیں مجھ پر فخر ہے۔ میرا خیال ہے کہ اگر انکل زندہ ہوتے تو وہ تم پر زیادہ فخر کرتے۔ ایک بگڑا ہوا شخص جو تم سے منسوب ہے تم صرف اس لیے اُس سے شادی کر رہی ہو کہ تمھارے مرحوم باپ کی زبان کا سوال ہے۔ میں نے اپنے زندہ پیرنٹس کو خود کی نظروں میں مار دیا اور تم اپنے مرحوم باپ کو زندہ رکھے ہوئے ہو۔

عشال کے موبائل پر میسج کی بیپ ہوئی۔ عشال نے میسج پڑھا۔
”یہ دیکھو تمھارے اُس کا میسج آیا ہے۔“عشال اپنی جگہ سے اُٹھی اور ماہم کے سامنے جا کر کھڑی ہوگئی۔ موبائل اُس کے سامنے کیا۔ ”م“ کے نام سے ایک نمبر Saveتھا۔
”Can I Call You?“ میسج یہ تھا۔ ماہم نے پڑھا ۔ عشال نے آنکھوں سے پوچھا۔ ماہم نے بغیر کسی جواب کے موبائل عشال کی طرف بڑھا دیا۔

”Yes“ عشال نے موبائل پکڑ کر جواب ٹائپ کر دیا۔ ایک منٹ کے اندر اندر مزمل کی کال آگئی تھی۔
”ہیلو مسٹر مزمل…!“ عشال نے اسٹائل سے کہا اور ساتھ ہی اسپیکر بھی اوپن کر دیا۔
”جی عشال…! کیسی ہیں آپ؟“مزمل کی آواز کمرے میں گونجی۔
”آئی ایم فائن۔“ عشال نے برٹش ایکسنٹ میں جواب دیا۔
”مسٹر مزمل …! آر یو آل رائٹ؟ آپ ہمیشہ مجھے ”تم “ کہتے رہے۔
آج ”آپ“ پر آگئے، کوئی خاص وجہ ؟“
”آج مجھے احساس ہوا کہ تمھیں آپ ہی کہنا چاہیے۔“
” وہ کیوں؟“ عشال نے ماہم کو چھیڑتے ہوئے مزمل سے پوچھا۔
”عشال…! جنہیں ہم عام سمجھتے ہیں ، وہ کسی نہ کسی کے لیے خاص ہوتے ہیں اور جنھیں ہم تم کہتے ہیں، وہ کسی نہ کسی کے آپ ہوتے ہیں۔ خیر چھوڑیں مجھے آپ سے کچھ کہنا ہے۔“
”Tell me“ عشال نے کندھے اُچکاتے ہوئے کہا۔

”میں کل والی بات پر آپ سے معذرت چاہتا ہوں۔ میں نے آپ سے تلخی سے بات کی تھی۔“ مزمل نے کھلے دل کے ساتھ اعتراف کیا تھا۔
”آپ تو ہمیشہ اینگری ینگ مین بنے رہتے ہیں۔ آج یہ رومینٹک ہیرو کہاں سے آٹپکا“ عشال نے حیرت سے کہا۔
”آج ایک مسکراہٹ دیکھ کر مسکرانے کو جی چاہتا ہے۔“
اگر وہ مسکراہٹ والی کسی اور کی ہوگئی تو؟“ عشال نے ماہم کے چہرے کو دیکھتے ہوئے پوچھا۔

”تو …میں اُس مسکراہٹ کے سہارے ہی اپنی زندگی گزار لوں گا۔“ مزمل نے ہولے سے جواب دیا۔
”مسٹر مزمل …! ڈونٹ مائینڈ۔ مجھے تو آپ دونوں پاگل سے لگتے ہو۔ کافی آؤٹ آف فیشن قسم کی محبت ہے۔ میں آپ دونوں کو ملانا چاہتی ہوں، کسی طرح کی بھی ہیلپ چاہیے ہو تو میں حاضر ہو۔“ عشال نے اپنی خدمات کی آفر دے دی۔
”ایک طرف ماسٹر محمود صاحب کی طے کی ہوئی نسبت ہے اور دوسری طرف میری محبت۔
دیکھتے ہیں جیت کس کی ہوتی ہے“ مزمل ہم کلام تو تھا عشال سے سن سب کچھ رہی تھی ماہم چوہدری۔
”اگر نسبت ٹوٹ جائے تو…محبت خود بہ خود جیت جائے گی۔“ عشال نے مزمل کو محبت پانے کا نسخہ بتایا۔
”عشال…! آپ کی فرینڈ کو نسبت والے سے محبت نہیں ہے۔ نسبت طے کرنے والے سے عشق ضرور ہے۔ حکیم صاحب نے مجھے بتایا تھا۔میں نے ساری زندگی اپنے پیرنٹس سے نفرت کی۔
اب اپنی محبت پانے کے لیے کسی کے عشق سے ٹکرانا نہیں چاہتا، ویسے بھی محبت خلوص سے جیتی جاتی ہے چالاکی سے نہیں۔
ایک بات بتاؤں عشال ،چوہدری شمعون کی پچھلے دس سال کی ہسٹری میرے پاس ہے آڈیو، ویڈیو کے ساتھ۔ مجھے پتا ہے ماہم اُسے جواز بنا کر بھی انکار نہیں کرے گی۔ میں خود بھی چوہدری شمعون سے انکار کروا سکتا ہوں، لیکن ایسا میں نہیں کروں گا۔
“ مزمل نے اپنی محبت کے اصول بتائے جو عشال کو پسند نہ آئے تھے۔
”کیا لاہور اور گوجرانوالہ کے درمیان کوئی مینٹل ہاسپٹل ہے؟ آئی ایم ڈپریسڈ اور تم دونوں کو کوئی فکر ہی نہیں ہے۔ اگلے مہینے مزمل…! اُس کی شادی ہے۔“ عشال نے سختی سے شادی پر زور دے کر کہا تھا۔ اُتنی ہی دھیرج سے مزمل نے جواب دیا:
”مجھے پتا ہے۔“
”تمھیں پتا ہے…اوکے…بائے…“ عشال نے غصے سے موبائل بیڈ پر پٹخ دیا۔

”کیوں غصہ کر رہی ہو؟ “
”یہ تم پوچھ رہی ہو۔ اگلے مہینے تمھاری اُس جانور چوہدری شمعون کے ساتھ شادی ہے۔ دن کو اُس گدھے کے منہ میں تمباکو والے پان ہوتے ہیں اور رات کو اُس کے ہاتھ میں شراب کا گلاس۔ سارے علاقے میں اُس کی ر یپوٹیشن بھی خراب ہے۔ تم کیوں کمپرومائز کر رہی ہو میری سمجھ سے باہر ہے۔ ماہم میں ابّا سے کہتی ہوں وہ شمعون کے ابّا سے بات کرتے ہیں۔
“ اس بار عشال قدرے خفا تھی۔
”دفعہ کرو شادی کو…تم یہ بتاؤ تم نے اُن کا نمبر ”م“ کے نام سے کیوں Saveکیا ہے؟“ ماہم سنگھار میز کے سامنے سے اُٹھی۔ بیڈ سے عشال کا فون اُٹھایا۔ اُسے شانت کرنے کے لیے اُس کے گال پر اُلفت سے ہاتھ پھیرا اور بڑی محبت سے اُ سے بیڈ پر اپنے سامنے بٹھا لیا۔ ماہم نے بھی مزمل کی طرح دھیرج کا مظاہرہ کیا۔ اُس نے یہ سب کچھ ہولے ہولے رُک رُک کر کہا تھا۔
عشال کے چہرے پر حیرت بکھری ہوئی تھی۔
”میں نے تم سے کچھ پوچھا ہے۔“ ماہم نے عشال کو ہلا کر دوبارہ کہا۔
”کیا پوچھا تھا؟“ وہ ایسے بولی جیسے نیند سے جاگی ہو۔
”اُن کا نمبر ”م“ کے نام سے کیوں Saveکیا ہے؟“
”مجھے چائے پلواؤ۔“عشال نے سُنی ان سُنی کر دی۔
ماہم نے مومنہ کو فون کیا۔ وہ تھوڑی دیر بعد چائے لے کر آگئی۔ چائے پینے کے دوران اُن دونوں میں مزید کوئی بات نہیں ہوئی۔

”تم نے اپنے اسکول کا نام کیوں ”م“ رکھا ہے؟“ عشال نے بتانے کی بجائے اُلٹا پوچھ لیا۔
”ابّو جی کہا کرتے تھے ساری کائنات دو میموں کے صدقے سے وجود میں آئی۔ کہتے تھے۔ ”م“ سے شروع ہونے والا سفر ”م“ سے ہو کر اپنی منزل تک پہنچا تھا۔“
”م سے …م…میں سمجھی نہیں۔“ عشال نے حیرانی سے پوچھا۔
”مکہ سے مدینہ … پھر مسجد سے منبر، محراب تک … مسلمان سے مومن کے مرتبہ و مقام تک…ماں کی ممتا سے مان تک…محرم سے محبت …پھر محبوب سے مختار تک۔

مکہ سے محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی معراج تک…سب کچھ ”م“ سے شروع ہو کر”م“ پر ختم ہوتا ہے۔
نگاہِ عشق و مستی میں وہی اوّل وہی آخر
وہی قرآں وہی فرقاں وہی یاسیں وہی طٰہٰ
عشال نے اپنی سانسیں روک لیں جب ماہم بات کر رہی تھی۔
”یہ سب کچھ انکل جی کہا کرتے تھے؟“ عشال نے اشتیاق سے پوچھا۔
”ہاں…!ابّو جی کو م سے شروع ہونے والے ناموں سے بڑی محبت تھی۔
اس لیے ہم دونوں بہنوں کا نام اُنھوں نے م سے ہی رکھا ماہم اور مومنہ۔“
”ماہم جی…آپ کے گھر کے سارے افراد کے ناموں میں دو میمیں آتی ہیں۔ محمود، مریم،مومنہ، ماہم اور چوہدری شمعون کے نام میں ایک”م“ ہے۔ مزمل میں دو…ہیں۔ تمھارا تو پتہ نہیں البتہ مجھے اپنے سارے سوالوں کے جواب مل گئے۔ اچھا میں چلتی ہوں۔“ عشال نے یہ کہا اور مزید کچھ کہے بغیر وہاں سے چلی گئی۔

Chapters / Baab of Mann Kay Muhallay Mein By Shakeel Ahmed Chohan